سید مصطفیٰ احمد
جتنے بھی مسائل ہمارے معاشرے میں پائےجاتے ہیں ان میں بچوں کی خودکشی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ایسا مسئلہ جو دوسرے مسائل کا بنیادی محرک بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں ہندوستان کے ایک مشہور میگزین فرنٹ لائن میں راجستھان کے کوٹہ میں NEET اور JEE امتحانات کے لئے تیاری کرنے والے طلباء میں خودکشی کا خوفناک رجحان کے بارے میں کچھ مضامین چھپے تھے جو کسی بھی ذی شعور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر پڑھائی کا مقصد دانائی اور جہالت سے نور کی طرف جانے کے ہیں تو خودکشیوں کی گندی ہوا کہاں سے اس نیک کام میں دَر آئے۔ مضامین میں راجستھان کے اُن نجی کوچنگ اداروں کی باتیں کی گئی تھیں جہاں طلباء کو صرف مشین سمجھا جاتا ہے۔ ان مضامین میں ذہنی کوفت کی ایسی تصویر کھینچی گئی ہے کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اصل میں جس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا ،وہ ہے کہ ایسے کون سے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے طلباء خودکشیاں کرتے ہیں۔ وجوہات تو بہت ہیں، لیکن کچھ وجوہات نمایاںہیں جو سب سے زیادہ رول اس خوفناک کار ِناجائز میں ادا کرتے ہیں۔ یہی وجوہات ایسی ہیں جو کم و بیش طلباء کی خودکشیوں کے پیچھے یکساں نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر آنے والی سطور میں کیا جارہا ہے۔
ناقص نظام تعلیم
ہماری تعلیم کا مقصد صرف کچھ مخصوص مسابقتی امتحانات پاس کرنے تک محدود رہ گیاہے۔ جنم کے کچھ ماہ بعد ہی بچوں کے اذہان میں یہ بات بٹھادی جاتی ہے کہ تم کو مسابقتی امتحانات پاس کرناہے اور زندگی میں اعلیٰ نوکریاں حاصل کرنی ہیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو یہ زندگی ، زندگی نہیں ہے اور ایسی زندگی جینے کے لائق ہی نہیں ہے۔ جب ایسی سوچ رائج ہو تو طلباء کا خودکشیوں کی طرف مائل ہونا قدرتی بات ہے۔
گھر والوں کی طرف سے خرچ کیا ہوا پیسہ یا سرمایہ
ماں باپ اپنے اولاد پر اس لئے پیسے خرچ کرتے ہیں کہ آنے والے کل میں ان پیسوں کا پھل ڈاکٹر یا انجینئر کی شکل میں نکل کر آئے گا۔ایسی اُمیدیں طلباء کو اندر سے ہی توڑ دیتی ہیں اور وہ اپنی کم عمری اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے اپنی قیمتی زندگیوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔
مادیت
ہمارے یہاں مادیت کی جڑیں اتنی مضبوط ہوگئی ہیں کہ انسان کا اُٹھنا بیٹھنا تک مادیت ہوگیا ہے۔صبح و شام اوردن و رات مادیت کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اس صورتحال میں بچوں کی حقیقی نشوونما پانابھی محال بن گیا ہے۔ آج بچوں کو صرف مادیت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، اِن پر سرمایہ اس نیت سے صرف کیا جاتا ہے کہ وہ بھی کل اسی راہ پر چل پڑیں اور گھر کی آمدنی بڑھانے میں معاون ثابت ہونگے۔ بچوں کو بینک سمجھا جاتا ہے جو آنے والے کل میں سود کے ساتھ پیسہ فراہم کریں گے۔ ان حالات میں بچوں کا ذہنی تذبذب کا شکار ہونا لازمی ہے۔ اگر ایک بچہ مادیت کی ہوس میں کانٹا بنتا ہے تو اس کی قدر و قیمت ختم ہوجاتی ہے۔
آخرت کی فراموشی
آج کا انسان دنیا میں اس قدر مگن ہوگیا ہے کہ اب اس کو آخرت کی کوئی فکر ہی نہیں رہی ہے۔ ماں باپ کے لیے اس کی اولاد رحمت بھی ہیں اور زحمت بھی۔اگر بچوں کو صرف دنیا کی رنگینیوں کاپجاری بنایا جائے، تو اُن کا زندگی سے تنگ آنا حتمی ہے۔ جس انسان کو آخرت کی فکر دامن گیر ہو تو وہ ہر دن اُس انداز سے جیتا ہے کہ میری زندگی کا ایک دن کم ہوا ہے۔حالانکہ یہ طے ہے کہ ہر وقت اور ہر لمحہ موت دروازے پر دستک دیتی رہتی ہے لیکن پھر بھی میں ایک فانی زندگی کے پیچھے پڑ کر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی بھی عذاب بنا رہا ہوں۔
ہمارا ماحول
ہمارے بچوں کو ایسا ماحول میسر ہے کہ جس میں اندرونی اور بیرونی نشوونما پانا ناممکن ہے۔ نام نہاد ترقی کےجس ماحول میں ہم رہتے ہیں اس میں ایک بچے اور بچی کا بگڑنا سو فیصد ممکن ہے۔ اس کے علاوہ آگے بڑھنے کی ایسی ہوس ہمارے ماحول میں چہار سو موجود ہے کہ بچہ اس
مسابقتی اکھاڑے کا نرم نوالہ بن جاتا ہے۔ گویایہ کرنے یا مرنے کا جنون ہی ایک بچے کو موت کی وادیوں میں دھکیلتا ہےاور اس کے نتائج بھیانک ثابت ہورہے ہیں۔
ہر دن ہندوستان میں لگ بھگ تیس سے چالیس بچے خودکشی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر سال دس ہزار سے زیادہ بچے موت کی نیند سوجاتے ہیں۔ اس سے گھروں کے گھر تباہ ہورہے ہیں۔ جن بچوں کو اس نیت سے پالا جارہا تھا کہ کل وہ ان کے لئے آرام کا سامان مہیا کریں گے ،جب وہی بچے داغ مفارقت دے کر ہمیشہ کے لئے دور چلے جاتے ہیں تو پھریادیں زندہ سانپ کی طرح ڈستی رہتی ہیں اور یہی وہ زخم ہیں جو رَستے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر کے دیگر افراد بھی مایوسی اور دیگر بیماریوں کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں، افسردگی اور دنیا سے بے رغبتی گھریلو افراد کی زندگیوں کے اہم حصے بن جاتے ہیں۔ یہ غم بھول کر بھی بھلایا نہیں جاسکتا ہے۔ وہ کھلتے ہوئے ہنستے چہرے کیسے پت جھڑ کی تُند ہواؤں سے مرجھا جاتے ہیں، ماں باپ کو زندہ مار دیتے ہیں۔ وہ خوابوں کی لمبی داستانیں کیسے ایک آن میں خاک میں مل جاتے ہیںجوانسان کے دل کو چھلنی کر دیتےہیں۔ ان معصوموں کا اس دنیا سے قبل از وقت چلے جانا سب سے بڑا حادثہ ہے۔ اس سے بڑھ کراور کون سا حادثہ پیش آسکتا ہے۔
مزید برآں طلباء کی خودکشیوں سے نظام تعلیم پر ہی اُنگلی اٹھتی ہے۔ جو نظامِ تعلیم طلباءکو موت کی کھلی دعوت دیتا ہو، اس نظام تعلیم سے ہی نفرت ہونے لگتی ہے۔ نور اب نار بن گیا ہے۔ اندھیرے سے اور مزید اندھیرے میں جانا موجودہ نظام تعلیم کا مقصد بن گیا ہے۔ جن کتابوں کا مقصد دل اور آنکھوں کی روشنیوں کو بڑھانا تھا، وہی کتابیں اب زندگی کی شمع بجھا دیتی ہیں، یہ کیسا تضاد ہے۔
اس تضاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ماں باپ کے علاوہ حکومت کو بھی ٹھوس اقدامات کرناہوںگےجبکہ اس کی شروعات گھر سے ہی کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ بچوں کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی صحیح تربیت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ البتہ ان پر چیزیں تھوپنے سے بہتر ہے کہ ان کی باتوں کو سُنا جائے ۔ ان کے خوابوں کی قدر کی جائے۔ اُن کو سمجھایا جائے کہ کونسا راستہ کدھر جاتا ہے اور ان کی مرضی کے خلاف کوئی بھی قدم نہ اٹھایا جائے۔ بچوں کو ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی اجازت دےدی جائے جو اُن کے حوصلوں کو مضبوط کریں۔ مزید برآں کاروباری سوچ کو بھی بچوں کی زندگیوں میں روشناس کرانا چاہئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بچے کاروباری دنیا سے بھی کسی حد تک واقف ہوں۔ مسابقتی امتحانات سے اُٹھ کر بچوں کو زندگی جینے کا صحیح ڈھنگ سکھانا ہوگا۔
زندگی سب سے بڑا امتحان ہے، جو اس میں کامیاب ہوگیا وہ کسی بھی امتحان کو اول نمبرات کے ساتھ پاس کرسکتا ہے۔ ہم سب کو چاہئے کہ ان نونہالوں کا بھرپور خیال رکھیں۔یہ اَدھ کھلے پھولوں کی طرح ہوتےہیں جو ہماری نگہداشت کے طلبگارہیں۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے تو بہت دیر ہوگی اور ہمارے لئے تباہی ہوگی۔ ہر دن معصوموں کا اس دار فانی سے چلا جانا گھاٹے کا سودا ہے۔ ہر ذی حس شخص کو بچوں کی زندگیوں میں ایک اُمید کی کرن بن کے آنا ہوگا ، یہی وقت کی ضرورت ہے۔
پتہ ۔حاجی باغ ، بمنہ سرینگر
رابطہ۔9103916455