نہ جانے رجنی کی ماں کے ساتھ ایسا کون سا حادثہ پیش آیا تھا کہ اسے اپنی جو انی میں ہی ناکردہ گناہ کی پاداش میں بیوگی کا روگ جھیلنا پڑا اور رجنی کو اپنے باپ کا پیار نہ ملا۔ وہ کونسی مجبوری تھی ؟ کیا سبب تھا ؟ جس کی بنا پر وہ دور ایک ویران سی بستی میں جاکر رہنے پر مجبور ہوئی اور اب تک اس کی حقیقت بتانے میں کترتی رہی حالانکہ رجنی نے اسے کئی بار پوچھا بھی مگر وہ اپنی ضد پر اڑی رہی۔ ہر بار ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ۔
’’ شاید بعد میں اس کے سوالوں کا جواب دینے کا موقعہ ملے یا نہ ملے‘‘یہ سوچ کرایک دن بستر مرگ پر ماں نے رجنی کو اپنا دکھڑا سنایا، جسے سن کر اسے اپنے پائوں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ پہلے تو رجنی کو اس کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔ تب اچانک اس کے دل میں خیال آیا کہ سوا ماں نے کبھی ابھی اُس سے جھوٹ نہیں بولا اور پھر آج ایسی نازک گھڑی میں کیسے جھوٹ بول سکتی ہے ۔ نہ جانے ماں کو اس کی خاطر کتنی اذیتیں اٹھانی پڑیں اور ذلتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر پھر بھی چپ سادھے سارے دُکھ جھیل لئے اور اُف تک نہیں کی۔
جیسے ہی ماں نے اس کا چہرہ پڑھ لیا تو وہ چند لمحے رُک کرپھر بولی۔
’’ بیٹا ۔ تم سے آج تک میں نے یہ بات چھپائے رکھی تھی ۔ کہیں میری دکھ بھری کہانی سن کر تمہارے قدم ڈگمگانے نہ لگیں۔ میں تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہوں۔ اب جب کہ مرنے کے قریب ہوں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتی ہوں۔ ‘‘
اماں ! تم کیسی باتیں کرتی ہو۔ میں نے آج تک تمہاری کوئی بات ٹال دی ہے کہ اب انکا رکروں مجھے تمہاری ہر بات منظور ہے ۔ بولو کیا کرنا ہے ؟…!
نہ جانے ماں نے اُس سے کونسی بات کہی کہ رجنی وہ بات ماننے پر تیار نہ ہوئی۔ ذہنی تنائو اور انتشار کا شکار تو پہلے سے ہی تھی اب یہ اور زیادہ بڑھ گیا۔ نہ چاہتے ہوئےبھی اب اس کے کندھوں پر ایک اور نئی ذمہ داری آپڑی جو اس کے لئے بڑا بوجھ اور ناقابل برداشت تھا ۔ مگر ماں کو جو زبان دے چکی تھی اُ سے کیسے ٹالتی، جس نے اس کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا تھا اوراپنا ہر سکھ و چین دائو پر لگایا تھا۔
جب رجنی کو حالات سے سمجھوتے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو ایک روز وہ سیٹھ و کرم کی حویلی کے در پر آکھڑی ہوئی تو راہ داری میں اسے اوم پرکاش نامی نوکر سے آمنا سامنا ہوا ، جو کسی کام کے سلسلے میں بازار جا رہا تھا۔ اپنے سامنے کسی لڑکی بھولی بھالی معصوم کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک سا گیا۔ لگا کہ جیسے اس کی شکل و صورت کسی جان پہچان والی عورت سے ملتی جلتی ہے ۔ وہی خدو خال، وہی ستونی ناک نقشہ،وہی بیضوی چہرہ اور آنکھیںجھیل سی البتہ دونوںکے قد میںاتنا فرق ہے کہ وہ اتنی لمبی سرو قد کی نہ تھی ۔ رجنی بنا سوچے آگے بڑھی ۔ تھوڑی سی جھکی اور پھر ہاتھ جوڑتے ہوئے گڑ گڑاتی ہوئی بولی۔
’’ بابوجی ! مجھے اپنی حویلی میں جھاڑو پونچھنے اور کپڑے دھونے پر رکھیں گے ۔اس جہاں میں میرا کوئی نہیں ۔ بھگوان تمہارا بھلا کرے۔‘‘
’’ کہیں تم شانتی بائی کی لڑکی تو نہیں ؟‘‘ … اچانک اوم پرکاش کی نظروں میں اُس جانی پہچانی عورت کا چہرہ گھوم گیا۔ فوراً بولا۔
’’ نہیں ۔ نہیں بابوجی ۔ میں کسی شانتی بائی کو نہیں جانتی بلکہ میں جگت نارائن کی بیٹی ہوں ۔ اِسی نے یہاں آنے کو کہا تھا۔ پچھلے دنوں اس کا … یہ کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
بہت دنوں کے بعد اس لڑکی نے جب اوم پرکاش کو جگت نارائین کی یاد دلائی تو اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر آئیں۔ ایک زمانے میں وہ اس کا لنگوٹیا یار اور حویلی کی چوکیداری کیا کرتا تھا۔ اس کا دل پسیج گیا او راس پر ترس کھا کر وہ بڑے ہمدردانہ لہجے میں بولا ۔
’’ ہاں ۔ ہاں ۔ وہ اکثر تمہارے بارے میں باتیں کیا کرتا تھا ۔ تم ادھر راہدری میں بیٹھ جا۔ تب تک میں سیٹھ جی سے بات کروں گا…‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ واپس مڑ کر کمرے میں داخل ہوا۔
ادھر رجنی کو اپنی جھوٹی و من گھڑت بات سنانے پر من ہی من میں خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ اوم پرکاش جلد ہی کیسے اس کی باتوں کے جال میں بُری طرح پھنس گیا۔ مگر حقیقت سے وہ بے خبر تھی ۔ اسے دیکھتے ہی اوم پرکاش کے حواس باختہ ہوئے تھے اور من میں چور گھسا تھا۔
رجنی کو کام کرتے اب لگ بھگ چھ سات مہینے ہوگئے تھے مگر اس دوران اس نے کسی کے سامنے کبھی یہاں آنے کی اصلیت بتادی او رنہ ہی کسی کو اپنے آپ پرشک ہونے دیا۔ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے نہ جانے کتنی بار اسے اپنے آپ کو مارنا پڑا۔ تب کہیں جاکر وہ اس حویلی میں اپنا قدم جماسکی۔
ایک دن نہ جانے رجنی نے سیٹھ وکرم اور اوم پرکاش کو ایسی کونسی دل دہلانے بات کہہ دی کہ ان پر جیسے بجلی ٹوٹ پڑی ۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ رجنی ایک معمولی لڑکی اس طرح بے باک ہو کر حویلی کی عزت کو نیلام کرنے والی بات کرے گی۔
کاش ! اس سے پہلے آسمان ٹوٹ پڑتا یا زمین دھنس جاتی ۔ ایسا نہ ہوتا تو کم سے کم کانوں ہی سے بہرے ہوتے تاکہ اس کی بات سن نہیںسکتے۔
سیٹھ و کر م کے بیڈ روم میں اوم پرکاش چائے کی ٹرے لے کر آیا اور میز پر چھوڑ کر واپس جانے کو مڑہی رہا تھا کہ اس کی نظر رجنی پر پڑی ، جو اس وقت سیٹھ وکرم کے پہلو میں نیم برہنہ ایک طرف نڈھال سی اپنے بدن کو سمٹے ہوئے سینے پر بکھرے بالوں سے کھیل رہی تھی۔ وہ لپک کر اس کے قریب جا کھڑی ہوئی اور پھر اس نے ان دونوں کی ایسی درگت بنادی کہ وہ ایک دوسرے کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
رجنی کی شرمناک باتیں سن کر اوم پرکاش بھو نچکارہ گیا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ بت سا بنا اُسے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتا رہا۔ وہ تو جیسے اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھا تھا۔
سیٹھ وکرم کی حالت بھی کیچڑ میں لت پت اس جانور کی سی ہو کر رہ گئی تھی جو کسی انجانے خوف سے جہاں بیٹھا تھا وہیں دھنس کر رہ گیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس کو لقوہ مار گیا ہو جب کہ ہنستی مسکراتی حویلی سوگوار اور بھائیں بھائیں کرتی نظر آر ہی تھی۔
اس طرح دیر تک سیٹھ وکرم کو کمرے میں بیتے ہوئے لمحوں کی جیسے باز گشت سنائی پڑرہی تھی ۔ رجنی کا ایک ایک لفظ تیر بن کر اس کے دل کو چھید رہا تھا او رکانوں میں قطرہ قطرہ زہر گھول رہا تھا ۔ ہر بات غیر یقینی لگ رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ اتنی چونکا دینے والی بات سن کر وہ کس طرح زندہ رہا۔
حقیقت کو لاکھ چھپائو تو نہیں چھپتی ۔ آخر وہ کب تک اور کیسے اس سانحہ سے انکار کرسکتا جس کا وہ خود ایک چشم دید گواہ تھا۔
اپنے حواس مجتمع کر کے سیٹھ وکرم ماتھے پر سے پسینہ پونچھتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا ، جہاں ایک کٹی پتنگ دھاگے سے الگ ہو کر ٹہنی میں الجھتی ہوئی ہو ا میں جھول رہی تھی۔
خاموش بت بنی رجنی کی خشمناک نگاہیں کبھی سیٹھ وکرم اور کبھی اوم پرکاش کے چہرے کا تعاقب کرتی رہیں، جن پر ایک رنگ آتا اور ایک رنگ جاتا تھا۔
جانے رجنی کی ان آنکھوں کی گہرائیوں میں کونسا درد چھپا تھا جو اب اس کی آنکھوں سے اتر کر دل میں کنڈلی مار ے بیٹھا اسے پریشان کئے ہوا تھا۔جس کا اِظہار نہ اس نے کسی کے سامنے کیا او رنہ ہی اپنے آپ پر شک ہونے دیا۔ کبھی گھٹ گھٹ کر شمع کی لوکی مانند جلتی رہی کبھی بے آب ماہی کی طرح ٹرپتی رہی۔ جانے کس مٹی سے بنی تھی نہ جینے کی تمنا اورنہ مرنے کی فکر تھی۔ اس کو بس یہی ایک فکر ستاتی رہتی کہ کب اس کی جان بحق ماں کی بھٹکتی روح کو شانتی ملے اور وہ بھی چین کی سانس لے سکے۔
ایک عرصہ سے وہ ماں کی اس بات کو سینے سے لگائی رکھی۔ جس نے ماں بیٹی کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی تھی۔
بات یہ تھی کہ ایک دن رجنی کی ماں کے ساتھ ایسا دِلخراش حادثہ پیش آیا، جس کی بھر پائی کے لئے اس کے پاس سوائے مرنے کے اور کوئی چارہ بھی نہ تھا۔چوں کہ وہ باعزت اور خود دار عورت تھی ۔ اور حالات سے ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی ۔ وہ ایک مدت تک یہ غم جھوجھتی رہی ۔ جب تک نہ رجنی بلوغت کے سرحد کو چھوگئی ۔ لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پونچھا کر کے اپنا گزارہ کرتی رہی مگربیٹی کے آنچل پر کبھی آنچ نہ آنے دِی۔ پھر جب اس دنیا سے روٹھ کر چلی گئی تومرنے سے قبل رجنی کے کانوں میں ایسا گرم سیسہ انڈیل دیا کہ اسے اپنے آپ سے اپنی ذات سے نفرت ہوگئی۔
پھر یہ کیسی عجب خواہش کہ وہ ان کے سامنے کھڑی ہو کر ان کے مرضی کے خلاف ماضی کی بھولی بسری داستان دہرانے لگی۔ جس نے اس کی سانسوں کی خوشبو چھین لی تھی اور دل کی دھڑکنوں کو بے آواز کردیا تھا۔
آج اس کا وہ خواب پورا ہو گیا تھا جو اس کی ماں نے دیکھا تھا ۔ ان کی حالت دیکھ کر پہلے تو رجنی زور سے ہنس پڑی پھر ایک لمبی سانس لے کر دکھ بھرے لہجے میں بولی ۔
’’ یہی کوئی انیس بیس برس پہلے اس حویلی میں شانتی بائی ایک نوکرانی ہوا کرتی تھی اور ساتھ ہی اوم پرکاش بھی بطور ملازم تب سے نوکری کرتا رہا ہے ۔ ایک دن موقعہ پا کر اس نے شانتی بائی کو بہلا پھسلا کر سرونٹ کوارٹر میں اسکے ساتھ اپنا منہ کالا کیا تھا اور جب یہی شکایت لے کر وہ سیٹھ جی کے پاس گئی تو سیٹھ اس وقت شراب میں اتنے دھت تھے کہ اس کے کان پر جوں نہ رینگنی۔ الٹے میں اسکو بہتی گنگا سمجھ کر خود بھی اس میں ڈبکی لگائی اور رجنی دیر تک اسے پتھرائی ہوئی نظروں سے دیکھتی رہی جیسے بے جان مورتی ہو۔
جو کچھ نہ ہونا چاہیئے تھا وہی کچھ ہو گیا ۔ چوں کہ یہ سب شانتی کی مرضی کے خلاف ہوا تھا، جس کی اس نے کبھی اُمید بھی نہیں کی تھی ۔ وہ اپنے اس راز کو دل میں چھپائے مرتے دم تک اندر ہی اندر گیلی لکڑی کی طرح جلتی رہی۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہی ۔ آخر اس حویلی سے بھاگ کر ایک آشرم میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی او روہیں رہ کر اس نے ایک بچی کو جنم بھی دیا ۔
اب یہ بتائو۔برسوں پہلے تم دونوں میں سے جس کسی نے بیج بویا تھا ۔آج جب باری باری پرتم لوگوں نے اسی پودے کا میوہ چکھ لینے کا ارادہ کر لیا ہے تو اس سے پہلے مجھے یہ بتائو کہ کیسے رہے گا ۔ یہ جان کر کہ تم کون ہو اور کیالگتے ہو…؟ تم میرے کون ہو اور کیا لگتے ہو؟شاید تمہارے جواب سے شانتی بائی کی بھٹکتی روح کو شانتی ملے ۔!!!
��
ٹینگہ پورہ نواب بازار سری نگر
موبائل نمبر؛6005368893