سرینگر// انسانی حقوق کے عالمی دن پرتہاڑ جیل میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے احتشام اور مشتاق کے اہل خانہ نے یہ معاملہ مرکز کی طرف سے نامزد امیدوار دنیشور شرما کے ساتھ انکے آئندہ دورہ وادی کے دوران اٹھانے کا من بنالیا ہے ۔مشتاق کو شادی کے6ماہ بعد ہی گرفتار کیا گیا،جس کے بعد انکی نئی نویلی دلہن اور اہلیہ ذہنی تنائو میں مبتلا ہوچکی ہیں،جبکہ بائیو ٹیکنالوجی کے طالب علم احتشام کے والدین کو اپنے زخمی بیٹے کی جدائی کا غم ستا رہا ہے۔سوپور پولیس کا کہنا ہے کہ احتشام کو دہلی میں گرفتار کیا گیا،اس لئے ان کے کیس کے بارے میں معلومات نہیں ہے۔ ایشاء کے سب سے بڑے زندان تہاڑ جیل میں21نومبر کی شام کو18قیدیوں کو تامل سپیشل فورس نے لہو لہان کیا،جبکہ ان قیدیوں میں حزب سربراہ سید صلاح الدین کے فرزند شاہد یوسف سمیت مزید کشمیری اسیران بھی موجود تھے۔ زخمیوں میں شامل وزیر اعلیٰ کے آبائی قصبہ بجبہاڑہ کے کنلون علاقے سے تعلق رکھنے والے مشتاق احمدلون کو جون2014میں گرفتار کیا گیا۔پیشہ سے دکاندار مشتاق احمد کے والد عبدالحمید لون نے بتایا کہ25برس کے مشتاق احمد کو پہلے2011میں سرینگر سے گرفتار کر کے سوپور پہنچایا گیا،جہاں پر وہ ایک ماہ بند رہے،اور بعد میں ضمانت پر رہا ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اس دوران مشتاق پر سنگبازی کا الزام عائد کیا گیا،جبکہ وہ اس وقت سیب اور دیگر پھلوں کا کاروبار کرتا تھا۔انہوں نے کہا کہ بعد میں انہیں جون2014 راج باغ تھانے نے طلب کیا اور بعد میں جانے کی اجازت دی گئی،تاہم اگلے ہی روز ایک مرتبہ پھر انہیں مذکورہ تھانے میں طلب کیا گیا،اور شام کو اہل خانہ کو اطلاع دی گئی کہ انکے کپڑے روانہ کریں،کیونکہ انہیں گرفتار کر کے تہاڑ جیل روانہ کیا جانا ہے۔انہوں نے کہا کہ بعد میں ان سے3لاکھ روپے کی رقم برآمد کرنے کا الزام عائد کیا گیا،جبکہ چالان عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ کئی عارضوں میں مبتلا عبدالحمید لون نے کہا’’ مشتاق کی شادی صرف6ماہ قبل ہی ہوئی تھی،جب اس کو گرفتار کیا گیا،جس کے بعد انکی اہلیہ اپنے شوہر کی فرقت میں ذہنی بیماری میں مبتلا ہوئی‘‘۔لون نے بتایا کہ مشتاق کی اہلیہ بھی شاید ایک ہی بار اپنے شوہر سے گرفتاری کے بعد ملی،جبکہ مشتاق کی والدہ بھی جدائی اور کرب کی وجہ سے ذہنی بیماری میں مبتلا ہوچکی ہے۔انکا کہنا ہے کہ مشتاق نے بنک سے دکان چلانے کیلئے قرضہ لیا تھا،تاہم گرفتاری کے بعد دکان بند ہوا،اور قرضہ معہ سود چکانے کیلئے کنبے کو اپنی اراضی فروخت کرنی پڑی۔معاشی بد حالی سے دو چار عبدالحمید لون کا دل اپنے بیٹے کے زخمی ہونے بعد جدائی میں پگھل چکا ہے۔انکا کہنا ہے’’ تہاڑ جانے کیلئے میرے لئے سفری اخراجات بھی نہیں ہے،اس لئے میں اپنی اہلیہ کو بھی دلاسہ دے رہا ہو،کہ مشتاق ٹھیک ہیں،وگر نہ میں ہی جانتا ہو کہ زخمی بیٹے کی خبر سن کر میرے دل پر کیا بیت رہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مشتاق کی والدہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے،اور وہ صرف اپنے زخمی بیٹے سے ملنے کی ضد کر رہی ہیں،مگر مفلسی اور لاچاری سامنے آرہی ہیں۔لاٹھی کے سہارے کھڑے عبدالحمید لون نے اپنی آنکھوں سے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا کہ میں نے صرف ایک بار اپنے بیٹے سے ملاقات کی ،اور چند دنوں کیلئے انہیں پیرول پر چھوڑ دیا گیا تھا،تو اس سے ملی تھے۔انہوں نے فریاد کرتے ہوئے کہا کہ انکے بیٹے کی جلد از جلد رہائی عمل میں لائی جائے،اور فی الحال انہیں سرینگر سینٹرل جیل منتقل کیا جائے۔سوپور پولیس کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ انہیں کیس سے متعلق کوئی علمیت نہیں ہے۔ اس واقعہ کو پہلی مرتبہ منظر عام پر لانے والے احتشام کا تعلق شمالی قصبہ سوپور سے ہیں۔ احتشام ملک کے والد فاروق احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بائیوٹیکنالوجی مضمون کا طالب علم احتشام فروری2012میں گرفتار ہوا،جبکہ انکا کہنا تھا کہ انکا بیٹا بالکل بے قصور ہے۔انہو ں نے کہا کہ اصل میں احتشام کا ننہال بنارس میں ہے،اور اس کی ایک ایک ماسی کی شادی کراچی پاکستان میں ہوئی،جبکہ2011میں احتشام کے موسا کا انتقال ہوا،جس کے بعد وہ پاکستان چلے گئے۔فاروق احمد نے بتایا کہ اسی پاداش میں انہیں بعد میں دہلی سپیشل پولیس نے2012میں تغلق آباد سے گرفتار کیا،اور تب سے لیکر وہ جیل میں ہی نظر بند ہیں۔ ایس پی سوپور ڈاکٹر ہرمیت سنگھ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ احتشام کو چونکہ دہلی کی سپیشل پولیس سے وابستہ اہلکاروں نے گرفتار کیا ہے،اس لئے انہیں ان پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں کوئی بھی علمیت نہیں ہے۔ادھر احتشام کے والدنے کہا کہ ماضی میں جب بھی وہ جیل میں ملاقات کیلئے گئے تو انہیں جیل عملہ کی طرف سے سخت برتائو کا سامنا کرنا پڑا،کیونکہ کشمیریوں کیلئے وہاں پر ماحول ٹھیک نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ احتشام کے مستقبل کو پہلے ہی انہوں نے تاریک بنا دیا،اور اب اس کی زندگی سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ملک کا کہنا تھا کہ جب سے انکے بیٹے پر زندان خانہ میں حملہ ہوا ہے،وہ بیٹے کی سلامتی سے متعلق بہت فکر مند ہے،جبکہ والدین کے راتوں کی نیند بھی حرام ہو چکی ہے۔فاروق احمد ملک نے مطالبہ کیا کہ زخمی کشمیری قیدیوں کوبلا مشروط سرینگر جیل میں منتقل کیا جانا چاہے۔انہوں نے کہا کہ جیل میں زخمی ہوئے اسیران کے والدین نے کوشش کی تھی کہ یہ معاملہ نامزد مذاکراتکار سے اٹھایا جائے،تاکہ انکی نوٹس میں یہ بات لائی جائے کہ تشدد اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چلا سکتا،تاہم وہ ان سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام ہوئے۔فاروق احمد نے کہا کہ دنیشور شرما کے آئندہ دورے کے دوران انہیں اس بات سے ضرور آگاہ کیا جائے گا۔