بشیر اطہر
میں اور شاہد بچپن کے ساتھی تھے۔ کھیل، پڑھائی اور شرارتوں میں ہم ہمیشہ ساتھ رہے۔ مگر شاہد کو ایک بُری لت تھی—چوری۔ وہ کبھی پنسل چرا لیتا تو کبھی کاپیاں بیچ کر سگریٹ خریدتا۔ شکایت کرنے پر اس کے ماں باپ ہمیشہ یہی جواب دیتے:
’’ہمارا بیٹا چور نہیں ہوسکتا، ہم غریب ضرور ہیں مگر چور نہیں!‘‘
وقت کے ساتھ شاہد کی عادتیں بھی بڑھتی گئیں۔ اب وہ بڑی چوریاں کرتا اور نشے میں ڈوبنے لگا۔ میں نے اسے سمجھایا:
’’بھائی! یہ سب چھوڑ دو۔ محنت کرو، رزقِ حلال کھاؤ۔‘‘
مگر اس نے قہقہہ لگایا:
’’دنیا والوں کے پاس بہت مال ہے، اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔‘‘
ایک دن اس نے مجھے تھپڑ مار کر دوستی ہی ختم کردی۔ میں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ والدین کو جب حقیقت پتا چلی تو انہوں نے بھی جائیداد سے عاق کردیا۔ وہ ضد میں گھر چھوڑ گیا۔
سالوں بعد، شہر میں ایک حادثے کی خبر ملی۔ جب میں بھاگ کر وہاں پہنچا تو زخمی شخص کو دیکھ کر چیخ نکل گئی۔ وہ شاہد تھا! اسپتال میں مہینوں کے علاج کے بعد اس نے لرزتی آواز میں اپنی کہانی سنائی:
’’میں نے گھر چھوڑنے کے بعد کفن چوری شروع کردی۔ ایک رات ایک بزرگ کی قبر کھودی۔ جیسے ہی کفن کھولنے لگا، وہ زندہ ہو اٹھے اور بولے:
’بیوقوف! مُردوں کو بھی نہیں بخشتے؟ کل کو تیرا کفن کون چھوڑے گا؟‘
اسی رات میں نے خواب دیکھا۔ وہ بزرگ مجھے مسجد لے گئے۔ وہاں سب کے چہرے نورانی تھے، صرف میرا چہرہ سیاہ تھا۔ انہوں نے ایک ایک کرکے میرے گناہوں کا حساب چکایا اور کہا:
’آج سے آزاد ہو جا، توبہ کر لے۔‘
اسی لمحے میرا چہرہ روشن ہوگیا۔ میں ہڑبڑا کر جاگا اور روتے ہوئے اللہ سے توبہ کی۔‘‘
شاہد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
’’مگر لوگ اب بھی مجھے چور سمجھتے ہیں۔ ان کے تعاقب سے بچتے ہوئے ہی حادثہ ہوا تھا۔‘‘
جب وہ گاؤں لوٹا تو والدین نے گلے لگاکر کہا:
’’بیٹا! اب ہمیں چھوڑ کر مت جانا۔‘‘
شاہد نے سسکتے ہوئے کہا:
’’اللہ! میری توبہ قبول فرما۔‘‘
اس دن کے بعد وہ محنت مزدوری کرنے لگا اور نوجوانوں کو نصیحت کرنے لگا کہ گناہ کا انجام بربادی ہے، اور توبہ ہی انسان کو عزت لوٹاتی ہے۔
���
خانپورہ کھاگ بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛7006259067