سرینگر // دنیا بھر میں تپ دق (ٹی بی) کا عالمی دن منایاگیا جو ویسے تو آسانی سے قابل علاج ہے مگر پھر بھی اس کے نتیجے میں روزانہ ساڑھے چار ہزار افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہ مرض روزانہ دنیا بھر میں 4400 افراد کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے اور صرف 2015 میں ہی اس کے نتیجے میں 18 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔تپ دق یا سل عرف عام میں جسے ٹی بی (Tuberculosis) کہا جاتا ہے، کا شمار دس مہلک ترین امراض میں ہوتا ہے۔ ٹی بی کے متاثرین اور اس مرض سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں اس مرض کے تمام کیسز رپورٹ نہیں ہوتے۔پوری دنیا میں جہاں تپ دق کے 1.8ملین مریضوں میں سب سے زیادہ 21فیصد مریض بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں وہیں دوسری جانب وادی میں پچھلے تین سال کے دوران کل 28,684افراد تپ دق کے شکار ہوگئے جن میں 799کی موت واقع ہوگئی۔ سال 2016 میں اننت ناگ میں سب سے زیادہ 29، سرینگر میں 19، بڈگام میں 10، پلوامہ میں 7، بارہمولہ میں 15اورکپوارہ میں 18 مریضوں میں تپ دیق کی تصدیق ہوئی جبکہ پچھلے تین برسوں میں کل 28,68 مریضوں کی نشاندہی ہوئی جن میں 799کی موت واقع ہوئی ہے۔کشمیر میں تپ دق بیماری کے بارے میں بات کرتے ہوئے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ سی ڈی اسپتال ڈلگیٹ ڈاکٹر نوید نذیر نے کہا ’’ بے شک تپ دق کے مریضوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس بیماری کو کافی حد تک قابو کیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بیماری کو قابو کرنے کیلئے سال 2012سے لیکر 2017تک ایک مخصوص حکمت عملی پر کام ہورہا ہے جس سے مریضوں کی تعداد کافی حد تک کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کی یہ بیماری صرف غریب لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے بلکہ مالی لحاظ سے مستحکم لوگوں میں بھی یہ بیماری پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نوید نے کہا کہ سب ملکر کوشش کررہے ہیں اور یہ کوششیں تبھی کامیاب ہونگی جب مریض ڈاکٹروں کے ساتھ تعاون کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہر دن پوری دنیا میں تپ دق کے 6000مریضوں کی تصدیق ہوتی ہے جبکہ ہر دن 600مریضوں کی موت واقع ہوتی ہے۔ عالمی ادارے صحت کی طرف سے سال 2015میں جاری کئے گئے ا عدادوشمار کے مطابق پوری دنیا میں 1.8فیصد لوگ تپ دق کی بیماری میں مبتلا ہیں جن میں بھارت 20فیصد، چین 18فیصد، بنگلہ دیش 4فیصد اور پاکستان بھی شامل ہے۔ عالمی ادارے صحت کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں دس لاکھ بچے تپ دق کے شکار ہیں جن میں 1لاکھ 70ہزار کی موت واقع ہوئی جبکہ اس دوران 4لاکھ 80ہزار افراد میں ادویات مخالف مدافعت رکھنے والا تپ دق پیدا ہوگیا ۔ ٹی بی ماہرین پوری دنیا میں 49ملین لوگوں کو سال 2000سے لیکر سال 2015تک بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ تپ دق ایک متعدی مرض ہے جوMycobacterium tuberculosis نامی بیکٹیریا کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ یہ مرض عام طور پر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے، مگر دیگر اعضا بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ٹی بی کا جراثیم ہوا میں شامل ہوکر دوسرے شخص کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا شخص جب کھانستا، چھینکتا یا تھوکتا ہے تو اس کے پھیپھڑوں اور لعاب میں موجود جراثیم ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں، اور یہاں سے سانس کے ذریعے دوسرے افراد کے جسم میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ ایک صحت مند شخص کو ٹی بی میں مبتلا کرنے کے لئے چند ہی جراثیم کافی ہوتے ہیں۔ٹی بی کی ایک صورت ’ خاموش یا مخفی ٹی بی ‘ ( latent TB) ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی اس سے متاثر ہے۔ اسے مخفی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ٹی بی کے جراثیم جسم کے اندر موجود تو ہوتے ہیں مگر غیرفعال ہوتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر یہ جراثیم جسم میں ہونے کے باوجود ایک شخص نہ تو ٹی بی کا شکار ہوتا ہے اور نہ ہی اس مرض کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہے۔