مفتی نذیر احمد صوفی قاسمی
اللہ پاک کا بے شمار کرم اور احسان ہے کہ انہوں نے ہم سب کو اسلام اور ایمان کی دولت سے نوازا اور ہم سب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں بنایا۔ اللہ پاک کا یہ بھی بہت بڑا کرم اور احسان ہے کہ اِس امت کو وہ مبارک ایام، مبارک لمحات، مبارک ساعات مرحمت فرمائے کہ جن میں ایک انسان اللہ کے قریب ہو کر اپنے گناہوں کو معاف کروا دیتاہے۔ توبہ، اللہ پاک کی طرف سے ایک ایسی عظیم نعمت ہے اور انسان کی ذات پر وہ احسان ہے، جس کو انسان اپنی زبان سے اور اپنے قلم سے بیان نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ توبہ سے انسان اللہ کے قریب ہو جاتا ہے ،اللہ کے محبوب بندوں میں شمار ہوتا ہے، اللہ کے برگزیدہ بندوں میں شمار ہوتاہے اور توبہ اللہ کی رحمت کو متوجہ کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نور آیت نمبر 31 میں فرماتاہے: اے ایمان والو !سب مل کر اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم سب کامیاب ہو جاؤگے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا۔ سورہ نساء آیت نمبر 110 میں، جو شخص بھی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے اور پھر اللہ سے معافی طلب کرے تو وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا ہی پائے گا۔ ایک حدیث پاک میں نبی اکرمؐ نے فرمایا، توبہ نام ہے ندامت کا اور شرمندگی کا ۔ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم ؐنے فرمایا، گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔( الحدیث) ۔ جیسے ایک شخص ناپاک ہو جائے اگر وہ غسل کر لے تو پاک ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر ہاتھ پاؤں غبار آلود ہو جائیںیا ان پر میل چڑھ جائے ،جس طرح وہ دھونے اور رگڑنے سے صاف ہو جاتے ہیں اُسی طرح توبہ کرنے والے کا حال ہے کہ جب وہ سچے دل سے توبہ کر لیتا ہے تو گناہوں کا میل توبہ کے پانی سے دُھل جاتا ہے۔ دل میں بار بار یہ خیال آتا ہےکہ ہم نے اپنی نفسانی خواہشات کی اتباع کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم اور رسول اکرم ؐ کے طریقے کو پس پشت ڈال دینے کی وجہ سے اپنی جانوں پرجو ظلم کیاہے، جس کے سبب ہم رحمتِ خداوندی سے دور ہو گئے ہیں۔ اب اس نافرمانی زندگی کا کیا ہوگا ، آخرت کی فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ آخرت کی ذِلت، رُسوائی اور جہنم کے احوال جان کر دِل تڑپ اٹھتا ہے، بدن لرز جاتا ہے کہ آخر اب ہمارے گناہوں کے تدارک کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی جملے میں مسئلے کا حل ارشاد فرما دیا کہ اے میری اُمت! پریشان نہ ہو، اللہ پاک کے سامنے ہاتھ اُٹھا ،اِس حال میں کہ گزشتہ پر ندامت اور آگے گناہ نہ کرنے کا عزم کر، اللہ پاک تیرے گناہوں کو معاف فرمائے گا ۔ ممکن ہے کہ یہ خام خیال دل میں پیدا ہو کہ ابھی تو جوان ہے، ابھی تو جوانی ہے۔ بہت لمبی زندگی پڑی ہے، بعد میں توبہ کر لیں گے ۔یہ انسان کو شیطان کی طرف سے ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ بے شک جوانی میں ہر چیز جوان ہوتی ہے، شہوت بھی جوان ہوتی ہے، جذبات بھی جوان ہوتے ہیں، شکل و صورت بھی پر رونق ہوتی ہے۔ اب ایسے وقت میں اگر کوئی شخص اللہ کے خوف سے اس کے سامنے روتا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتاہے تو یہ پیغمبروں کا طریقہ ہے اور جب بڑھاپا آگیا تو اس بڑھاپے میں جوانی بھی ختم، شہوت بھی ختم ،جذبات بھی ختم، شکل و صورت بھی ختم، ہر چیز ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں تو ظالم بھیڑیا بھی غار میں جا کر پڑ جاتا ہے ۔حقیقی بندگی تو جوانی کا ہے۔ توبہ کا وقت صرف انسان کے حواس باقی رہنے تک ہے، جب غرغرہ کا عالم طاری ہو جاتا تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ موت کے فرشتے کب آ کھڑے ہوں اور مہلت بھی نہ ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو عظیم مہینہ رمضان المبارک عطا فرمایاہے۔ اس عظیم مہینے میں اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں گے اور اللہ پاک کے محبوب بندوں میں اپنے آپ کو شمار کریں گے۔ اللہ ہم جیسے گنہگاروں اور سیاہ کاروں کو معاف فرما کر اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دیدے اور تاحیات حقیقی بندگی کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
[email protected]