ترکی، روس اور ایران نے شام کے شہر ادلب کے حوالے سے آپس کے اختلافات ختم کرکے مل کر کام کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تینوں ممالک اپنے اختلافات کو ایک طرف ہٹاکر زمینی حقائق کی روشنی میں کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ کشیدگی کم ہو اور آپس کے تعلقات کی سطح بھی بلند کی جاسکے۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ ایران اور روس سے ترکی کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں؟ تاریخ بتاتی ہے کہ ترکی اور نیٹو کے تعلقات میں جب تک دراڑ نہ پڑے تب تک ترکی اپنے پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ترکی کے بارہ ہمسائے ہیں جو تین کے گروپس میں منقسم ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اس کے ہمسائے ایران، عراق اور شام ہیں۔ کاکس (وسط ایشیا )میں اس کے ہمسائے آرمینیا، آذر بائیجان اور جارجیا ہیں۔ یورپ میں اس کے ہمسائے یونان، قبرص اور بلغاریہ ہیں جب کہ بحیرہ ٔاسود کے پار اس کے ہمسائے روس، رومانیہ اور یوکرین ہیں ۔ ان تینوں ممالک کو بین الاقوامی پانیوں تک رسائی کے لیے ترکی کی آبی گزر گاہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
ترکی نے سلطنتِ عثمانیہ کے ۶۰۰ سالہ دور( ۱۲۹۹ء تا۱۹۲۳ء ) میں روس اور ایران کے سوا اپنے تمام پڑوسیوں کو فتح کیا اور ان پر حکومت کی۔ ترکی کی خارجہ پالیسی ہمہ جہت رہی ہے۔ چند ایک ممالک سے ترکی کے تعلقات سرپرستانہ رہے ہیں اور دیگر سے اس کے تعلقات کی نوعیت ایسی رہی ہے، جو معاملات کو اب صرف بگاڑ رہی ہے۔ عراق، بلغاریہ اور شام کے معاملے میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ترکی نے نہ صرف یہ کہ نرمی اختیار نہیں کی بلکہ ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے بھی گریز نہیں کیا۔ روس اور ایران جیسے آبادی کے لحاظ سے بڑے اور قدرے طاقتور ممالک سے ترکی محاذ آرائی چاہتا ہے، نہ انہیں نظر انداز کرتا ہے۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی کے دوران روس نے ترکی کی طرف سے توسیع پسند اقدامات کا ڈٹ کر سامنا کیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ترکی افواج کو روسیوں نے ہرایا اور سلطنت ِعثمانیہ کے زوال کا محرک بننے والے متعدد معاملات روس کے پیدا کردہ تھے۔ متعدد معرکوں میں روسیوں نے عثمانیوں سے بحیرۂ اسود کے کنارے کئی مسلم علاقے چھین لیے۔ شمالی اور جنوبی کاکس کے علاقے کے علاوہ روس نے موجودہ جنوبی روس اور یوکرین بھی ترکوں سے چھینے۔ بلقان کے خطے میں روس کے زار حکمرانوں نے رومانیہ، بلغاریہ، سربیا اور یونان کے لوگوں کی بھرپور معاونت کی، جس کے نتیجے میں انہوں نے ترک نسل کے لوگوں کو یورپ کے بیشتر علاقوں سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی۔
ترکی نے سرد جنگ کے خاتمے پر نیٹو کا رکن بننے کی کوششوں کے حوالے سے جو تیزی دکھائی وہ یہ بتاتی ہے کہ اسے(تاریخ بعید کے تناظر میں)روس سے خطرات لاحق تھے۔ ایک بنیادی سبب یہ بھی تھا کہ سابق سوویت یونین کے سربراہ جوزف اسٹالن نے۱۹۴۶ء میں ترکی سے روس کے کچھ علاقے کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ ترکی نے۱۹۵۲ء میں نیٹو سے وابستگی اختیار کرنے کی دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔ تب سے اب تک نیٹو نے روس کے مقابل ترکی کا دفاع یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ روس کے حوالے سے ترکوں میں خوف کا پایا جانا فطری امر ہے۔ جب کبھی روس کے زار سلطنتِ عثمانیہ کا کوئی علاقہ فتح کرتے تھے تب وہاں ترک اور دیگر مسلمانوں کی نسلی تطہیر بھی کرتے تھے، جس کے نتیجے میں ترک اور دیگر مسلمان مل کر ترکی کے علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوتے تھے۔ یہ تاریخ میں کئی بار ہوا ہے۔ مثلا انیسویں صدی میں روسیوں نے جب شمالی کاکیشیا کا علاقہ فتح کیا تو وہاں سے کم و بیش دس لاکھ افراد کو سلطنتِ عثمانیہ کے زیر تصرف علاقوں کی طرف ہجرت پر مجبور کردیا۔
اس زمانے میں موجودہ ترکی کی آبادی کم و بیش ایک کروڑ تھی۔ بہت سے ترک اور دیگر مسلم گروپ(چیچن وغیرہ)شمالی کاکیشیا اور دیگر علاقوں سے بوریا بستر لپیٹ کر سلطنتِ عثمانیہ کے علاقوں میں آباد ہونے پر مجبور ہوئے۔ کرائمیا کے علاقے سے تاتاری مسلمان بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہوئے۔ ترک نسل کے جن لوگوں کو متعدد مواقع پر روسی علاقوں سے بے دخل کرکے سلطنتِ عثمانیہ کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا ان میں فطری طور پر روس سے خوف اور روسیوں سے نفرت پیدا ہوئی۔ یہ عمل صدیوں پر محیط ہے، اس لیے اب معاملہ پختہ ہوچکا ہے اور اس کی جڑیں بھی بہت گہری ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ترکوں اور ایرانیوں کے تعلقات ترکوں اور روسیوں کے تعلقات سے بہت مختلف ہیں۔ عثمانی اور ایرانی سلطنتیں پندرہویں صدی عیسوی میں پڑوسی بنیں۔ اب دونوں نے موجودہ مشرقی ترکی اور مغربی ایران پر کنٹرول کے لیے تگ و دو شروع کی۔ یہی سبب ہے کہ دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے شدید بدگمانی اور خوف نے بھی جنم لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کو شک اور خوف کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ترک اور ایرانی کم و بیش۱۶۶ سال تک لڑتے رہے اور کئی جنگیں غیر نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ یہ لڑائیاں۱۴۷۳ء سے ۱۶۳۹ء تک جاری رہیں۔ ان لڑائیوں سے دونوں کے خزانے بھی خالی ہوگئے۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے بڑے مل بیٹھے اور طے کیا کہ اب مزید نہیں لڑنا۔ یہ گویا دونوں ممالک کے درمیان طاقت کا توازن قائم کرنے کا ایک قابلِ عزت اور قابل قبول طریقہ تھا۔ اس حوالے سے جو رہنما خطوط تیار کیے گئے تھے وہ اب بھی دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت اور شدت طے کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کے دوران عراق میں عثمانیوں اور قجر خاندان کے درمیان چند جنگوں کے سوا دونوں ممالک کی سرحدیں مجموعی طور پر پرسکون رہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ مشرق وسطی میں اس قدر پرسکون سرحدیں شاید ہی ملیں۔
ماضی کی تلخیوں کو دیکھتے ہوئے ترکی نے اب روس اور ایران کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، وہ خوف اور احتیاط کا مرکب ہے۔ ترکی کے معاملے میں روس نے مجموعی طور پر وہی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جو کسی بڑے اور طاقتور ملک کی چھوٹے ملک کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب کبھی ترکی کوئی غلطی کرتا ہے تب روس کی طرف سے سزا دینے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماسکو اب بھی انقرہ کو حقیقی احترام کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ یہی سبب ہے کہ روس نے شام میں بشار انتظامیہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ترک کوششوں کو شدید نفرت کی نظر سے دیکھا ہے کیونکہ بشار انتظامیہ کو زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھنا روس کی پالیسی رہی ہے۔ روس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کچھ بھی کر گزرے گا کہ شام کے بحران میں ترکی فاتح بن کر نہ ابھرے۔
روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کا شام میں حتمی مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ انقرہ کو زیادہ سے زیادہ ذلت سے دوچار کیا جائے اور ترک ہم منصب رجب طیب ایردوان پر واضح کردیا جائے کہ ترکی کو روس سے ڈرتے ہی رہنا چاہیے۔ روس نے شام کی حدود میں کردش پیپلز ڈیفنس یونٹس سے قریبی تعلقات استوار کیے ہیں، جو ترکی میں قائم کردستان ورکر پارٹی سے بھی اچھے تعلقات کے حامل ہیں۔ کردستان ورکر پارٹی کے خلاف ترک فورسز ایک مدت سے لڑتی آرہی ہیں۔ شام میں امریکا نے بھی داعش کے خلاف بہتر نتائج کے حصول کے لیے کردش پیپلز ڈیفنس یونٹس سے اچھے تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ امریکی پالیسی میں اس بات کی گنجائش پیدا کردی گئی ہے کہ جہاں داعش نہیں ہے وہاں کردش پیپلز ڈیفنس یونٹس سے بہتر تعلقات استوار کیے جارہے ہیں۔
روس نے کردش ڈیفنس یونٹس سے جو تعلقات استوار کر رکھے ہیں، وہ ہر اعتبار سے ترکی مخالف ہیں۔ شام میں ترکی جب بھی کوئی معاہدہ کرے گا، روس اسے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنے زیادہ سے زیادہ فائدے اور ترکی کے زیادہ سے زیادہ نقصان کے لیے استعمال کرے گا۔ ایران نے شام کے معاملے میں ترکی سے تعلقات میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ایرانی قیادت نہیں چاہتی کہ اس مرحلے پر کوئی بڑی لڑائی یا معرکہ آرائی شروع کی جائے۔ ایرانی قیادت شام میں ایران کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف سرگرم عمل گروپ کے لیے ترکی کی حمایت کو دو طرفہ تعلقات میں توازن رکھنے کے لیے استعمال کیے جانے والے تاریخی معاہدے اور میکانزم کی خلاف ورزی تصور کرتا ہے۔
شام میں ترکی اگر ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کو یا ایران ترکی کے حمایت یافتہ گروپوں کے خلاف جاتا ہے تو خرابیوں کا بڑھنا لازم ہے۔ ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات داؤپر لگ جاتے ہیں۔ اس وقت شام میں ایرانی مفادات بہت اچھی حالت میں ہیں۔ ایسے میں ایران چاہے گا کہ ترکی سے توازنِ طاقت کے معاملے میں اپنی حیثیت اپنی مرضی کے مطابق منوالے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ایرانی قیادت کسی نہ کسی طور ترکی کو بشار مخالف جنگجوؤں کی حمایت اور مدد سے روکے۔ ایرانی قیادت کو شام میں ترکی کے ساتھ ہر قدم سوچ سمجھ کر اور پوری احتیاط کے ساتھ اٹھانا ہوگا۔ اگر ایرانی قیادت ترکی کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ترکی اس کی پوزیشن تسلیم کرے اور اس کے خلاف جانے سے گریز بھی کرے۔
ترکی اگر ایران اور روس سے تعلقات بہتر بنانا اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ نیٹو سے اس کے تعلقات کی سطح نیچے آئے۔ اس وقت حالات ایسے نہیں کہ ایسا کچھ فوری طور پر رونما ہو یا ہونے لگے۔ ترکی اور نیٹو کے تعلقات میں خرابی کے لیے کسی بڑے طوفان کا برپا ہونا لازم ہے۔ انقرہ میں اقتدار میں آنے کے بعد سے رجب طیب ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے)نے ترکی میں امریکا مخالف جذبات کی لہر پر سواری کی ہے۔ عراق اور شام میں امریکا نے جو کچھ کیا ہے، وہ بھی ترکی میں امریکا مخالف جذبات کو مزید ہوا دینے کا باعث بنا ہے۔ ترکی میں اے کے پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے حلقوں میں امریکا کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔ شام میں فرینڈلی فائر کے بہت سے واقعات رونما ہوئے، جن میں ترک اور امریکی فوجیوں یا ان کے پراکسیز نے ایک دوسرے کو غلطی سے نشانہ بنادیا۔ ایسا کوئی بھی واقعہ کسی بڑے تنازع میں تبدیل ہو سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ امریکا اور نیٹو کے خلاف ترکی بھر میں شدید مخالفانہ جذبات کے پائے جانے سے یہ ہوسکتا ہے کہ ترک قیادت روس اور ایران کی طرف جھکنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرلے لیکن امریکانے اس خطے میں امکانی اتحادکوروکنے کیلئے کردوں کومیدان میں اُتاردیاہے۔