رتن سنگھ کنول پہلگامی
اکثر اُس کا پوتا ،اُسکی موجودگی میں اُس کے کمرے میں داخل ہو جاتا اور اُسکے احساس کا ہتھوڑا چلنا بند ہو جاتا۔ آوارہ سوچ ٹھکانے لگ جاتی ۔جب پوتا چلا جاتا تو دادو پہ پھر وہی کیفیت طاری ہو جاتی ۔ اُسکی بھولی بھالی، محبت بھری اور پُر خلوص باتوں سے اُس کا دل بہل جاتا ۔اُس کی پسند ،ناپسند اورخیالات کا اظہار بھی ہو جاتا ۔ پوتے کی باتیں من کو چھو جاتیں ۔ پوتے کے اندر کے خواب کبھی دادو کے بھی ہوتے تھے ۔ کچھ شرمندہ تعبیر ہوئے اور کچھ آنکھوں میں ہی لٹکے رہ گئے ۔۔۔۔
پوتا پیار سے کبھی ران پر بیٹھ جاتا اور کبھی اُسکے سینے پہ لیٹ جاتا۔ اُسکی سفید مونچھوں کو تاو دیکر کھڑا کر دیتا اور ایک فاصلے سے ان کو دیکھتا ہوا کہتا۔
” دادو آپ تو ایکدم ہیرو اور سُپرمین لگ رہے ہیں ! ”
وہ انگوٹھے اور انگوٹھے کی ساتھ والی اُنگلی کو ملا کر ایک ادا سے، ہلا ہلا کر دکھاتا ۔ پوتے کے صفات والے کلمات سن کر دادو کے اندر کی خزاں زدہ کیاریاں ہری بھری ہو جاتیں ۔ اُس کےاندر کا جواں سال ،توانا آدمی اُن کیاریوں میں پھُدکنے ، دوڑنے لگتا ۔ بجلی سی پھر تی، لچک اور سڈول کایا اٗسکی۔ اُسے دیکھ کر بیشتر لوگوں کے چہرےبھی کِھل جایا کرتے تھے۔ بات ہوتی یا نا ہوتی چہرہ حب و اخوت کا پیغام دے جاتا اور اُس کا باطن خوشی سے لُطف اندوز ہو جاتا ۔۔۔۔ ۔
” دادو ! لیکن ایک بات ہے ۔۔۔ مونچھیں ذرا کالی نہیں !”
پوتا مونچھوں کو غور سے دیکھتا ہوا پھر اچانک بول اٹھتا ہے
“چلو کوئی بات نہیں، ڈائی کر لیتے ہیں، چلے گا ! ”
پوتا دارو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، مُسکراتے ہوئے دیکھتا ہے اور دادو کی بے قراری کا عالم قرار سا پاتا ہے۔ کچھ ثانیےدھڑکتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ پر پوتا دادو کی اور دیکھتا ہوا پھر سے بولنے کی کوشش کرتا ہے لیکن رُک جاتا ہے ۔ دادو بھی۔
مزید مثبت کمنٹس سننے کے لئے بےتاب ہو جاتا ہے ۔ اُس کو وہ طالب علمی کا زمانا بھی یاد آتا ہے جس طالب علمی کے زمانے میں وہ اسی طرح دسویں جماعت کے امتحانات کا نتیجہ سُننے کے لئے بیتاب ہو جاتا تھا اور ریڈیو سیٹ کے سامنے بیتابی سے بیٹھا رہتا جب تک نہ اُس کا رول نمبر نشر ہو جاتا یا سکِپ ہو جاتا۔
’’دادو مان لیا ان مونچھوں اور داڑھی کو ڈائ کر لیں گے لیکن ان جُھریوں کا کیا ہو گا ؟ ان کو کیسے چھُپائیں گے۔‘‘
دادو کھسیانا سامسکراتے ہیں ،مُنہ سے کچھ نہیں بولتے۔ کچھ دیر انتظار کرنے کےبعد لڑکا پھر گویا ہوا :
” نہیں نہیں، دادو افسوس! اب آپ جوان نہیں بن سکتے ۔”
دادو اندر ہی اندر سوچتے ہوئے اُداسی کے ساگر میں ڈوب گئے۔ پوتے کے من میں جو کچھ چل رہا تھا کچھ تو لفظوں سے ظاہر ہو رہا تھا لیکن بہت کچھ بن بولے بھی سمجھا جا سکتا تھا ۔ پوتے کے من میں دادو کیلئے پیار بھی تھا اور درد بھی تھا ۔ وہ دادو کے ساتھ کھیلتا بھی تھا اور من کی بھڑاس بھی نکالتا تھا ۔ اُسکے ممی پاپا نہیں چاہتےتھے کہ وہ دادو کے ساتھ چپکا رہے ۔ یہ دیکھ کر اُن کو سانپ سونگھ جاتا ۔ جیسے دادو کوئی چھوت چھات کی مہلک بیماری ہو۔ وہ منہ میں بڑ بڑاتے ،”اب اس بوڑھے سے کیا ملے گا ، پیٹ میں آنت نہیں منہ میں دانت نہیں ۔۔۔یہ اپنا وقت تو گذار چکا ہے اور اب تجھے ۔۔۔ چل اُٹھ یہاں سے نکل باہر ۔۔۔ ”
دادو یہ سب باتیں زہر کے گھونٹ کی طرح نگل جاتا ۔ پھر سوچتا “اب میں کسی کو دے بھی کیا سکتا ہوں۔ جسم کی ساری توانائی تو گئ ،کام کر نہیں سکتا ۔ بچے پالے ،پڑھایا لکھایا ، کمانے کے قابل ہو ،بیاہ شادی ہوئی تو بس ۔۔۔میں اب بیکار ہو گیا ہوں !”
دادو کو بہت سارے مواقعے یاد آئے جب چلتے ہوئے لوگ اُس کو دیکھ کر راستہ بدل گئے ۔ عورتیں بھی اس کو دیکھ کر لمبا سا گھونگھٹ نکال دیتی ۔
“بیوی گئی ،دوست یار گئے ۔ اگر کوئی زندہ بھی ہے تو کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ بس موت کے انتظار میں سانس لے رہا ہے ۔ اب ان کے ساتھ گزارے حسین پل ہی تو یاد رہ گئے ہیں ، یہی خزانہ ہے بس میری زندگی کا ۔۔۔۔ ”
جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں، سب کچھ تو بدل گیا ہے ! میں بھی زمانے کے ساتھ بدلتا بدلتا اب تھک گیا ہوں، اُس موڑ پہ آ گیا ہوں جہاں اور نہیں بدل سکتا۔
جیسے کسی اجنبی دنیا میں جی رہا ہوں ۔ دل کی بات سانجھی کرنے کیلئے کوئی نہیں مل رہا۔۔زمانہ تھا بہت تھے ۔ قدم قدم پر ۔ ساری دُنیا تھی۔۔۔
مجھے اب کوئی سننا نہیں چاہتا۔ میرے اپنوں کےلئے میری چاہت کی کوئی اہمیت نہیں، میرا درد کسی کو محسوس نہیں ہوتا۔ اب۔۔۔ میں بس ایک فالتو سی شے ہوں، ایک فالتو کمرے میں ، سانس لے رہا ہوں۔۔۔ کس کے انتظار میں؟ ۔۔۔”
وہ ہنسنے لگا اور پھر ہنستے ہنستے رو پڑا اور روتے روتے چُپ ہو گیا ۔
“میں کھانے کیلئے سانس لے رہا ہوں ،جی رہا ہوں کیا؟ کل ہی کی تو بات ہے ، انگ انگ دُکھ رہا تھا ،دیر تک سویا رہا ۔ آٹھ ،پھر نو ،پھر دس بھی بح گئے لیکن کوئی خبر گیری کے لئے بھی نہیں آیا۔ سبھی لوگ اپنے اپنے کام پہ چلے گئے۔۔۔کیا وہ کام نہیں کریں؟۔۔۔ پاگل!! ۔۔۔
پتہ نہیں اس پوتے کی مٹی میں میرا کیا رچا ہے،اسکول جانے سے پہلے ،ہولے سے، میرے کمرے میں آیا اور میرا ماتھا سہلا گیا اور ایک بوسہ بھی دے
گیا ۔ پوتا۔۔۔۔ ہاں پوتا ہی، میرے بعد بھی زندہ رہے گا ۔۔۔ اور میں بھی ۔۔ مرنا ہر گز بُرا نہیں آج بھی پوتا سکول سے واپس آیا تو سیدھا دادو کے کمرے میں چلا گیا ۔دادو اکڑوں بیٹھا کسی خیال میں ڈوبا تھا ۔” دادو دادو! ” وہ چلایا ،” آپ کی جھریوں کے لئے ایک دوائی لایا ہوں ۔۔۔ ایک انکل سکول کے گیٹ کے پاس بیچ رہا تھا ۔۔۔ بی ہیپی!” دادو نے پوتے کی آواز سُنی اور ہوشیار ہوگیا۔ اُس نے اُس کی کہی بات بھی سُن لی تھی ۔
پوتے کو بانہوں میں بھر لیا ،سینے سے لگایا ،اور کہا ” پُتر ! اب میں نہیں ۔۔۔ اب تُو مہکے اور میں مر جاؤں !! ”
���
پہلگام، کشمیر، موبائل نمبر؛7006803106