عظمیٰ یاسمین
تھنہ منڈی // سب ڈویژن تھنہ منڈی کے دیہی علاقوں میں عوام نے شدید سردی کے موسم میں تیل خاکی اور چینی کی عدم دستیابی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی ضروریات زندگی ہیں، اور ان کی کمی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو ناقابل برداشت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔تھنہ منڈی کے اکثر دیہات پہاڑی علاقے پر مشتمل ہیں جہاں سردی کے موسم میں زندگی پہلے ہی مشکلات سے بھری ہوتی ہے۔ ان علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچولی ایک عام مسئلہ ہے جس کی وجہ سے لوگ روشنی اور گرمائش کے لئے تیل خاکی پر انحصار کرتے ہیں تاہم، حالیہ دنوں میں تیل خاکی کی سپلائی اچانک بند کر دی گئی ہے، جس سے عوام کو نہ صرف روشنی کے مسائل کا سامنا ہے بلکہ زندگی گزارنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔مکینوں نے بتایا کہ محکمہ امور صارفین و عوامی تقسیم کاری نے بغیر کسی اطلاع کے تیل خاکی اور چینی کی فراہمی معطل کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خراب موسم کے دوران یہ اقدام عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ بجلی کی غیر معیاری سپلائی اور رسوئی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ نے ان کی مشکلات کو دوگنا کر دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’تیل خاکی پہاڑی علاقوں میں ہماری زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ بجلی اکثر غائب رہتی ہے، اور رسوئی گیس کی قیمت عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔ ایسے میں تیل خاکی کی عدم دستیابی ہماری زندگیوں کو مزید مشکل بنا رہی ہے‘‘۔دیہاتیوں نے انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ وہ تیل خاکی اور چینی کی سپلائی کو فوری طور پر بحال کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف پہاڑی علاقوں کی بات نہیں، بلکہ پورے سب ڈویڑن کے لوگ اس وقت مشکلات سے دوچار ہیں۔عوام کا کہنا ہے کہ محکمہ امور صارفین و عوامی تقسیم کاری کی جانب سے ان کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کئے گئے تو وہ احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔عوام نے ضلع ترقیاتی کمشنر راجوری اور دیگر متعلقہ حکام سے درخواست کی ہے کہ وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ سردیوں کے موسم میں تیل خاکی اور چینی جیسے بنیادی اشیاء کی سپلائی جاری رہے۔دیہی علاقوں کے لوگوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کے مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے گا تاکہ ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا ہو سکے۔ عوام کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک سپلائی کا مسئلہ نہیں بلکہ ان کی زندگیوں کا معاملہ ہے، اور اس کے لئے حکومت کو سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔