سبدر شبیر
انسان کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور اپنے کمرے میں، اپنی خلوت میں یا تنہائی کے کسی گوشے میں بیٹھا ہوتا ہے۔ دنیا والوں کی آنکھیں بند ہو سکتی ہیں، دروازے مقفل ہو سکتے ہیں، پردے گر سکتے ہیں لیکن اس کائنات کے ربّ کی نگاہ سے کچھ بھی چھپ نہیں سکتا۔ یہی وہ لمحہ ہے جب اصل ایمان ظاہر ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اکیلا ہو کر گناہ کے راستے سے بچ جائے تو یہ اس کے دل کی پاکیزگی اور اللہ کے خوف کی علامت ہے اور اگر وہی شخص اپنی تنہائی کو گناہ کے لئے استعمال کرے تو یہ اس کے نفس اور شیطان کے غلبے کی دلیل ہے۔
آج کے دور میں انسان کی تنہائی کا سب سے بڑا ساتھی موبائل فون بن چکا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی ڈیوائس ہے جو بظاہر سہولتوں کا خزانہ ہے لیکن حقیقت میں یہ انسان کے ایمان کے لئے سب سے بڑی آزمائش ہے۔ ایک طرف یہ موبائل علم کا دروازہ کھول سکتا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی تک رسائی دے سکتا ہے، دین کے بڑے بڑے علما کے بیانات سنوا سکتا ہے، کاروبار کو بڑھا سکتا ہے اور دنیاوی آسانیاں فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہی موبائل اگر بے قابو ہو جائے تو انسان کو ایسی تاریکیوں میں دھکیل دیتا ہے جن سے نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی موبائل تنہائی میں بیٹھے ہوئے نوجوان کے دل میں حرام خواہشات کو بھڑکاتا ہے، آنکھوں کو بے حیائی کا عادی بنا دیتا ہے، ہاتھوں کو غلط استعمال پر مجبور کرتا ہے اور دل کو سیاہ کر کے نورِ ایمان کو مٹا دیتا ہے۔
پہلے زمانے میں گناہ تک پہنچنے کے لئے رکاوٹیں تھیں، انسان کو گناہ کرنے کے لئے باہر نکلنا پڑتا تھا، لوگوں کی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، معاشرے کی شرم و حیا ایک ڈھال کی طرح کام کرتی تھی۔ لیکن آج گناہ انسان کی جیب میں آ بیٹھا ہے۔ اب صرف ایک کلک پر انسان یا تو جنت کے راستے پر چل سکتا ہے یا جہنم کی کھائی میں گر سکتا ہے۔ قرآن بھی اسی موبائل پر موجود ہے اور فحش مواد بھی، ذکر بھی سن سکتا ہے اور غفلت میں بھی ڈوب سکتا ہے۔ یہ فیصلہ ہر لمحہ انسان کو خود کرنا ہے کہ وہ کون سا دروازہ کھولے گا۔
موبائل نے سب سے زیادہ نقصان وقت کو پہنچایا ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ بس پانچ منٹ کے لئے فون دیکھتا ہوں لیکن وہ پانچ منٹ گھنٹوں میں بدل جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا جادو ایسا ہے کہ انسان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ دن کہاں گیا، رات کیسے بیت گئی، نماز کب قضا ہو گئی، قرآن کب پیچھے رہ گیا، والدین کی پکار کب اَن سنی ہو گئی۔ وہ نوجوان جو اپنی توانائی کو عبادت، علم اور والدین کی خدمت میں لگانا چاہتا تھا، وہی نوجوان موبائل کی اسکرین پر بے مقصد وقت برباد کر کے اپنی زندگی کو ضائع کر دیتا ہے۔
اصل امتحان تو یہی ہے کہ تنہائی میں کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ اگر کوئی شخص لوگوں کے سامنے تو نیک نظر آئے لیکن تنہائی میں اس کا حال کچھ اور ہو تو یہ ایمان کی کمزوری ہے۔ اصل نیکی یہ ہے کہ انسان اکیلا ہو، کوئی دیکھنے والا نہ ہو، صرف اللہ کی یاد دل میں زندہ ہو اور وہ گناہ کے قریب نہ جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی شخص کے بارے میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُسے اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑیں۔ یہی اخلاص کی علامت ہے اور یہی ایمان کی اصل بنیاد ہے۔
موبائل کو بُرا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ بذاتِ خود ایک آلہ ہے۔ جیسے چھری ہے، جو کھانے کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے اور نقصان کے لئے بھی۔ اسی طرح موبائل بھی خیر کا ذریعہ بن سکتا ہے اور شر کا ہتھیار بھی۔ اگر کوئی شخص موبائل کو قرآن کی تلاوت سننے، ذکر کرنے، علم حاصل کرنے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور حلال روزی کمانے کے لئے استعمال کرے تو یہ اس کے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ لیکن اگر یہی موبائل اس کے لئے گناہوں کا دروازہ کھول دے، اس کو نماز سے غافل کر دے، اس کو بے حیائی کا عادی بنا دے، یا اس کے وقت کو ضائع کر دے تو یہ اس کے لئے وبال بن جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم اس فتنہ سے کیسے بچیں؟ سب سے پہلے ہمیں اپنے دل میں اللہ کے خوف کو زندہ رکھنا ہوگا۔ ہمیں ہر لمحہ یاد رکھنا ہوگا کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، چاہے ہم کتنے ہی دروازے بند کر لیں۔ دوسرا یہ کہ ہمیں اپنے وقت کی قدر کرنی ہوگی اور موبائل کے استعمال کے لئے ایک حد مقرر کرنی ہوگی۔ تیسرا یہ کہ ہمیں اپنی صحبت صالح بنانی ہوگی، نیک دوست رکھنے ہوں گے جو ہمیں برائی سے بچائیں اور نیکی کی طرف لے جائیں۔ چوتھا یہ کہ ہمیں اپنی خلوت کو عبادت میں بدلنا ہوگا۔ جب ہم اکیلے ہوں تو موبائل پر فضول چیزیں دیکھنے کے بجائے قرآن سنیں، دعائیں پڑھیں یا ذکر کریں۔ پانچواں یہ کہ ہمیں اپنے نفس کا روزانہ محاسبہ کرنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ آج میرا موبائل مجھے اللہ کے قریب لے گیا یا دور۔
اگر ہم اپنی تنہائی کو عبادت کا ذریعہ بنا لیں اور اپنے موبائل کو نیکی کا ہتھیار بنا لیں تو یہی دونوں چیزیں قیامت کے دن ہمارے لئے سایہ بن جائیں گی۔ لیکن اگر ہم نے تنہائی کو گناہ میں گزارا اور موبائل کو شیطان کا ساتھی بنا لیا تو یہی دونوں چیزیں ہمارے لئے قیامت کے دن ذلت اور رسوائی کا سبب بنیں گی۔ دنیا کی لذتیں وقتی ہیں، آنکھ کی خوشی پل بھر کی ہے لیکن آخرت کی کامیابی ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ اس لئے آج ہی ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ اپنی تنہائی کو کیسے گزارنا ہے اور اپنے موبائل کو کس مقصد کے لئے استعمال کرنا ہے۔اے اللہ! ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی خلوت کو عبادت میں بدلیں، اپنے موبائل کو نیکی کا ذریعہ بنائیں، اپنی آنکھوں کو گناہ سے بچائیں اور اپنے دل کو اپنے ذکر سے آباد کریں۔ آمین