سید مصطفیٰ احمد
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیز کون سی ہے، تو میرا جواب ہوگا ذہنی صحت۔ یہ وہ واحد چیز ہے جو ایک مطمئن زندگی کا مرکز و محور ہے۔ اسے واضح الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ تاہم اس کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ یہ ایک پُرامن زندگی کی اساس ہے۔ موجودہ دنیا میں جب ذہنی صحت مستقل طور پر خطرے سے دوچار ہے اور سو فیصد امکانات ہیں کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب لوگوں کے ہجوم ذہنی مسائل کے شکار ہوں گے تو اس اہم موضوع پر روشنی ڈالنا لازمی ہے۔ مزید برآں آنے والے اس ممکنہ بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے عوامی سطح پر لانا نہایت ضروری بن گیا ہے۔ ہماری قدامت پسند سماج میں ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اس پر بات کرنے سے ناپسندیدگی اور بے شمار سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سال 2022 میں، میں نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے ڈراؤنے حادثے کا سامنا کیا۔ میری ذہنی صحت اس حادثے کا سب سے پہلا شکار بنی۔ میری زندگی جہنم بن گئی اور دو سال تک میں خود کو سنبھال نہ سکا۔ میں اب بھی اپنی سوچوں اور دوسروں کے خیالات کے بوجھ سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میری زندگی پر پڑنے والا دھچکا اتنا گہرا ہے کہ نہ تجربہ اور نہ وقت اب تک کوئی مثبت نتیجہ لایا ہے۔ میں جلد از جلد سنبھلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نے ہار نہیں مانی ہے۔ میں ذہنی پریشانیوں کے طوفان کا سامنا پُرامید رویے کے ساتھ کرتا ہوں۔ اپنی اس جدوجہد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئیے ذرا ذہنی صحت کے فوائد پر بات کرتے ہیں۔
اول تو ذہنی طور پر صحت مند انسان اپنی زندگی کو سکون سے گزارتا ہے۔ طوفانوں کے بیچ میں بھی وہ سر اونچا رکھ کر اور بلند حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ طوفان اس پر دھچکے ضرور لگاتے ہیں، لیکن اس کی پُرکشش شخصیت یعنی ذہنی مضبوطی اسے ان شدید طوفانوں پر غلبہ دیتی ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے۔دوم ، زندگی کے مقصد کو سمجھنا۔ جو شخص ذہنی طور پر مضبوط ہوتا ہے، وہ زندگی کی نزاکتوں کو سمجھ سکتا ہے۔ ایک متوازن ذہن رکھنے والا شخص نیکی اور برائی دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھ سکتا ہے۔ ہر لمحہ اسے گہری اور خاموش خود احتسابی کا موقع فراہم کرتا ہے، کیونکہ روزمرہ کی گہماگہمی میں بھی وہ خود کو ان معمولی اُلجھنوں سے بلند کر کے اپنی ذات میں جھانکتا ہے اور دنیوی میل کو ہٹا کر زندگی کے اصل مقصد کو پہچان لیتا ہے۔ سیوم، دوسروں کے لیے ایک تحریک بننا۔ ذہنی طور پر تندرست شخص دوسروں کے لیے ایک زندہ مثال ہوتا ہے۔ اس کی پرکشش شخصیت دوسروں کے راستوں کو روشن کرتی ہے اور اس طرح وہ ان لوگوں کی دنیا جگمگا دیتا ہے جو مایوسی کا شکار ہیں۔ یہی مثبت اثر ذہنی صحت کا ہے کہ اس کی مثال ہمیشہ دوسروں کے لیے قابلِ تقلید بن جاتی ہے۔ چہارم ،خالق کی خوشنودی۔ جو اپنی سوچوں پر قابو پا لیتا ہے، وہ اپنے خالق کو پہچان لیتا ہے۔ ایسا دماغ جو مثبت خیالات سے مالا مال ہو اور زندگی کی اُلجھی ہوئی گرہوں کو سلجھانے کی طاقت رکھتا ہو، وہ خدا کے نزدیک پسندیدہ ہوتا ہے۔ اس کا رویہ خالق کو محبوب ہوتا ہے اور اُسے دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ذہنی صحت سب کے لیے لازمی ہے۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم کیسے خود کو ذہنی طور پر تندرست بنائیں۔ یہ کوئی ناممکن عمل نہیں ہے۔ اگر درست طریقہ اختیار کیا جائے اور ماہرین کی نصیحتوں پر عمل کیا جائے تو ذہنی صحت حاصل کرنا ممکن ہے۔ اس مقصد کے لیے موزوں ماحول پیدا کرنا بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ انسان اپنے ارد گرد کے ماحول کی پیداوار ہے۔ لہٰذا ایسا ماحول بنانے کی کوشش کرنا جو ذہنی طور پر صحت مند افراد پیدا کرے، ایک پائیدار معاشرہ تشکیل دینے میں مدد کرے گا۔ آج آبادی کی اکثریت مختلف اقسام کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان لوگوں کا خیال رکھیں جو خاموشی کے عالم میں تکالیف میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آئیے ہم وقت کی سنگینی کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ایسے اقدامات کریں جو ذہنی طور پر صحت مند شخصیتیں پیدا کرنے میں مددگار ہوں۔ اللہ ہماری رہنمائی فرمائے!