بچپن میں کہانیاں سنی تھیں۔ پڑھی بھی تھیں۔ مگر کہانی سے میرا باقاعدہ تعارف اُس وقت ہواتھاجب میری آپا میٹرک میں پڑھتی تھیں۔ اُن کی ایک دوست کی کتاب میں ، میں نے منشی پریم چند کی دوکہانیاں پڑھی تھیں۔(میں سائنس کی طالبہ تھی)
انہی دنوں میں نے اپنی پہلی کہانی ’’مصور‘‘ لکھی تھی۔ اُس وقت میں ریڈیو کشمیر سری نگر میں بچوں کے پروگرام کی باقاعدہ آرٹسٹ تھی لیکن یہ کہانی مجھ سے نوجوانوں کے پروگرام میں پڑھوائی گئی تھی۔ جس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ کہانی کے ذریعے بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں، سمجھائی جاسکتی ہیں۔
میرے والد اردو،عربی،فارسی اور انگریزی کے جیّد عالم تھے۔ انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میری افسانہ نگاری کا سلسلہ چل نکلا، مگر کبھی بے قاعدگی اورکبھی باقاعدگی کے ساتھ۔ میرے خیال سے کہانی فنونِ لطیفہ کی ایسی مضبوط صنف ہے جو اپنی توانائی اور پہنچ سے ذہن و دل پر حاوی ہونے کی قوّت رکھتی ہے۔
جغرافیائی، ماحولیاتی اور ثقافتی حدبندیوں سے لاتعلق، میں کہانیاں بنتی رہتی ہوں اور انہیں حروف کی شکل میں منتقل کرتی رہتی ہوں۔ افسانے میرے لیے اپنے ردِّ عمل کے اظہار کا وسیلہ ہیں۔ لیکن یہ وسیلہ بے ہنگم نہیںہے۔ میں افسانے میں کہانی پن پر مکمل یقین رکھتی ہوں کہ وہ افسانویت کے بنیادی اور اہم تقاضوں کو پورا کرے۔
دنیائے ادب آج ،مخصوص نظریوں کی پابندی سے آزاد ہے۔ میں بھی یہ پابندیاں اپنے اوپر نہیں لادتی مگر کچھ بنیادی قدروں سے لاتعلق بھی نہیں ہوں۔ یہ قدریں جو میرے لاشعور کا ایک حصّہ ہیں، ان کا کوئی نہ کوئی عکس میرے افسانوں میں ضرور موجود ہے۔
رہی بات موضوع کی، تو موضوع کہاں نہیں ہے۔ہر شے کے بدلاؤ کے ساتھ موضوع بھی بدلتا ہے بلکہ نئی نئی صورتوں میں،نئے نئے مسائل کے ساتھ سامنے آکھڑا ہوتاہے۔
کچھ موضوعات پُرانے ہوجاتے ہیں۔ ان کی جگہ نئے لے لیتے ہیں اور کچھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
کبھی موضوع بدلتاہے۔ کبھی افسانہ نگار۔ کہانی چلتی رہتی ہے۔ اور ضرورت اسی بات کی ہے کہ کہانی چلتی رہے۔ بغیر کسی سیاست یا ازم کا اثر لیے۔ ایک دیانتدرانہ اور اصلاحی ایپروچ کے تحت۔ ہماراگرد و پیش کافی حد تک سیاست زدہ ہے بلکہ سیاست سے آلودہ بھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کہانی کو سیاسی بصیرت سے مستفید ہونے کا موقع نہ دیا جائے۔ مگر خود مجھے اپنے دور کی سیاست اکثر متاثر نہیں کرسکی۔ کیونکہ سیاست رسماً انسانی تکالیف کو دور کرنے کا دعویٰ تو کرسکتی ہے مگر یہ دعویٰ صرف نام نہاد کوشش تک ہی محدود ہوکر رہ جاتاہے۔ ایک راست باز ادیب اور سیاست داں میں یہی فرق ہے کہ اگر سیاست داں ہیلی کوپٹر میں پرواز کرتے ہوئے آتش زْنی اور سیلاب کے مناظر دیکھ کر گھڑی دیکھتاہے تو ادیب اس منظر پر تڑپ اٹھتاہے۔ اس کی وجہ پر پہروں سوچتاہے۔ ایسا نہ ہونے کی دعائیں مانگنا ہے۔ سیاست داں ناک پر معطر رومال رکھ کر آخری رسومات کی منتظر لاشیں دیکھنے، حادثے کے کئی روز بعد پہنچتاہے تو ادیب ہر لاش کی جگہ خود کو محسوس کرکے سانحے کا کرب اپنے اندر اتار کر اسے قلم بند کرتاہے اور اس میں بھی میرے خیال سے ہر قلم کار کے سوچنے اور عمل پیرا ہونے کا اپنا طریقہ ہوتاہے اپنا ایک لیول ہوتاہے۔ اس حیثیت سے عورت جو درد سہتی ہے، کرب جھیلتی ہے، صبر اوڑھتی ہے، جبر بھوگتی ہے، اس پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ پہلا جنم عورت نے دیاتھا اور پہلا قتل مرد نے کر دکھایا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اسی عورت سے جنمے اپنے ہی بھائی کا۔
اَزل سے یہ ہی ہوتا آیاہے۔ طاقت ہتھیار بناتی ہے تو ممتا روتی ہے۔ مغرور قوتیںتباہیاں پلان کرتی ہیں تو تخلیق خون بہاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اپنی اولاد کو ہم جان لینے کے نئے نئے طریقے ہی سکھلا کر کیوں جارہے ہیں۔ موت تو آنی ہی ہے۔ اسے بلایا یا لادا کیوں جائے۔
انسان فلک کے اسرار کھوج رہاہے۔اپنی مٹی نہیں سنوار سکتا۔
اپنے جدید تروسائل کے ساتھ ساری دنیا انسان کی پہنچ میں ہے۔ تو پھر اپنی سوچ کہاں نہیں پہنچائی جاسکتی کہ آدمی ہی وہ اشرف مخلوق ہے جو درندگی کی حدوں کے پار جاکر بھی انسانیت کی طرف لوٹ سکتاہے۔ اسے لوٹ آنے کی ترغیب تو ملے۔
اے عندلیب یک کفِ خس بہر آشیاں
طوفان آمد آمدِ فصلِ بہار ہے
(غالبؔ)
����
موبائل نمبر؛9419002212