حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے فیضِ صحبت نے جہاں اسلامی دنیا کے بڑے مفسرین و مبلغین داعیانِ دین ،درسگاہوں کے منتظمین و مدرسین وغیرہ دئے، وہیں شاعرِ عرفانیات کے لقب سے اُردو دنیا میں جاننے والے عزالحسن مجذوبؔ بھی حضرت تھانوی کا ایک ایسا انمول تحفہ ہے جسے شعرو ادب کی دنیا اور دینی حلقوں میں بہت دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ دنیاوی علوم کا پڑھا لکھا وہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ کسی بوریہ نشیں کا اس قدر گرویدہ ہو جائے کہ حکومت سے بغیر تنخواہ لمبی رخصتی لے کر اسی کے درپر پڑا رہے اور جب مرشد کا انتقال ہو جائے تو غم سے نڈھال ہو جائے۔
خواجہ صاحب اور حضرت تھانوی ؒ صاحب کا تعلق امیر خسروؒ اور حضرت نظام الدین اولیاؒ کی طرح تھا کہ ایک دوسرے کے بغیر بے قرار ہوجاتے تھے۔ یہ ایک دوسرے کے مرشد و مرید ہی نہ تھے بلکہ محبوب و محب بھی تھے۔ کہتے ہے کہ صلحاء علماء کی صحبت انسان کو مہذب بناتی ہے۔ مجذوب کو اپنے والد محترم کے تربیت نے ادب و اخلاق کے زینے طے کرائے تھے پھر جب حضرت تھانوی کے ارادت بندوں میں شامل ہو گئے تو اکسیر بن گئے۔گریجوویشن کے دوران تعلیم سے بے رقبتی ہونے لگی تو گھر والوں کو فکر لا حق ہو گئی کسی طرح حضرت تھانوی تک یہ بات پہنچ گئی تو انہوں نے مجذوب کو لکھ بھیجا۔’’ایسے نہ بنو کہ دنیا تمہیں ناکارہ و بے عمل قرار دے۔ تعلیم کے جس کام میں لگے ہو اس میں اوروں سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرو‘‘۔ ایک دفعہ ڈپٹی کلکڑی کے امتحان کی تیاری طبع پہ ناگوار گذری اور پھر امتحان نہ دینے کا سوچ لیا۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ملی تو یوں نصیحت کی ’’امتحان کو ضرور پاس کر لینا چاہئے تاکہ اہلِ دنیا کی نظر میں ذلت نہ ہو۔ اس مردار دنیا کو حاصل کرنے کے بعد چھوڑ دینا چاہئے۔ تارک الدنیا ہونا چاہئے نہ کہ متروک الدنیا‘‘۔ پھر جب ڈپٹی کلیکٹری کی نوکری مل گئی تو مقدمات کے مشورے حضرت تھانوی سے ہی کیا کرتے تھے۔اور پھر شرعی احکام اور جذئیات پر لمبی گفتگو ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ اپنے مرشدسے شاعری چھوڑ نے کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا ’’آپ یہ فن نہ بھول جائیں۔یہ شاعری بھی کمال کی چیز ہے جس کا بھولنا ٹھیک نہیں‘‘ لیکن جب مجذوب کا جوشِ شاعری زیادہ بڑھنے لگا اور ہر وقت شعر و شاعری کا شغل رہتا تو حضرت نے توبہ کرائی۔ لیکن کبھی کبھارا پنے دوست و احباب کے اصرار پر پھرلَے میں آجاتے تھے ؎
ہمیشہ ہم تو کر لیتے ہیں تو بہ شعر خوانی سے
کریں کیا چھیڑ کر احباب پھر مجبور کرتے ہیںملازم ہمیشہ ترقی کا خواہاں ہوتا ہے۔ اُسے ہر وقت یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کب اگلے گریڈ میں پہنچ جائے ۔لیکن یہ ایک مجذوب تھا جس نے گریڈ کے اعتبار سے تنزلی تو قبول کی لیکن سود کی ڈگری دینے سے انکار کیا۔ یعنی مجذوب کو ڈپٹی کلیکٹری میں ہر ماہ ساڈھے تین سوروپیے تنخواہ ملتی تھی۔ لیکن یہاں پر اُسے سود کے مقدمے طے کرنے ہوتے تھے جس کے لئے وہ تیار نہیں تھا۔ اس لئے حکومت نے اُن کا تبادلہ محکمہ ایجوکیشن میں بطور ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے طور پر کرایا۔ اس پوسٹ کے لئے انھیں ماہوار ڈیڑھ سو روپیے تنخواہ مقرر ہوئی ۔ مجذوب نے خوشی خوشی اس کو قبول کیا۔ دوستوں نے طعنہ دیا کہ انسان تو ترقی کی سوچتا ہے اور آپ نے تزل کیا تو فرمایا ؎
کہنے کا ہم نشین مانتا میں بُرا نہیں
صاحبِ نظر کے سامنے ہائے ابھی پڑا نہیں
خواجہ صاحب اپنا زیادہ وقت حضرت کی صحبت میں گذارنے کو خوش قسمتی سمجھتے تھے۔ شیخ سے دوری ان کے لئے اضطراب قلب کا سبب ہو رہی تھی اسی لئے حکومت سے لمبی چھٹیاں (کبھی بغیر تنخواہ اور کبھی نصف تنخواہ پر) لے کر حضرت کی صحبت میں آجاتے تھے۔ ان کے اپنے متعلقین اور رشتہ داروں پر یہ کبھی کبھار شاق گذرتا تھا۔ شاید اسی لئے ایک دفعہ حضرت تھانوی صاحب نے انہیں مجلس میں شرکت کی اجازت نہیں دی تو اس پر فرمایا ہے ؎
اُدھر وہ در نہ کھولیں گے اِدھر میںدر نہ چھوڑوں گا
حکومت اپنی اپنی ہے کہیں اُن کی کہیں میری
حضرت شیخ سے انتہائی محبت کی یہ ایک ادنیٰ مثال ہے۔مجذوب کو اس بات کا احساس تھا کہ انھیں اُس مرشد سے تعلق ہے جو اپنے وقت کا قطب ہے۔ چنانچہ اشرف السوانح میں فرماتے ہیں :
’’الحمد اللہ سب سے بڑا شرف جو احقر کو بفضلہِ تعالیٰ حاصل ہے وہ یہ ہے کہ حضرت اشرف المخلوقات علیہ الصلوٰۃ والتحیات جیسے اشرف الرسل کی امت مسلمہ میں ہوں اور حضرت اشرف الزمن جیسے اشرف المشائخ کے ارادت مندوں میں ہوں۔‘‘ (جلد سوم صفحہ547)
یہ اشعار حسبِ حال ہیں ؎
ہے احدمعبود اپنا اور نبی خیر الوریٰؐ
شیخ بھی ہے قطب دوراں میں تو اس قابل نہ تھا
کر رحم کہ نسبت ہے سرکارِ دو عالمؐ سے
اور اس سے میں بیعت ہوں جو قطبِ زمانہ ہے
حضرت تھانوی کی صحبت میں جس نے بھی زانوئے تلمذ تہہ کیے اُسے بارگاہِ ایزوی میں ایک مقام مل گیا۔ اُن کے مطب میں ہر مریض نے شفا پائی۔مرید ین ترقی کرتے کرتے خود ہزاروں سالکین کے مرشد بن گئے۔ مجذوب جب نگاہِ ولی میں آگئے تو اُن کی کا یا ہی پلٹ گئی ظاہر تا باطن ہر چیز بلد گئی۔ اُن کی سیرت و صورت سے اللہ اور اللہ والوں کی یاد تازہ ہو جانے لگی۔ بلند اخلاق و وسیع القلب ہو گئے۔ معاصر شعراء و علماء ادب و احترام کرنے لگے۔ پیرنے مجذوب کا لقب دیا۔ رسالہ المفتی دیو بند میں ’’حافظ عصر‘‘ کے نام سے چھپتے رہے۔نجم الحسن کاندھلوی نے شاعرِ عرفانیات کا لقب دیا۔ حضرت کی نظر نے ان کی شاعری میں وہ رس گھول دیا جو عجب کیف و سرور میں مست کرتی ہے۔ مجذوب مشہور و معروف ہو گئے اور اپنے دور کے ہر دینی و ادبی مجلس میں ان کا نام لیا جانے لگا ۔انھیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ یہ سب کچھ حضرت تھانوی کی ہی فیض صحبت کا اثر ہے جس کا اظہار انھوں نے اپنے کلام میں ہر جگہ کیا ہے۔ مثلاً ؎
میں ہوں اک ذرہ نا چیز میں کیا میری ہستی کیا
یہ ہے شیرِ مردِ تھانوی کا فیض روحانی
حضرت مجذوب کا کشکول کھولیے تو اشرفیوں کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ اگر کشکول میں سے وہ اشعار الگ کئے جائیں جو انہوں نے اپنے مرشد کے متعلق لکھے ہیں تو الگ سے ایک مجموعہ تیار ہو جائے گا۔ اُن کی شاعری کا مقصد ہی حکیم الامت کی تعریف و توصیف بیان کرنا تھا ؎
اس انہماکِ شعر میں سچ ہے یہ معترض
اپنی خبر نہ پاس عزیزو قریب کا
مجذوب کو مگر نہیں مقصود شاعری
کوئی بہانہ چاہیے ذِکر حبیب ؐکا
پروفیسر احمد سعید نے غلط نہیں کہا ہے کہ ’’حضرت مجذوب شیخ کی شرابِ عشق میں سراپا مخمور تھے اوران کا ہر موئے بدن شیخ کی ثنا و صفت کا ایک شعر تھا۔ جس پر ان کا کلام شاہد ہے‘‘
حوضِ کوثر موجزن پیرِمغاں کے دِل میں ہے
کس میں ہے وہ بات جو اس مرشدِ کامل میں ہے
جو اشرف تھا زمانے میں جو اشرف ہے زمانے میں
میں ایسے تیرے اشرف کی عقیدت لے کے آیا ہوں
مریدین حکیمُ الامت اور اُن کے تربیت یافتہ جب جب منبر پر کھڑے ہو کر اپنے مریدین و متعلیقین کو کتاب و سنت کے گوہر پاروں سے آراستہ کرتے ہیں تو ساتھ میں حضرت تھانوں کے اقوال کو بھی گوہر پاروں کی تشریح کے ذمن میں بیان کرتے ہیں ۔لیکن مجذوب مرید ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے اس لئے اپنے شیخ کے اقوال کو شاعری میں منتقل کر کے حقِ مریدی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ’’تعلیمات اشرفیہ منظوم‘‘ عنوان کے تحت تقریباً ایک سو ستائیس اشعار لکھ کر فنِ شاعری پر دسترس ہونے کا ثبوت دیا ہے (کیونکہ نثر پارے کو نظم میں ڈھالنا بہت مشکل ہے اور جو یہ کام بخوبی انجام دیتا ہے وہ اس فن کا ماہر کہلاتا ہے)۔
چند اشعار ملا خط فرمائے ؎
چار شرطیں لازمی ہیں استفاضہ کے لئے
اطلاع و اتباع و اعتقادو انقیاد
یہ مقضٰی قول ہے رنگین بھی سنگین بھی
حضرت مرشد کا یہ ارشاد رکھ تا عمر یاد
اصلاح میں اپنی کر نہ سستی
ہمت پہ ہے منحصر درستی
فرما گئے ہیں حکیمُ الامت
سُستی کا علاج بس ہے چُستی
اسی مضمون میں ایک جگر ہم نے لکھ دیا ہے کہ مجذوبؔ دینی و ادبی حلقوں میں مشہور و معروف تھے اور ہر ایک کو معلوم تھا کہ ان کی عشق کی چنگاری کو ان کے شیخ نے ہی شعلہ بنا دیا اور یہ بھی جانتے تھے کہ مجذوب اپنے شیخ کے محبوب ترین مرید ہیں اس لئے بہت سارے لوگ ان کی وسادت سے ہی تھانوی صاحب کے حلقہ ارادت میں شامل ہو جانا چاہتے تھے۔ شاعرِ متغزلین جگر مراد آبادی بھی مجذوب کی وسادت سے ہی حضرت شیخ کے مریدین میں شامل ہو گئے تھے۔ ان ہی کے کہنے پر جگرؔ نے شراب نوشی سے توبہ کی تھی۔ کئی علمائے دین بھی جو ابھی تک دور دور سے ہی تھانوی صاحب کے کمالات کا مشاہدہ کر رہے تھے اب باضابطہ حضرت کے معتقدین میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ لیکن وہ یہ سعادت والا کام مجذوب کے ذریعے ہی تکمیل تک پہنچانا چاہتے تھے۔ حضرت مولانا مفتی جمیل احمد ان میں ایک خاص نام ہے۔ جمیل صاحب شاعر بھی تھے اس لئے ایک منظوم خط مجذوب کو لکھا جس میں انہوں نے حضرت تھانوی سے دو ررہ کر اپنی محرومی کا اور بے نصیبی کا ذکر کیا ہے۔ اس کے جواب میں مجذوب نے منظوم انداز میں ہی جمیل صاحب سے بیعت ہونے اور ان سے روحانی فیض اُٹھانے کی دعوت دی ہے۔ جب جمیل صاحب لکھتے ہیں ؎
لوگ آتے ہیں ہوتے ہیں سیراب
اور میں ہوں کہ تشنہ بر لب آب
(مکتوب اول)
ایثار کیا یہی ہے پی پی گئے اکیلے
اور مُنہ سے یہ نہ نکلا اک جام تو بھی لے لے
(مکتوب دوم)
توحضرت مجذوب نے جواب دیا ؎
فیضِ پیرِ مُغاں ہے سب کو عام
ہو بشرطِ کہ دل سے کوئی غلام
حضرت تھانوی کی حیات اور شخصیت پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ’’اشرف السوانح‘‘ان سب میں جامع اور مستند مانی جاتی ہے جس کے مولف یہی عزیزُالحسن مجذوب ہیں ۔حضرت تھانوی کے حلقہ ارادت میں سینکڑوں جلیل القدر اور متجر علماء ہونے کے باوجود ’’اشرف السونح‘‘کی تالیف کا کام مجذوب کو ہی سپرد کیا گیا چناچہ فرماتے ہیں ؎
’’ تالیف اشرف السونح کا شرف مجھے جیسے ناکارہ کو حاصل ہوجانا محض موہبتِ خداوندی ہے۔۔۔۔ غرض یہ شرف احقر کی قسمت میں ازل ہی سے لکھ دیا گیا تھا‘‘یہ وہ کتاب ہے جس نے نہ صرف علماء و صلحاء کی سوانح کتب میں اضافہ کیا بلکہ اس نے سا لکین کے لیے مشعل راہ کا کام بھی کیا: ’’اشرف السوانح‘‘چار جلدوں پر مشتمل ہے جس میں جو بیس طویل باب باندھے گئے ہیں ۔کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ بیسوں صفات لکھ کر حضرت کی خدمت میں ملاحظ کے لیے پیش کرتے تو ان میں سے چند صفحات ہی منتخب کئے جاتے۔ اس کتاب کی یہ امتیازی شان ہے کہ یہ حضرت تھانوی کے لفظً لفظً ملاحظ کے بعد شائع ہوگئی تھی۔مجذوب فرماتے ہیں ؎
نہ سمجھنا کہ یہ فسانہ ہے
علم و حکمت کا اک خزانہ ہے
نام مجذوب اس کا تاریخی
سیرت اشرف زمانہ ہے
اس کتاب کے مکمل کرنے پر حضرت تھانوی نے مجذوب کو ایک کلاہ مرحمت فرمائی جس پر خود ہی یہ شعر تصنیف فرما کر کشیدہ کرادیاـ ؎
سندے برائے جامع آن اشرف السوانح
کز حسن جاگر فتہ در قلب و در جوانح
(اس کے مرتب کے لیے یہ اشرف السوانح سند ہے کہ اس نے اپنے حسن کی وجہ سے دل و جان میں مقام حاصل کر لیاہے)
حضرت تھانوی کے ہاں بھی مجذوب کا مقام کیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجذوب کی غیر حاضری میں حلقہ مرید ین جس میں ان کی خوب تعریف کرتے تھے ایک دفعہ فرمایا ’’خواجہ صاحب سراپا دین اور عامل بالعزیمت ،قانع ،متواضع خلیفہ مجاز ہیں۔دنیا کا کوئی شائبہ بھی ان میں نہیں(ذکر مجذوب۔پروفیسر احمد سعیدصفحہ(۵۲)حضرت تھانوی علماء کا تذکرہ کرتے تو انھیں اُن کے نام سے یاد کرنے یعنی مولوی محمد شفیع ،مولوی محمدطیب ،شبیر علی وغیرہ لیکن مجذوب کو ہمارے خواجہ صاحب‘‘۔ کہہ کر پکارتے ۔حضرت تھانوی ان کے کلام کو بہت پسند کرتے تھے اور فرمایا کرتے’’خواجہ صاحب کا کلام حال ہی حال ہے ،قال کا نام نہیں‘‘۔
اپنے ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں:’’خواجہ صاحب تصوف کے دفائق غمائض کو اپنے اشعار میں ادا کرتے ہیں‘‘۔
حضرت تھانوی کو مجذوب کا یہ شعر ؎
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
بہت پسند تھا فرمایا کرتے’’جب کبھی مجھ کو یہ شعر یاد آجاتا ہے تو کم از کم تین بار پڑھے بغیر سیری نہیں ہوتی‘‘ایک دفعہ مجذوب سے فرمایا’’اگر میرے پاس اتنی رقم ہوتی تو میں ایک لاکھ روپیہ آپ کو اس شعر کا انعام دینا‘‘۔
حضرت اشرف علی تھانوی کا جب بیاسی سال کی عمر میں ۱۱ جولائی ۱۹۴۳ء کو انتقال ہوا تو اس کے بعد مجذوبؔ صرف ایک سال تک زندہ رہے۔مرشد کی جدائی سے دل و جگر غم سے لبریز ہوگیا۔اس دوران جہاں بھی گئے اسی آفتاب ہدایت اور مرکز خلائق کی باتیں تھیں۔حضرت کے انتقال کے بعد تو بہت کم لکھا لیکن جو کچھ لکھنے میں آیا حضرت شیخ کی توصیف و تعریف پر ہی مبنی تھا یا ان کی جدائی کا مرثیہ ؎
فنا اُسے کر سکے بھلا یہ اجل کی بھی دسترس کہاں ہے
وہ غیر منفک جو ایک ربطِ خفی میرے اُن کے درمیان ہے
۔۔۔۔۔۔
اب اور کچھ ہے میرے دن رات کا عالم
ہر وقت ہے اب ان سے ملاقات کا عالم
اب دل میں شب و روز جو ہے ان کا تصور
فرقت میں بھی رہتا ہے ملاقات کا عالم
ایک سو اشعار پر مشتمل ایک زور دار مرثیہ لکھ کر نہ صرف لکھتے لکھتے خود روئے ہونگے بلکہ اس مرثیہ کو جس نے بھی پڑھا ہوگا اُس کی آنکھ ضرور ڈبڈ بائی ہوگی۔یہ مرثیہ اس شعر سے شروع ہوکر۔
ہوگئے ہم سے آہ رخصت آہ
شاہ اشرف علی حق آگاہ
ان دو اشعار پر ختم ہوئے ہیں
جو عرش معلی ہے ضوبار ہردم
یہ ہے قبر کس عبدرب العلی کی
میں حیران ہی تھا کہ ہاتف نے پکارا
یہ رحلت ہے آج اشرف الاولیاء کی
………………..
رابطہ:اسسٹنٹ پرفیسر جی ڈی سی ،ہندوارہ