امریکی جریدے دی اٹلانٹک میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس نکتے پر بحث جاری ہے کہ تاریخ اور روایات کے اعتبار سے اہم سمجھے جانے والے کسی بھی ملک کی ہیئت تبدیل کرنے میں طاقتور شخصیات کا کیا کردار ہوا کرتا ہے اور کیا ایسا کردار ادا کرنا اب بھی ممکن ہے۔سیاستدانوں اور خاص طور پر نظریاتی سیاست دانوں، کو جلد یا بدیر’’ اب آگے کیا ؟ ‘‘جیسے سوال کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپریل میں منعقدہ ایک ریفرنڈم میں ترک صدر ایردوان کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوچکے ہیں۔ اپوزیشن نے ان پر دھاندلی کا الزام بھی عائد کیا ہے، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اب صدر ایردوان ترک سیاست پر ۲۰۲۹ء تک چھائے رہیں گے۔ ترک سیاست، معاشرت اور معیشت کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کیلئے ان کے پاس ایک عشرے سے زیادہ وقت ہے۔
اقتدار کے پہلے عشرے کے دوران اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے قومی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کردیں۔ آزاد منڈی کی معیشت سے متعلق تمام اصلاحات نافذ کی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ فوج کو بھی، جو جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دے رہی تھی، سیاسی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے غیر موثر کردیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہی وہ کامیابی ہے جس کا خواب اے کے پی نے دیکھا تھا؟ ایسا الگتا ہے کہ اے کے پی اب اپنی ہی کامیابی کے دام میں گرفتار ہو چکی ہے۔ ملک میں جس قدر آزادی عوام کو ملنی چاہیے تھی، وہ اب تک نہیں ملی۔ جمہوریت کے تحت اداروں کو جس قدر آزادی دی جانی چاہیے تھی وہ نہیں دی گئی۔ صدر اردگان چاہتے ہیں کہ انہیں صرف قومی معیشت و سیاست تبدیل کرنے کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ دیگر حوالوں سے بھی یاد رکھا جائے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان میں اتنی بصیرت ہے کہ ترکی کا فکری و عملی ڈھانچہ ہی تبدیل کردیں؟ اردگان ٹیکنو کریٹ ہیں اور کسی بھی ملک کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کیلئے اتنا کافی نہیں ہوا کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اردگان کسی اور کو ابھرنے دینے کیلئے تیار نہیں۔ وہ اپنے سامنے کسی اور کا بھرپور وجود برداشت نہیں کرسکتے۔ وزیر اعظم احمد داو اوغلو کا جانا اس نکتے کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ احمد داو اوغلو نے اے کے پی کی پالیسیاں تیار کرنے اور انہیں عمل کی دنیا میں رکھنے کے قابل بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ترکی ایک زمانے تک فوج، عدلیہ اور سکیورٹی کے اداروں کے چنگل میں پھنسا رہا۔ کئی عشروں تک عوامی اداروں کے پنپنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی گئی۔ فوج نے جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا اور عدلیہ نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ عوام کی خواہشات اور جذبات کو کنٹرول کرنے کیلئے اندرونی سلامتی کے نیٹ ورک سے بھرپور مدد لی گئی۔ اردگان نے متعدد مواقع پر اپنے آپ کو مصطفی کمال اتا ترک کے پائے کا رہنما بناکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مارچ میں ایک کلیدی پریس کانفرنس سے قبل اے کے پی نے اردگان کو ترکی کے نئے معمار کی حیثیت سے پیش کیا اور پھر ایک وڈیو میں اردگان نے کہا کہ وہ ترکی کی دوسری جنگ آزادی کی قیادت کر رہے ہیں۔ عبداللہ گل ہی کی مثال لیجیے۔ وہ اردگان کیلئے ایک بڑے حریف کی شکل میں اُبھر سکتے تھے اور ابھر رہے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اردگان کی جگہ عبداللہ گل جیسا نرم خو معاشیات کا پروفیسر اے کے پی کا سربراہ بن جاتا تو کیا ہوتا؟ عبداللہ گل کے سابق مشیر کے مطابق عبداللہ گل کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ تھا۔ وہ غیر معمولی حد تک حقیقت پسند تھے۔ انہیں یہ پسند نہ تھا کہ عوام کے بپھرے ہوئے جذبات کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کیا جائے۔۱ردگان نے ریاستی قوت کے ذریعے لوگوں میں تقویٰ کی طرف مائل ہونے کا رجحان پروان چڑھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کسی پر اسلامی قوانین مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ عوام کو تحریک دی ہے کہ وہ اپنے معاملات درست کرنے پر توجہ دیں اور اس معاملے میں اللہ سے ڈریں۔ شراب پر پابندی عائد کرنا ایک دشوار فیصلہ ہوتا اور آئین میں بھی مذہبی بنیاد پر شراب کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کی گنجائش نہیں تھی۔ اردگان انتظامیہ نے شراب پر ٹیکس بڑھا دیے اور رات دس بجے کے بعد شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی۔ ترک معاشرے میں جلد شادی کرنے کا رجحان نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہو رہی تھی۔ اردگان نے جلد شادی کرنے والے جوڑوں کیلئے مالی اعانت کا اعلان کیا۔ آبادی میں اضافے کیلئے بھی فیصلہ کیا گیا کہ تین بچے پیدا کرنے والے جوڑوں کی مالی اعانت کی جائے۔ اسقاطِ حمل کے حوالے سے بھی اردگان کے ہاں کم ہی لچک ہے۔ بعض اوقات اردگان کا رویہ باپ کا سا ہوتا ہے۔ وہ معاشرے کی حقیقی اصلاح چاہتے ہیںاور چاہتے ہیں کہ نئی نسل بری عادتیں ترک کردے۔ کئی مواقع پر اردگان بالکل واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ کسی انسان کو ختم کرنا اور رحمِ مادر میں پلنے والے بچے کو ختم کرنا دونوں ہی قتل ہیں۔ اردگان اسلام سے متعلق اپنے نظریات کو باضابطہ شکل میں پیش کرکے نافذ کرنے کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی سوچ کسی پرتھوپی نہ جائے بلکہ مرحلہ وار متعارف کرائی جائے۔ اگر عوام قبول کریں تو ٹھیک، ورنہ معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا جائے اور موزوں وقت کا انتظار کیا جائے۔ ترکی میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جو اسلامی بنیادیں رکھتی ہے۔ ایسی جماعت اگر ترک آئین کے خلاف جائے تو حیرت کی بات کیا ہے۔ ترک آئین میں سیکولراِزم کو باضابطہ نام کے ساتھ احترام بخشا گیا ہے اور مذہبی نظریات کا سرعام اظہار کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ۲۰۱۶ء میں پارلیمنٹ کے اسپیکر اور اے کے پی کی کلیدی شخصیت اسماعیل کہرمان نے تجویز پیش کی تھی کہ ترک آئین سے سیکولرازم کے احترام کی شق ختم کردی جائے مگر اردگان نے ان کی رائے سے خود کو فوراً الگ کرلیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے حوالے سے فی الحال کوئی مہم جوئی نہیں کی جاسکتی۔
اردگان کے پاس معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ایک وژن ہے ۔ اے کے پی کی صفوں میں علما ء شاذ و نادر ہی رہے ہیں۔ اسلامی علوم پر گہری نظر اور دسترس رکھنے والے علما کی اس پارٹی میں کمی رہی ہے۔ ابراہیم کلین اس حوالے سے ایک استثنیٰ ہیں۔ وہ اردگان کے مشیر اور دستِ راست رہے ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن کی جارج ٹاون یونیورسٹی میں پڑھایا ہے۔ تمام اسلامی علوم پر ان کی گہری نظر رہی ہے۔ انہوں نے معاملات کو درست انداز سے چلانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ وہ اسلامی علوم پر غیر معمولی نظر رکھتے ہیں۔ وہ اردگان کاغیر معمولی احترام کرتے ہوئے انہیں ایک خاص حد تک ہی قائل کر پائے ہیں یعنی اس حد سے آگے جانا ان کیلئے ممکن نہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردگان کے ذہن میں بہت کچھ رہا ہے۔ وہ معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں اور اسلامی اقدار کا فروغ بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے مگر یہ سب کچھ جبلی یا فطری سطح پر ممکن ہے، علمی اور عقلی سطح پر نہیں۔ اردگان کے ذہن میں جو کچھ ہے وہ ان کے اپنے تجربات کی روشنی میں پروان چڑھا ہے۔ وہ ایک خاص حد سے آگے جاکر نہیں سوچ سکتے۔ اگر وہ معاشرے کی اصلاح اور اسلامی اقدار کے فروغ کے حوالے سے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ مستند علما ء کے ساتھ بیٹھیں، انہیں اپنی رائے اور ارادوں سے آگاہ کریں اور پھر ان سے رائے طلب کریں۔ اسی صورت کسی مستند نظام کے حوالے سے کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اردگان نے مذہبی امور سے متعلق وزارت دیانت کو عمدگی سے بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ اس وزارت کے تحت مساجد کا نظم و نسق بھی ہے اور ائمہ کی تربیت بھی۔ مذہبی اسکول یا مدارس بھی اسی وزارت کے ماتحت ہیں۔ اردگان کی واضح ہدایات کی روشنی میں اب اسکولوں میں مذہبی تعلیمات کی کلاسیں لازم کردی گئی ہیں۔۲۰۱۵ء کی ایک تقریر میں اردگان نے اس بات کو بہت فخریہ انداز سے بیان کیا کہ ہائی اسکول کی سطح کے سرکاری مدارس میں انرولمنٹ۶۵ ؍ہزار سے بڑھ کر۱۰ ؍لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ترکی کی نئی نسل اپنی روایت اور ثقافتی ورثے کو زیادہ عمدگی سے سمجھنے کے قابل ہوسکے گی۔
اردگان نے نیا ترکی کا نعرہ بھی دیا ہے۔ یہ نعرہ اب محض نعرہ نہیں رہا، منصوبہ بن چکا ہے۔ ترکی میں بہت سوں کی نظر میں اردگان ایک روحانی لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور بات کچھ غلط بھی نہیں۔ انہوں نے اب تک متعدد مواقع پر یہ جتایا ہے کہ وہ ترکی کیلئے محض مادی نہیں، روحانی اور معاشرتی ترقی بھی چاہتے ہیں یعنی معاشرے میں صرف دولت کی ریل پیل نہ ہو بلکہ اخلاقی اقدار بھی تیزی سے پروان چڑھیں، لوگ پوری دیانت کے ساتھ جئیں، ان کے ضمیر پر کوئی غیر ضروری بوجھ نہ ہو، وہ گناہوں سے آلودہ ہوئے بغیر پرسکون زندگی بسر کریں۔ اردگان کے حوالے سے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ وہ پورے معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے غیر اسلامی نظریات اور تصورات کو ختم کرنے کے حوالے سے اچھی تیاری کی ہے مگر اس حوالے سے عوام پر زیادہ دباو ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام پر کوئی بھی رائے تھوپی نہ جائے بلکہ وہ اپنے طور پر آگے بڑھیں اور وہ کر گزریں جو ان کیلئے بہتر اور ضروری ہو۔ اردگان اپنی تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ اے کے پی ایک نسل کی تحریک کی صورت میں نمودار ہوئی مگر یہ کسی ایک نسل تک محدود نہیں۔ یعنی جو کچھ اے کے پی کرنا چاہتی ہے وہ کئی نسلوں کا کام ہے اور یہ کام کئی نسلیں مل کر ہی کرسکتی ہیں۔سیمیوئل ہنٹنگنٹن نے اپنی معرکۃ آ لاراء کتاب دی کلیش آف سویلائزیشنز میں ترکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اگرچہ نظریاتی اعتبار سے ایک منتشر ملک ہے لیکن اگر اتا ترک کی وراثت کو نظر انداز کرے تو متحد ہوکر اسلامی دنیا کا رہبر بن سکتا ہے مگر اس کیلئے لازم ہے کہ وہ اتا ترک کی وراثت کو اس جذبے سے بڑھ کر نظر انداز کرے جس جذبے سے روس نے لینن ازم کو نظر انداز کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترکی کیلئے ایک نئے انداز سے ابھرنا اور ایک نئی شناخت کے تحت عالمی سطح پر کام کرنا انتہائی ممکن ہے اور شاید اب یہ عمل شروع بھی ہوچکا ہے۔ اردگان اور ان کی پارٹی نے ترکی کو ایک نئی شکل میں دنیا کے سامنے لانا شروع کردیا ہے۔
یورپی یونین نے ترکی کو رکنیت دینے سے اب تک گریز کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ اسے وہ ترکی کسی حال میں قبول نہیں جو اسلامی روایت اور شناخت کا حامل ہو۔ ایسے میں اردگان اور ان کے رفقا کے پاس صرف یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ مل کر ترکی کو ایک نئی شناخت دیں، اسلامی دنیا میں نمایاں مقام دلائیں اور یورپی یونین کی رکنیت سے متعلق اپنی تمام امیدوں کا گلا گھونٹ کر خود کو اسلامی دنیا کے لیڈر کے طور پر آگے لائیں۔ اردگان سے اختلاف کرنے والوں کی اب بھی کمی نہیں۔ پانچ سال پہلے تک ترک ماڈل کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اب بہت سے لوگ ترک ماڈل کے ذکر کو زیادہ فخر سے برداشت نہیں کرتے۔ بات یہ ہے کہ اردگان حکومت نے صحافت کے ہاتھ پیر باندھنے کی کوشش بھی کی ہے اور چند ایک معاملات میں شہری آزادیوں کو بھی حدود میں رکھنے پر بضد رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں اختلاف کرنے والے بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایک خطرناک رجحان یہ ہے کہ اسلام پسند عناصر مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق چلتا رہے، یہ سوچ خطرناک ہے۔ جو لوگ کسی بھی حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، ان کے اطمینان کیلئے ان کی بات سننا لازم ہے۔ ایسا کرنے ہی سے معاملات کو درست رکھنے میں خاطر خواہ حد تک مدد مل سکتی ہے۔ احمد داو اوغلو کے ایک مشیر کے مطابق کچھ لوگ اب تک اتا ترک کی لاش کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ہمیں اتا ترک کی لاش کو قبر میں واپس ڈالنا ہی پڑے گا۔اتا ترک نے ترکی کو تبدیل کردیا تھا مگر یہ سب کچھ طاقت کے ذریعے تھا۔ اس نے ساری طاقت اپنی ذات میں مرتکز کرکے ترک معاشرے کی بنیاد ہی بدل ڈالی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام پسندوں کیلئے ذرا بھی گنجائش نہ رہی کہ اپنی بات پیش کرسکیں، منواسکیں۔ اتا ترک نے جو کچھ کیا تھا وہ طاقت کے ذریعے تھا اس لیے سات عشروں کے بعد سب کچھ بدل گیا اور جیسے ہی گنجائش پیدا ہوئی، اسلام پسندوں نے اپنی بات منوائی اور خوب منوائی۔ اب اسلام پسند بھی چاہتے ہیں کہ اپنی حیثیت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ سیکولرازم کی بات کرنے والوں کو ہر محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ فطری سا معاملہ ہے۔ ترکی معاشرے کا ڈھانچا ایک بار پھر تبدیل ہو رہا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو ایک ڈیڑھ عشرے میں سیکولراِزم کی بات کرنے والوں کیلئے مشکلات اتنی بڑھ جائیں گی کہ وہ کسی بھی معاملے میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار بھی نہیں کرسکیں گے۔
اتا ترک نے جو کچھ ملک کے لئے کیا تھا اس کے اثرات زائل کرنے کیلئے اب اردگان اور ان کے رفقاء غیر محسوس انداز سے اپنے مضبوط ارادوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ ترک عوام کیلئے ایک نئی زندگی بسر کرنے کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ سیکولراِزم کو دیس نکالا دینے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ اردگان اور ان کے رفقاء ومعاونین چاہتے ہیں کہ کسی بھی معاملے میں طاقت غیر ضروری طور پر بروئے کار نہ لائی جائے۔ ترک قوم کی سوشل انجینئرنگ غیر محسوس طریقے سے کی جارہی ہے۔ کسی بھی معاملے میں پورے معاشرے سے ٹکرانے کی تیاری نہیں کی گئی اور نہ ہی اب بھی ایسا کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ ہیڈ اسکارف کے معاملے میں بھی اے کے پی نے غیر لچک دار رویہ نہیں دکھایا۔ سب کچھ عوام کی مرضی سے ہوا ہے۔ اے کے پی کے بعض رہنماوں کو رام کرنے پر توجہ دی گئی ہے تاکہ وہ بپھر کر کچھ ایسا نہ کر بیٹھیں کہ کیے کرائے پر پانی پھر جائے۔