ریٔس احمد کمار
اپنے آبائی ضلعے سے باہر تبادلہ ہونے کے ایک ہفتہ بعد ہی رحیم نے شہر میں کمرہ کرایہ پر لینے کا بندوبست کیا کیونکہ وہاں سے اس کا روز گھر آنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی تھا ۔ وہ سوشل ویلفیئر محکمہ میں بحثیت ہیڈ کلرک تعینات ہوا تھا ۔ ترقی پانے پر حال ہی میں اس کا تبادلہ شہر کے مضافاتی علاقے میں ہوا تھا ۔ اس لیے اس نے عارضی رہائش کے لئے شہر میں ہی ایک کمرہ کرایہ پر لیا ۔۔۔
جس گھر میں اس نے کرایہ پر کمرہ لیا وہ صرف تین افراد پر مشتمل تھا میاں بیوی( قادر، حنیفہ ) اور ان کی اکلوتی بیٹی کلثوم ۔ ان کی مالی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی۔ رحیم نے انسانی فرض سمجھ کر ہی ان کے ہی گھر میں کمرہ لینے کو ترجیح دی تھی ۔ ورنہ وہ شہر میں ایک اچھا فلیٹ ہائیر کرسکتا تھا جس میں تمام تر رہائشی سہولیات میسر ہوتی ہیں ۔ وقتاً فوقتاً رحیم ان کو ماہانہ کرایہ کے علاوہ بھی بہت کچھ نقدی و جنسی طریقوں سے مدد کیا کرتا تھا ۔ پانچ چھ مہینوں کے بعد حنیفہ کی جسمانی صحت اتنی بگڑ گئی کہ گھر کی تمام جمع پونجی خرچ کرکے بھی اس کی تکلیف میں سدھار کے کوئی آثار نظر نہیں آئے ۔ زمین جائیداد بھی فروخت کرڑالا کیونکہ جب بیماری شدت اختیار کرگئی تو وہ بیرون ریاست بھی اسے علاج و معالجہ کی خاطر لے گئے۔
ان سنگین حالات کی وجہ سے گھر کی مالی حالت اور ابتر ہو گئی ۔ مگر رحیم ہمیشہ ان کی ہر ممکن مالی مدد کرتا رہا کیونکہ انسانی ہمدردی کا جذبہ رحیم کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ سماج میں جب بھی کسی شخص کو مالی تعاون کی ضرورت پڑجاتی تو رحیم جذبہ ایثار کے تحت اس کی مدد فرماتا ۔
مشکل صورتحال سے نمٹنے کے لئے رحیم نے دل ہی دل میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اگلے مہینے کی پوری تنخواہ قادر اور اس کی بیوی حنیفہ کے حوالے کر دے گا تاکہ ان کے مشکلات کا ازالہ کسی طرح سے ہو سکے ۔ ان کو اگلے ہفتے ڈاکٹر کے پاس ایپائنمنٹ کے لئے بھی جانا تھا ۔ اس لیے رحیم نے مناسب یہی سمجھا کہ اس سے پہلے ہی پیسے ان کے ہاتھ دیدوں ۔ حسب وعدہ رحیم نے ایک مہینے کی پوری تنخواہ، جو کچھ نوے ہزار کی بنتی تھی، ان کے حوالے کی ۔ پیسہ ہاتھ میں پکڑنے کے ساتھ ہی دونوں میاں بیوی خوشی سے پھولے نہیں سمائے اور اپنی اکلوتی بیٹی سمیت رحیم کو خوب دعائیں دینے لگے ۔
رحیم صاحب آپ ہمارے گھر میں ایک انسان نہیں بلکہ فرشتہ رہ رہے ہیں ۔ آپ نے ہماری مصیبت دیکھ کر ہمارے ساتھ انسانی ہمدردی جتائی ہے ۔ آپ نہ ہوتے شاید حنیفہ کب کی لحد میں سوئی ہوتی ۔ اللہ آپ کو اپنے اہل وعیال سمیت صحت و توانا رکھے ۔ ہر مشکل و بلا سے محفوظ رکھے ۔ ہمیشہ خوش و خرم رکھے ۔ ان پیسوں سے ہم نہ صرف حنیفہ کے لئے دوائی وغیرہ کا انتظام کریں گے بلکہ دیگر اشیائے خوردنی بھی خرید سکتے ہیں ۔ اللہ آپ کو تندرست رکھے ۔
اگلے ہفتے دونوں میاں بیوی اپنی اکلوتی بیٹی کلثوم سمیت ڈاکٹر صاحب کے پاس چیک اپ کرانے گئے ۔ اسی دن رحیم بھی تین ہفتوں کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ دو دن بعد یعنی سوموار کو رحیم پھر گھر سے ڑیوٹی کیلئے روانہ ہوا ۔ دن اپنے آفس میں گزار کر سیدھے اپنے کرایہ کے کمرے کی طرف نکلا ۔ جب وہ مکان کے آنگن میں آپہنچا تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ ان کی اکلوتی بیٹی کلثوم مکان کے برامدے پر بیٹھ کر ہاتھ میں ایک بڑا سمارٹ فون پکڑی ہوئی تھی اور اس کے دونوں کانوں میں ائیر بڑز جیسے پیوست کئے گئے تھے اور وہ فلمی گانے سننے میں مگن تھی ۔ رحیم دل ہی دل میں اپنے دماغ سے یہ سوال مسلسل کرتا رہا کہ ترس آنا بھی ٹھیک ہے مگر کس بات پر ۔۔۔
���
قاضی گنڈ کشمیر