عوام اپنے پیاروں کے باقیات دوسری جگہ پر منتقل کرنے پر مجبور، علاقے میں رنج و علم کا ماحول
عظمیٰ یاسمین
تھنہ منڈی// سب ڈویژن تھنہ منڈی کے منیہال علاقہ میں تھنہ-بفلیاز مغل روڈ کی تعمیر و توسیع، عوام کے لئے سہولت کا خواب لے کر آئی تھی، مگر یہ خواب اب ایک بھیانک حقیقت میں بدل چکا ہے۔ حالیہ موسلادھار بارشوں کے بعد یہاں کا منظر قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ سڑکیں اْکھڑ گئیں، زمینیں کھسک گئیں، مکانوں میں دراڑیں پڑ گئیں اور سب سے بڑھ کر قبریں بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ آنسوؤں اور آہوں کے درمیان مقامی مکین اپنے پیاروں کی باقیات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بوسیدہ ہڈیاں اور ٹوٹے ڈھانچے ہاتھوں میں تھامے لوگوں کی آنکھوں میں وہ درد جھلک رہا تھا جسے الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک بزرگ نے لرزتی آواز میں کہاکہ ’’صدیوں بعد زخم ہرا ہو گیا ہے آج ایک گھر نہیں، پورا گاؤں موت کے سائے میں ڈوبا ہے‘‘۔متاثرین کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر میں بنیادی انجینئرنگ اصولوں کو نظر انداز کیا گیا۔ ڈھلوانوں کو محفوظ بنانے، ڈنگہ نالی اور کلوٹ تعمیر کرنے جیسے ضروری اقدامات نہیں کئے گئے۔ بلا ضرورت پہاڑی کٹائی نے زمینوں کو کمزور کر دیا۔ بارش کے ساتھ روڈ پر ڈالی گئی بجری اور مٹی بہہ گئی، سڑک ناقابل استعمال ہو گئی اور ملحقہ زمینیں لینڈ سلائیڈنگ کی نذر ہو گئیں۔ ایک خاتون نے روتے ہوئے کہاکہ ’’ہمارے بچے نہ پڑھ سکتے ہیں، نہ ہی کسی محفوظ جگہ رہ سکتے ہیں۔ رات کو نیند اس خوف سے اْڑ گئی ہے کہ کہیں مکان زمین بوس نہ ہو جائے‘‘۔ایک مقامی نوجوان امجد خان نے الزام لگایا کہ اس منصوبے پر 400 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کئے گئے، مگر زمینی سطح پر کام کا معیار انتہائی ناقص رہا۔ ‘‘نہ پیسے کا پتہ ہے، نہ کام کا صرف نقصان اور آنسو رہ گئے ہیں۔’’ انہوں نے مطالبہ کیا کہ متعلقہ تعمیراتی ایجنسی اور بی آر او کو بلیک لسٹ کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، اور سی بی آئی انکوائری کروائی جائے تاکہ سچائی سامنے آ سکے۔ بھاری لینڈ سلائیڈنگ کے باعث علاقہ 24 گھنٹے تک باقی دنیا سے کٹ گیا۔ مقامی افراد اور انتظامیہ کی کاوشوں سے ٹریفک بحال ہوئی، مگر مکین اب بھی خوف اور بے بسی کی فضا میں جی رہے ہیں۔ اگر بارشوں کا یہی سلسلہ جاری رہا تو پورے علاقے کے زمین میں دھنس جانے کا خدشہ ہے۔ علاقہ مکینوں نے حکومت جموں و کشمیر سے فوری ریلیف پیکیج جاری کرنے، متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے اور ذمہ داران کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ آنے والی نسلیں اس بے حسی اور غفلت کا شکار نہ ہوں۔