تواضع زندگی کی اتنی اہم چیز ہے کہ اگر انسان کے اندر تواضع نہ ہو توگوشت پوست والا انسان حیوانیت کی سطح پر گر جاتا ہے۔ جب دل میں تواضع کی صفت نہیں ہوگی تو پھر تکبر ہوگا ،دل میں اپنی بڑائی ہوگی اور یہ تکبر اور بڑائی تمام امراض ِباطنہ کی جڑ ہے ۔حضور اکرم ؐ کا ارشاد ہے ،’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کو بلندی سے نوازتا ہے ‘‘۔اس کائنات میں سب سے پہلی نافرمانی ابلیس نے کی ۔اس نے نافرمانی کا بیج بویا ، اس سے پہلے نافرمانی اور سرکشی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ۔جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑکو پیدا کیا اور تمام فرشتوں کو اُن کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا ،تو ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا میں آدمؑ سے افضل ہوں،مجھے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے،اس لئے میں اس کو سجدہ کیوں کروں؟اس تکبر کی وجہ یہ ہوئی کہ شیطان نے اپنی عقل پر ناز کیا ،اس نے سوچا کہ میں ایک ایسی عقلی دلیل پیش کررہا ہوں جس کا توڑ مشکل ہے ،وہ یہ کہ اگر آگ اور مٹی کا تقابل کیا جائے تو آگ بظاہر مٹی سے افضل ہے، حالانکہ دونوں کی ا پنی اپنی اہمیت ہے۔اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے اپنی عقل چلائی ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بار گاہ ِخداوندی سے مسترد اور مردود ہوا ۔واضح ہوا کہ تکبر تمام گناہوں کی جڑ ہے،تکبر سے غصہ پیدا ہوتا ہے ، تکبر سے حسد پیدا ہوتا ہے ،تکبر سے بغض وعناد پیدا ہوتا ہے ،تکبر کی بنیاد پر دوسروں کی دل آزاری ہوتی ہے ،تکبر کی وجہ سے ہی دوسروں کی غیبت اور عیب چینی ہوتی ہے ۔جب تک دل میں تواضع نہ ہو،اس وقت تک ان گناہوںاور برائیوں سے نجات نہ ہوگی۔اس لئے ایک مومن کے لئے تواضع حاصل کرنا بہت ضروری ہے ۔اپنے آپ کو کم تر کہنا تواضع نہیں بلکہ کم تر سمجھنا تواضع ہے۔مثلاً میں دل سے اور تنہائی میںسوچ سمجھ کریہ اقرار کروں کہ میری کوئی حیثیت ، کوئی حقیقت نہیں ۔اگر میں کوئی اچھا کام کررہی ہوں تو یہ محض اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے، اس کی عنایت اور مہربانی ہے ،اس میں میرا کوئی کمال نہیں،یہ ہے تواضع کی حقیقت۔اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا یہ راستہ نہیں ہے کہ اپنے آپ کو زیادہ عقل مند اور ہوشیار جتائیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل تو اسی بندی پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے شکستگی اور بندگی کا مظاہرہ کرتی رہے۔ارے کہاں کی شان اور کہاں کی بڑائی جتاتی ہو،شان اور بڑائی اور خوشی کا موقع تو وہ ہے جب اللہ تعالیٰ ہماری روح نکلتے وقت کہیں’’اے روح!اللہ کے بندوں میں داخل ہوجااور میری جنت میں داخل ہوجا‘‘اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملہ میں وہ طریقہ پسند فرماتے جس میں عبدیت ہو،بندگی ہو،شکستگی کا اظہار ہو ،اپنے طور طریقے اور انداز ِ ادامیں انسان تکبر سے پر ہیز کرے اور عاجزی و انکساری کو اختیار کرے اورجس دن عاجزی کو اختیار کریں گے انشا ء اللہ اس دن حق کا راستہ کھل جائے گا،کیونکہ حق تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تکبر ہوتی ہے اور تکبر والا اپنے آپ کو کتنا ہی بڑا سمجھتا رہے اور دنیا والوں کو کتنا ہی ذلیل سمجھتا رہے لیکن انجام کار اللہ تعالیٰ تواضع والے کی ہی عزت عطا فرماتا ہے اور تکبر والے کو ذلیل وخوارکرتا ہے۔
ایک چیز آج کل لوگوں میں بہت زبان زدعام ہے،وہ ہے احساس ِکمتری، اس کو بہت بُرا سمجھاجاتا ہے ، اگر کسی میں پیدا ہوجائے تو اس کا نفسیاتی علاج ومعالجہ کیا جاتا ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ تواضع اور احساس کمتری میں فرق ہے۔ احساس کمتری میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق پر در پردہ شکوہ اور شکایت ہوتی ہے ،اور یہ خیال ہوتا ہے کہ مجھے محروم اور پیچھے رہنے والا بنایا گیا ،میں تو زیادہ کا مستحق تھی لیکن مجھے کم ملا۔مثلاً یہ احساس کہ مجھے بد صورت پیدا کیا گیا ،مجھے بیمار پیدا کیا گیا ، میرا رتبہ کم رکھا گیا ۔اس قسم کے خیالات یا شکوے دل میں پیدا ہوںتواس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی طبیعت میں جھنجلاہٹ پیدا ہوجاتی ہے اور پھر اس احساس کمتری کے نتیجے میں انسان دوسروں سے حسد کرنے لگتا ہے ، اس کے اندر مایوسی پیدا ہوجاتی ہے کہ اب مجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا ۔بہر حال احساس کمتری کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے شکوے پر ہوتی ہے ۔ جہاں تک تواضع کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کے تقدیر پر شکوے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعامات پر شکر کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔تواضع کرنے والی بہن یہ سوچتی ہے کہ میں اس قابل نہیں تھی کہ مجھے یہ نعمت ملی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے یہ نعمت عطا فرمائی ۔یہ ا س کا فضل و کرم اور اس کی عطا ہے ، میں تو اس کا مستحق نہیں تھی ۔ایک طرف ناشکری سے بچنا ہے دوسری طرف تکبر سے بھی بچنا ہے اور تواضع اختیار کرنی ہے ،مثلاً نماز پڑھی ،روزہ رکھا اور پھریہ سمجھنا کہ میں نے بڑا زبردست عمل کرلیا،یہ بڑا تکبر ہے ۔ اگر یہ کہیں کہ اس سے نماز تو بے کار ہوئی جیسے آج کل بعض لوگ نماز کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کوے کی ٹھونکی مار لیں ،تو یہ اس عمل پر اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور ناقدری ہے ۔ اب ایسا کیا کریں جس سے ناشکری و تکبر بھی نہ ہو اور شکر اور تواضع بھی برقرا ر رہے۔اس کا آسان طریقہ ہے کہ ہر بہن یہ خیال کرے کہ اپنی ذات میں تو میرے اندر اس عمل کی ذرہ برابر طاقت اور صلاحیت نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ نیک عمل کروادیا ۔اس طرح دونوں چیزیں جمع ہوجاتی ہیں ۔اس لئے جو بندی اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتی ہو ،اس کے اندر کبھی تکبر نہیں آسکتا ،کیونکہ شکر کے معنی ہے کہ میرے اندر اپنی ذات میں کوئی صلاحیت نہیں تھی ،اللہ نے اپنے فضل و کرم اور اپنی عطا سے مجھے یہ چیز عطا فرمائی ہے۔لہٰذا میری بہنو! نہ تو یہ کرو کہ اپنے عمل کو بہت بڑا سمجھ بیٹھو کہ متکبر بن جاؤ اور نہ اپنے عمل کو اتنا حقیر جانو کہ جس سے ناشکری ہوجائے۔ جب بھی عبادت یا اچھائی کی توفیق ہوجائے تو وہ کام کرو ،ایک شکر ادا کرو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس عمل کی توفیق دے دی،ورنہ کتنے بہنیں ہیں جن کو یہ توفیق نہیں ہوتی۔دوسرے توبہ و استغفار کرو کہ جو غلطیاں اور کوتاہیاں اس عمل کے دوران ہوئیں ،اللہ تعالیٰ ان کو معاف کردے۔انشاء اللہ ان دوہرے عمل برکت سے اللہ تعالیٰ اس عبادت کوشرف قبولیت عطا کرے گا۔تواضع حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر دم یہ سمجھو میں تواللہ کی بندی ہوں،اللہ تعالیٰ جو کچھ میرے ذمہ لگا دے گا وہ کام میں کروں گی ۔اب اگر وہ کہیں منصب پر بٹھادے تو اس کے تقاضے پوری کروں گی اور کسی دوسرے کام کو تفویض کیاہے تو یہ محض اللہ کی عطا ہے۔اس طرح ہم میں شکر اور تواضع کی صفات دونوں جمع ہوں گی۔
٭٭٭٭