ہلال بخاری،کنزر
میرے ایک دوست نے کچھ دن قبل ایک دلچسپ بات کہی۔ اس نے کہا کہ جب ہمارے برصغیر کے ایک جانے مانے مفتی صاحب عرب گئے تو وہاں پر ایک عربی انکے ساتھ گفتگو میں مگن ہوگیا اور اس نے مفتی صاحب سے کہا،’’ جناب عالی، مسلمان تو ہم بھی ہیں مگر آپ بر صغیر کے لوگوں کے عادات و اطوار سے اندازہ ہوتا ہے ک آپ کلمہ پڑھ کر کچھ زیادہ ہی باؤلے ہوچکے ہیں۔‘‘ حال ہی کی بات ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں لوگوں نے ایک عورت کو گھیر کر سنگ سار کرنے کی کوشش کی، کیونکہ اُس نے ایک ڈرس پہنا تھا جس پر ’’ حلوہ ‘‘ لکھا تھا۔ اُن کو لگا کہ تحریر چونکہ عربی زبان میں ہے ،لہٰذاکسی شک کے بغیر کوئی مذہبی تحریر ہے ،جسکو زیب تن نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ کا کرم تھا کہ پولیس نے کسی طرح سے اس خاتون کو ہجوم کی چنگل سے چھڑایا مگر آخر پر یہ معلوم ہونے کے بعد بھی کہ ’’حلوہ‘‘ لفظ کا مطلب خوبصورت یا میٹھا ہے اور یہ کوئی قرآنی یا مذہبی حرف نہیں، اس کے بجائے کہ شدت پسند لوگ اپنی کرتوت پر شرم کرتے یا معافی مانگتے ،اُنہوں نے اس ضعیف خاتون کو جو ٹراما کا شکار ہوئی تھی مجبور کیا کہ وہ قسم کھائے کہ کبھی دوبارہ زندگی میں ایسا پوشاک نہیں پہنے گی، گویا ظالموں کی حاضری میں مظلوم نے توبہ کی۔
بنگلہ دیش میں کچھ لوگ اپنی رہائش گاہوں کی دیواروں پر ’’ ھنا ممنوع التبول‘‘ تحریر کرتے ہیں ۔جس کا مطلب ہے یہاں پیشاب کرنا منع ہے۔ یہ ایک شاطر انداز ہے۔ لوگ اس عربی زبان میں لکھی تحریر کو پاک تحریر سمجھ کر وہاں سے دور چلے جاتے ہیں۔ ایک بار کسی سادہ لوح انسان نے اس تحریر کو قرآنی آیت سمجھ کر چوم لیا، یہ ہے حقیقت ہماری۔ ہم جس عربی کو اپنی مذہبی زبان تصور کرتے ہیں ہم میں سے تقریباً ننانوے فیصد لوگ اس زبان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بچپن سے ہمیں قران کو کسی منتر کی طرح صرف رَٹنا سکھایا گیا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کو قران کی تعلیم پڑھنے کے باوجود یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ کیا رہے ہیں۔
ہم بر صغیر میں رہنے والے لوگوں کے دعوے ہمارے اعمال سے میل نہیں کھاتے۔ ہم مذاہب اور مسالک کے نام پر ایک دوسرے سے بھر پور جھگڑنے والے اپنے علاقوں میں بسنے والے چوروں، بدمعاشوں، قمار بازوں،ناجائز منافع خوروں،منشیات فروشوں اور قاتلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر بے بس نظر آتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ اس خوش فہمی کے شکار ہیں کہ اس خطہ ٔارض پر ہم جیسے نیک صفت اور نیک سیرت لوگ اس دنیا میں اور کہیں نہیں ملتے۔ ہمارے زیادہ تر نام نہاد علماء اور دانشور اپنے علم کی گہرائی اور مد مقابل کی کم علمی اور جہالت کا ثبوت دینے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ یہ لوگ ایسی بحثیں کرتے ہیں جن سے ملک، سماج اور مذہب کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہوتا۔ ہم میں سے اکثر لوگ اس غلط فہمی کے شکار ہیں کہ مغربی ممالک میں یہاں سے زیادہ جرائم پیشہ لوگ رہتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر چہ بے راہروی میں مشرق سے مغرب تک اب یکسانیت پائی جاتی ہے مگر جرائم زیادہ ہمارے ملکوں کے لئے ہی درد سر بنے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں ڈنمارک میں فلیپا نام کی ایک کمسن لڑکی اچانک غائب ہوئی۔ ملک نے اپنی پوری طاقت صرف کرکے اس لڑکی کو کھوج نکالا، جسے ایک شخص نے اغوا کیا تھا۔ ڈنمارک کی پولیس نے اس لڑکی کو صحیح سلامت اپنے گھر والوں کے حوالے کیا اور اس مجرم کو جس نے اس معصوم لڑکی کو اغوا کیا تھا قید کر لیا۔
ڈنمارک کی قوم اور سماج نے ایک عمدہ مثال اس وقت قائم کی، جب اس ملک کے عوام نے یکجہتی سے اس لڑکی کی تلاش میں حصہ لیا اور بعد میں اس کے اغوا کار کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کی ایک بے نظیر مثال قائم کی۔ ڈنمارک کی عوام نے، جہاں اس طرح کے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں، نے اپنی غیرت کا پختہ ثبوت پیش کیا۔
کاش ہمارے ملکوں میں ایسی مثالیں عام ہوجاتیں۔ ہم آئے دن اغوا کاری، قتل و غارت اور بے راہروی کی کئی وارداتیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں یا اپنے کانوں سے سنتے ہیں مگر کس قاتل ، بدمعاش یا اغوا کار کے خلاف آج تک ہم نے اپنے سماج کو سوشل بائیکاٹ کرتے ہوئے پایا ؟ کیا بڑی بڑی باتیں کرنے سے اور خود کو کھلے دھونکےمیں رکھنے سے ہی ہم کامیاب ہونگے اور عظیم کہلائیں گے ؟
ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے یہاں کسی کی عقیدت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہبی معاملات میں کس قدر جنونی اور اریشنل ہے۔ یہاں جو عبادت کے دوران جتنی زیادہ اونچی آوازمیں بولے،اُسے اتنا ہی زیادہ مذہبی شخص تصور کیا جاتا ہے اور جو مذہب اور مسلک کے نام پر بات بات پر مرنے اور مارنے پر اُتر جائے اتنا ہی اسکو مذہب اور عقیدے میں پختہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عقیدے زیادہ تر پر دکھاوے سے وابستہ ہوئے ہیں۔ یہاں پر جو جتنا زیادہ دکھاوا کرنے میں کامیاب ہو اتنا ہی زیادہ وہ مذہبی اور مسلکی انسان تصور کیا جائے گا۔
ہم برصغیر میں رہنے والوں نے ہمیشہ اپنے آپکو چنیدہ اور اعلیٰ تصور کیا۔ ہم اکثر خود کو انسانیت کے لحاظ سے عربوں سے اور مغربی اقوام سے بہتر تصور کرتے ہیں۔ لیکن حقائق ہمارے خلاف ہیں، اس لئے ہمارے لئے تلخ ہیں۔ ہم جب ان حقائق کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ سے ایسے ہجوم کے حصے رہے ہیں، جس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اپنی اجتماعی حیثیت سے ہم اُن سے بہتر نہیں بن سکے جن کو ہم اپنے سے اَبتر تصور کرتے ہیں۔
[email protected]