میری بات
سید مصطفیٰ احمد
مولانا وحید الدین خان صاحب کی ایک نصیحت میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔خان صاحب نے کہا تھا کہ زندگی جینے کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز ہے کہ ایک انسان اختلافات کے دور میں اپنے مخالفین کو صحیح راستے پر مان کر حالات کو اور خراب ہونے نہ دیں۔بالفاظ دیگر جب ہر انسان صرف اپنے نظریات کی ہی پیروی کرنے لگے اور دوسروں کے نظریات کو ہر جائز اور ناجائز طریقوں سے غلط ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں، اس وقت اپنے نظریات کا دفاع کرنا مضر ثابت ہوسکتا ہے۔جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ بیشتر فتنوں کی جڑ کی وجہ صرف اپنے خیالات کو صحیح ماننے میں پنہاں ہیں۔ایک انسان دوسرے انسان کی گردن پر اس لئے سوار ہوا ہے تاکہ دوسرے شخص کو قائل کرسکے کہ صرف میرے نظریات ہی قابل قبول ہیں۔اس قسم کے تنگ نظریہ نے چہار سو مباحث کا بازار گرم کرکے رکھا ہیں۔ہر گلی میں مختلف نظریات کے بیچ میں نہ تھمنے والی جنگیں چھڑ گئی ہیں۔ایک دوسرے کے گریبان پھاڑ دیے جارہے ہیں۔ کبھی حالات اتنے خراب ہوجاتے ہیں کہ نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے۔اس کا نتیجہ اس شکل میں نکلا ہے کہ عدم برداشت کی مسموم فضا ہماری موت کا سامان تیار کر رہے ہیں۔آسمانوں میں بھی ہماری تباہی کے چرچے شروع ہونے لگے ہیں۔ جب ہم قدرت کے نظام کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ لاکھ اختلافات کے باوجود یہ کائنات ایک خوبصورت انداز میں اپنا کام اعلیٰ ڈھنگ سے انجام دے رہی ہے۔دن، رات کے راستے میں کبھی بھی حائل نہیں ہوجاتا ہے۔اسی طرح سے موسموں کا مزاج بھی کچھ ایسا ہی ہیں۔وہ اپنے اپنے وقت پر آکر اپنا مخصوص وقت گزار کر چلے جاتے ہیں اور اگلے سال کی تیاریاں کرنے میںجُٹ جاتے ہیں لیکن انسان ہی ایسی واحد مخلوق ہے جو diversity اور pluralism کے الفاظ سے جیسے نفرت کرتا ہے۔اس کو لگتا ہے کہ میرے خیالات اور نظریات سے کوئی بھی اختلاف رکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔میں ہی وہ واحد شخص ہوں جو حق پر ہے۔اس لئے دوسرے لوگوں کا حق نہیں بنتا کہ اپنے سینے پر حق پر ہونے کی تختی لٹکا دیں۔اس کے برعکس اگر ایک انسان اس قسم کی پالیسی اپناتا کہ وہ اپنے نام کے مخالفین سے مخاطب ہوکر بولے کہ تم بھی ٹھیک ہو۔تم اپنی جگہ صحیح ہو اور میں اپنی جگہ۔تم اپنے نظریات کی پیروی کرو اور میں اپنے نظریات کی۔
اب ،جیسے کہ اوپر کی سطروں میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ عدم برداشت کی زہریلی فضا چلنے لگی ہے تو ایسے میں خان صاحب کی نصیحت کہ تم بھی ٹھیک ہو ،پر عمل پیرا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ہم بڑے شائستگی کے ساتھ متضاد خیالات رکھنے والے شخص سے پیش آسکتے ہیں اور اس کے عقائد کا خیال رکھتے ہوئے اس زندگی کے گنے چُنے دن آرام سے گزار سکتے ہیں۔یہ کام سر سرد والا تو ضرور ہے لیکن یہ اپنے اندر امن اور ترقی کے اوصاف چھپائے بیٹھے ہیں۔ہر دانا شخص کو اس کام میں پہل کرنی چاہئے۔ایسا ماحول ترتیب دیا جانا چاہئے جس میں ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات کی دل سے عزت کی جانی چاہئے۔اگرچہ بڑے سے بڑا اختلاف ہی کیوں نہ ہو، اس وقت بھی شائستگی اور اچھائی کے دامن کو ہاتھ سے کس پر پکڑکے رہنا چاہئے۔اس ضمن میں لکھنے کے لئے تو بہت باتیں ہیں لیکن قارئین کے وقت کا خیال بھی ذہن میں رکھ کر میں اس مختصر مضمون کو یہی پر اختتام کرتا ہوں، لیکن اختتام کرنے سے پہلے ایک بات صاف کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا وحید الدین خان صاحب سے میری کوئی ذاتی وابستگی نہیں تھی۔ان کے طرز تحریر سے مجھے لگاؤ تھا۔اُن کی ہر بات کے ساتھ میں اتفاق نہیں کرتا ہوں لیکن مجموعی طور پر اُن کی باتیں میری ذات سے زیادہ میل کھاتی تھیں۔وہ آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان کی نصائح زندگی کے کئی موڑوں پر میرے لئے راہنمائی کا کام کرتے ہیں۔خان صاحب کی کچھ گنی چُنی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس مضمون کو تحریر کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ہر قاری کو حق ہے کہ وہ میری اور مولانا وحید الدین خان صاحب کی باتوں سے اختلاف کرسکتا ہے، لیکن تمیز اور انسانیت کے دائرے میں رہ کر کوئی بھی اختلافی مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ آخر تم بھی تو ٹھیک ہو اور میں غلط ہوسکتا ہوں۔
(رابطہ۔7006031540)
[email protected]