فہم و فراست
شیخ بلال
تکبر چاہے دولت کا ہو،طاقت کا ہو، رتبے کا ہو،حیثیت کا ہو، حسن کا ہو،علم کا ہو ،حسب و نسب کا ہو یا تقویٰ کا ہی کیوں نہ ہو ،انسان کو رسوا کر کے ہی چھوڑتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں ۔’’بیشک اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (القرآن. ٤-٣٦)
بہت مشکل ہوتا ہے ہمیں یہ جاننے میں کہ ہم تکبر میں مبتلا ہیں یا نہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن ہمیں خود یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہم تکبر کر رہے ہیں، ہماری حالت، ہمارا رتبہ جیسا بھی ہو کسی نہ کسی بات پر ہم تکبر کر ہی لیتے ہیں اور دکھاوا بھی ایسے کرتے ہیں جیسے ہم متکبر نہیں بلکہ دوسرے لوگ تکبر میں مبتلا ہیں۔ یہ جاننے کے لئے کہ کیا واقعی ہم بھی تکبر میں مبتلا ہیں ،ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تکبر کہتے کس کو ہیں ۔
لفظ تکبر ’کبر ‘ سے ہے اور اس کا معنی ہے،’’ بڑائی‘‘ جو کہ صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم گرامی ہے،’’ المتکبر ‘‘اور اس کا معنیٰ ہے ’’بڑائی والا‘‘۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ﴿’’ اور آسمانوں اور زمین میں کبریائی ( بڑائی ) اسی کیلئے ہے ۔ اور وہ زبردست اور بہت ہی حکمت والا ہے ۔‘‘(الجاثیۃ45 :37)
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ اللہ تعالی فرماتا ہے ،کبریائی (بڑائی ) میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار بند ہے ۔ لہٰذا جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے کھینچنے کی کوشش کرے گا ، تومیں اسے اٹھا کر آگ میں پھینک دوں گا ۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ’بڑائی ‘ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے اور اس کا خاص لباس ہے اور جو شخص بھی اسے اللہ تعالیٰ سے چھین کر خود پہننے کی کوشش کرے گا یعنی بڑا بننے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالی اسے جہنم کی آگ میں پھینک دے گا ۔ والعیاذ باللہ
تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جو لوگوں کو مال و دولت ،خوبصورتی، زیادہ طاقتور ہونے، زیادہ علم ہونے، زیادہ نماز و روزہ کرنے ، کی وجہ سے زیادہ آتا ہے۔ تکبر نہایت مذموم اور بری صفت ہے۔ احادیث میں تکبر پر سخت وعیدیں اور مذمتیں وارد ہوئی ہیں، ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،’’ جو تکبر کرتا ہے، وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل ومعمولی ہوتا ہے، اگرچہ وہ اپنی نظر میں بڑا ہو، بلکہ ایسا شخص لوگوں کی نظروں میں کتا یا خنزیر بھی سے زیادہ ذلیل اور معمولی ہوجاتا ہے۔ تکبر صرف یہ نہیں کہ کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت عطاء کی اور وہ اس پر ڈینگیں مارے بلکہ ہمدردی اور تعریف بٹورنے کی نیت سے خود کو بے جا بار بار کمتر بتانا، مظلومیت دکھانا، خود کو اعلیٰ گرداننے کے لیے دکھاوا کرنا، تعریف اور داد کی نیت سے دکھاوے کی اچھائیاں کرنا، نیک اور صالح بننے کی اداکاری کرنا یہ سب بھی تکبر میں شامل ہیں۔
تکبر بد بختی کی چابی ہے ۔ یعنی بد بختی کی ابتداء تکبر سے ہوتی ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل ابلیس کی بد بختی کی ابتداء ہے ، جس نے اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کیا اور بڑائی کے زعم میں مبتلا ہو کر آدم علیہ السلام سے اپنے آپ کو بہتر گرداننے لگا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ہمیشہ کیلئے دھتکار دیا اور اسے قیامت تک کیلئے ملعون قرار دے دیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بدبختی کی ابتداء تکبر سے ہوتی ہے اور یہ بھی کہ تکبر کے نتیجے میں تکبر کرنے والے شخص پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار پڑتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجاتا ہے ۔تحقیق ہے کہ کسی بھی انسان کو جس بھی چیز یا نعمت کا تکبر ہو وہ نعمت اس سے چھین لی جاتی ہے یا اگر کسی انسان کو اس بات کا تکبر ہو کہ وہ کسی گناہ میں مبتلا نہیں تو وہ اس تکبر کی نحوست سے اس گناہ میں ضرور مبتلا ہوجاتا ہے ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ بہت سارے انسانوں کے پاس دولت بھی ہے، بڑا نام ہے، بادشاہت ہے، بڑا مکان ہے، صحت مند ہیں، خوبصورت ہیں، الغرض وہ دنیاوی لحاظ سے کامیاب مانے جاتے ہیں تو وہ تکبر کیوں نہ کریں، ‘ المتکبر ‘ صرف اللہ کی ہی صفت کیوں؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ جب ہم سب کو معلوم ہے کہ جو بھی ہمارے پاس ظاہری کامیابی کے سارے انعامات موجود ہیں ،یہ فنا ہونے والے ہیں، نہ دولت رہنے والی ہے، صحت، جوانی، خوبصورتی سب کچھ فنا ہونے والا ہے تو تکبر کس بات کا۔ اللہ تعالیٰ الحیّ اور القیّوم ہے، اللہ تعالیٰ اپنے آپ میں مکمل زندگی رکھنے والا ہے، اس کو کسی کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ دوسروں کو اس کی ضرورت ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ ہر چیز ہلاک اور فنا ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات جو مستقل طور پر بذاتِ خود قائم و دائم ہے اور کسی کی وہ محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں، اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات فنا سے پاک ہے ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں تو جو ذات فنا سے پاک، زوال سے پاک ہو وہی ذات المتکبر ہوسکتی ہے ۔
آج کے دور میں ہمارے ہر کام میں تکبر، شیخی بازی، دکھاوا، بد نیتی شامل ہوتے ہیں اور نتیجتاً ہم ہر کام میں ناکام اور رسوا ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہر کام کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم دکھاوا اور شیخی بگھاریں۔ ہمارا پہننا، ہمارا کھانا پینا، ہمارا مکان بنانا، ہمارا بچوں کی پرورش کرنا، ہمارا نکاح، یہاں تک کہ ہمارا مریضوں کی عیادت کرنا ہر کام میں تکبر اور دکھاوا شامل ہوتا ہے۔جب سب کچھ فنا ہونے والا ہے اور اس بات کا مشاہدہ ہم آئے روز کرتے ہیں، ہمارے اسپتال ایسے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں جو کل تک اپنی صحت اور خوبصورتی پر تکبر کرتے تھے، ہمارے آس پاس وہ لوگ موجود ہیں جو کل تک اپنی دولت، اپنے مکان، اپنی گاڑی، اپنی اولاد پر ڈینگیں مارتے تھے اور اللہ کی زمین پر اترا کر، ایڑیاں مار کر چلتے تھے اور آج در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ہمارا سماج ان لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو کچھ دن پہلے اپنی حویلیوں پر ناز کرتے تھے اور آج جھونپڑیوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ یہ تو زندوں کی مثالیں ہیں، ہم نے ایسے لوگوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے جو لوگ اپنی زندگی میں اپنی ہزاروں کنال زمین پر اتراتے پھرتے تھے اور ان کی تدفین کے لیے دو گز زمین بھی میسر نہ ہو پائی۔ ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جو اپنی مال اور اولاد پر ڈینگیں مارتے تھے اور آخری وقت میں اسپتالوں میں تنہائی میں روتے ہوئے ہائے ہائے کرتے آہیں بھرتے اس دنیا سے چلے گئے۔ ہم اپنی صحت اور مال و دولت پر آج ڈینگیں مارتے ہیں، ایک بار کسی اسپتال کا چکر لگا کر دیکھیں وہ لوگ جو کسی غریب سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے تھے ،اسپتالوں کی چارپائیوں پر خاکروبوں تک کے محتاج ہیں۔ قارون کے خزانوں کے بارے میں کون نہیں جانتا، فرعون کی طاقت کے بارے میں کس کو جانکاری نہیں اپنی طاقت اور بادشاہت کی بناء پر تکبر کرتا تھا اور وہ اپنی قوم سے کہا کرتا تھا :’’ میں ہی تمھارا سب سے اونچا رب ہوں ‘‘۔ شداد کی دولت اور نمرود کی بادشاہت سب کو معلوم ہے، کیا قوم عاد نہیں کہتے تھے ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے ؟ ‘‘ عرب کے کفار نہیں کہتے تھے کہ ہم سے اعلیٰ تو کوئی نہیں ۔ کیا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان اقوام اور ان بادشاہوں کا کیا انجام ہوا۔ تو پھر کس بات کا تکبر؟
کس بات کا تکبر؟ صحت کا؟ وللہ ایک نس ادھر سے اُدھر ہوئی ساری ہیکڑی نکل جاتی ہے۔ مال و دولت کا؟ ذرا غور کریں قارون سے زیادہ دولت ہے ہمارے پاس؟ فرعون اور شداد سے زیادہ دولتمند ہیں ہم؟ ہمارے پاس اور ہاں ہمارے آس پاس کے وہ امراء وہ دولت مند لوگ کہاں ہیں آج۔نام بھی یاد نہیں ان کا کسی کو۔ تو پھر کس بات کا تکبر؟ ہر وہ چیز، ہر وہ نعمت جس کا ہمیں تکبر ہے فنا ہونے والی ہے، زوال پذیر ہے تو پھر کس بات کا تکبر ،کس بات کا دکھاوا ۔
واللہ تکبر بہت بھی غلیظ صفت ہے، تکبر انسان کو کہی کا نہیں چھوڑتا ۔ یہی تکبر انسان کے ایمان کو بھی چھین لیتا ہے۔ تکبر کی وجہ سے انسان اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ جس طرح بہت سے اسباب ایسے ہیں جن سے بندے کو اللہ پاک کی رحمت و مغفرت حاصل ہوتی ہے ،اسی طرح بہت سے اسباب ایسے بھی ہیں جن سے بندہ اللہ پاک کے شدید اور دردناک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے ،ان میں سے ایک سبب تکبر بھی ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ کی رحمت سے محروم اور عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے،’’بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘(پ14،النحل:23) تفسیر میں ہے : یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ پاک ان کے دلوں کے انکار اور ان کے غرور و تکبر کو جانتا ہے، بے شک اللہ پاک مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔
پس ثابت ہوتا ہے کہ تکبر انتہائی سنگین جرم ہے ۔ جو سب سے پہلے ابلیس نے کیا ، پھر مختلف انبیاء علیہم السلام کی اقوام بھی اسی تکبر میں مبتلا ہوئیں ۔ حتیٰ کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگوں نے بھی تکبر کا مظاہرہ کیا ، اور مدینہ منورہ میں منافقوں نے بھی اسی سنگین گناہ کا ارتکاب کیا ۔ معلوم ہوا کہ تکبر کافروں ، مشرکوں اور منافقوں کا شیوہ ہے ۔ لہٰذا ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ تکبر میں مبتلا ہو ۔ بلکہ مسلمان اپنے رب کے سامنے عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے اور اسی طرح وہ رب کے بندوں کے سامنے بھی بڑائی اور فخر وغرور کا اظہار نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ تواضع سے کام لیتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو ۔‘‘
چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو نوازا ہے آپ اعلیٰ رنگ ونسل اور خاندان سے ہیں، آپ کے پاس بہترین جاہ ومنصب ہے، آپ کے پاس اللہ کی عطا سے بہت مال ودولت ہے، آپ بہت حسین وجمیل ہیں، آپ طاقت وقوت والے ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہتر ذہانت وفطانت عطا کی ہے، آپ علم وبصیرت اور اعلیٰ ڈگری یافتہ ہیں تو ان چیزوں کی بناء پر تکبر میں بالکل بھی مبتلا نہ ہوجائیں بلکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہا کریں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے سے آپ کی ان نعمتوں میں بے شمار برکات ہونگی اور آپ کے یہ انعامات مفید اور نفع بخش ہونگے ،ورنہ زوال اور فنا کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں۔ ہمیں ہر وقت یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتیں استعمال کرکے اللہ کی ہی زمین پر اَکڑ کر نہ چلیں، ہمیشہ نرمی، خوش اخلاقی اور تواضع سے کام لیں۔ ہم خوبصورت، ذہین اور اعلیٰ رنگ و نسل سے ہیں تو خود پسندی میں مبتلا ہوکر تکبر نہ کریں، ہمیں اگر کوئی بڑا مقام ملا ہے تو متکبرانہ انداز میں یہ بالکل بھی پسند نہ کریں کہ ہمیں دیکھ کر لوگ کھڑے ہو جائیں۔ تکبر کے علاج کے لیے ہمیں اپنے اندر عاجزی لانی چاہیے اور مساکین، غرباء اور کمزوروں کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی حیثیت سامنے رکھ کر اللہ تعالی کی بڑائی اور کبریائی کا تصور کریں، ہم کسی بھی عہدے یا کرسی پر ہوں اپنے کام خود کریں اور اپنے اندر سے اکڑ اور بد اخلاقی اور فضول کے دکھاوے کو دور کریں ان شاء اللہ تکبر ختم ہوگا اور ہم اللہ تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہیں گے ۔
رابطہ(تلیل،بانڈی پورہ)۔6006796300
[email protected]>