یاسین رشید میر
انسان اس کائنات کی سب سے پیچیدہ اور لطیف مخلوق، نہ صرف عقل و شعور کا پیکر ہے بلکہ جذبات و احساسات کا مرکب بھی ہے۔ اس کی فطرت میں تعلق اور وابستگی کی شدید پیاس رکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنگلوں میں اکیلا رہنے کے بجائے بستی بساتا ہے، قبیلے بناتا ہے، رشتے جوڑتا ہے اور ان میں سے سب سے انوکھا، سب سے آزاد اور سب سے پاکیزہ رشتہ ’’دوستی‘‘ کا ہے۔یہ رشتہ نہ نسب کا پابند ہوتا ہے، نہ مال و متاع کا محتاج، نہ رنگ و نسل اس میں دخل دیتے ہیں، نہ مذہب و ملت کی دیواریں اسے روک سکتی ہیں۔ یہ وہ رشتہ ہے جو روح کی کسی پر اسرار ہم آہنگی سے جنم لیتا ہے۔ اگر دوستی کو محبت کا بے غرض روپ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا، کیونکہ اس میں کوئی جبر نہیں، کوئی مجبوری نہیں — صرف خلوص، صرف قربانی، صرف دل کی آواز۔لیکن آج جب ہم اپنے گردوپیش کی سماجی فضا کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دل چُور چُور ہو جاتا ہے۔ وہ سچی، بے لوث، پرخلوص اور وفادار دوستی جیسے تاریخ کے کسی باب میں دفن ہو چکی ہے۔ وہ وقت جب دوستوں کے لیے دروازے نہیں دل کھلے ہوتے تھے، جب ایک دوست کی تکلیف دوسرے کے لیے ذاتی درد بن جاتی تھی، اب قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ پہلے دوستوں کے لیے قربانی دی جاتی تھی، اب مفاد کی ناپ تول ہوتی ہے۔ پہلے دوستی نبھائی جاتی تھی، اب استعمال کی جاتی ہے۔ جدید انسان نے اپنی فطرت سے بغاوت کر کے اس روحانی رشتے کو بھی مادی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب تو کیا، مگر دلوں کو دُور کر دیا۔ اب دوستی لائکس، کمنٹس اور اسٹوریز کی غلام ہو چکی ہے۔ آج کا انسان اتنا خود پرست ہو چکا ہے کہ دوسروں کے درد میں شرکت کرنا اسے وقت کا ضیاع لگتا ہے۔ نتیجتاً، انسان ایک ایسی خود ساختہ تنہائی میں قید ہے، جہاں ہزاروں لوگ آن لائن تو ہیں، مگر دل کی بات سننے والا ایک بھی نہیں۔ماہرین نفسیات کی رائے ہے کہ انسان کی ذہنی صحت کے لیے ایک سچا، ہمدرد دوست آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے دوستوں کی کمی ڈپریشن، بے اعتمادی اور احساسِ تنہائی کو جنم دیتی ہے۔یعنی دوستی صرف جذباتی آسودگی نہیں، بلکہ ایک ذہنی اور روحانی ضرورت بھی ہے۔اسلام نے دوستی کو ایک عظیم نعمت قرار دیا ہے۔تاریخِ انسانیت ایسی دوستیوں سے بھری پڑی ہے جو خون کے رشتوں سے بھی زیادہ مضبوط تھیں۔
آج دوستی کا زوال ہمارے مجموعی تہذیبی و اخلاقی بحران کی ایک شاخ ہے۔ جب انسان ہر رشتے کو مفاد کے ترازو میں تولنے لگے تو سب سے پہلے وہ رشتہ دم توڑتا ہے جس کی بنیاد ہی بے غرضی پر ہو — یعنی دوستی۔دوستی کو واپس اس کے اصل مقام پر لانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم خود کو بدلیں۔ ہم خود وہ دوست بنیں، جس کی ہمیں تلاش ہے۔ ہم دوسروں کی خامیوں کو ڈھانپیں، ان کے سچ کو سنیں اور ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں۔
زمانہ بدل چکا ہے، مگر انسانی فطرت کی اصل ضرورت آج بھی وہی ہے، ایک سچا، وفادار اور خیرخواہ دوست۔ دوستی محض ایک سماجی ضرورت نہیں، بلکہ انسانی شخصیت کی تشکیل کا ایک بنیادی ستون ہے۔ جب یہ ستون کمزور ہو جائے، تو انسان اپنی داخلی دنیا میں تنہائی، عدم تحفظ اور بےیقینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج کے تیز رفتار، خود غرض اور ظاہری چمک دمک سے بھرپور معاشرے میں، اگر کوئی چیز سب سے زیادہ نایاب ہو چکی ہے، تو وہ خلوص پر مبنی رفاقت ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم دوستی کے مفہوم کو ازسرنو سمجھیں، اسے وقتی مفادات کی بجائے اخلاقی اقدار، ایثار، محبت، تحمل اور اخلاص کی بنیاد پر استوار کریں۔ ہمیں نئی نسل کو صرف کامیابی کے گُر سکھانے کی نہیں بلکہ دوستی نبھانے کا سلیقہ سکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ تعلقات کو سرمایہ نہیں امانت سمجھا جائے اور امانت کا تقاضا ہے کہ اسے وفا اور حفاظت کے ساتھ نبھایا جائے، نہ کہ جب فائدہ ختم ہو جائے تو نظرانداز کر دیا جائے۔معاشرہ تبھی مہذب بنتا ہے جب رشتے مفاد سے بلند ہو جائیں اور دلوں میں جگہ دینے کا ہنر عام ہو۔ ہمیں اپنے کردار سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ دوستی آج بھی ممکن ہے، ایسی دوستی جو روح کو سکون دے، اخلاق کو جِلا بخشے اور ہمیں دنیا سے زیادہ آخرت کی یاد دلائے۔
رابطہ۔9797842030
<[email protected]>