ایک معاصر انگریزی رسالے کے سروے نے کانگریس پر مہربانی کرتے ہوئے ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میںاس کی جھولی میں۴۷؍ سیٹیں ڈال دی ہیں۔یہ ۲۰۱۴ء سے ۳؍ زیادہ ہیں۔اسی طرح این ڈی اے کو جس کی مکھیا پارٹی بی جے پی ہے،۳۴۹؍نشستیں تفویض کر کے گویا الیکشن کے نتائج کو ابھی ہی سے مہربند کر دیا ہے۔اس این ڈی اے میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہیں جن کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات کے وقت یا اس کے بعد ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ پارٹیاں فی الحال بی جے پی کی اتحادی نہیں ہیں لیکن بی جے پی انہیں اپنا سمجھ کرچل رہی ہے ۔سارا کھیل قیاس آرائیوں پر چل رہا ہے جس کی ایک مثال تمل ناڈو کی ’آل اِنڈیا انا ڈی ایم کے ‘پارٹی ہے جو فی الوقت تین دھڑوں میں منقسم ہے۔’ڈی ایم کے‘ کی مخالفت میں تینوں نے بی جے پی کے صدارتی امیدواررام ناتھ کووِند کو ووٹ دینا مناسب جانا۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تینوں بی جے پی کے ساتھ ہیں کیونکہ صدارتی انتخاب ایک ایسا انتخاب ہوتا ہے جس میں پارٹی لائن سے ہٹ کر اور بعض اوقات اصولوں سے سمجھوتہ کرکے بھی ووٹ ڈالا جاتا ہے۔اس کی مثال شیوسینا سے دی جا سکتی ہے جس نے کووِند سے پہلے کانگریس کے دونوں امیدواروں بالترتیب پرتبھا پاٹل اور پرنب مکھرجی کو ووٹ دیا تھا اور اس کی اتحادی بی جے پی منہ تکتی رہ گئی تھی ۔
حیرت کا مقام یہ ہے کہ پارٹیاں توڑنے والی پارٹی تمل ناڈو میں اچانک پارٹی جوڑنے کا کام کیوں کرنے لگی ہے؟خبر ہے کہ ’آل انڈیا انا ڈی ایم کے‘ کے بکھراؤ کو ختم کرنے کے لئے بی جے پی کوشاںہے ۔حالانکہ بی جے پی کا یہ شیوہ رہا ہے کہ یہ پارٹیاں توڑتی رہی ہے۔ماضی قریب میں اس کی مثال اروناچل پردیش، اترا کھنڈ ،منی پور ، گوا،گجرات، اترپردیش،دہلی وغیرہ سے دی جا سکتی ہے۔فہرست طویل ہے جس میں بہار حالیہ اضافہ ہے ، جہاں پراس نے ’مہا گٹھ بندھن‘ ہی کو توڑ ڈالا۔خیر تمل ناڈو میں یہ ایسا کیوں نہیں کر رہی ہے؟ یہ جاننا بہت ہی دلچسپ ہے۔۲۳۴؍ نشستوں والی اسمبلی میں بی جے پی کا ایک بھی ممبر نہیں ہے۔حال ہی میں شسی کلا کے بھتیجے دینا کرن کی مدورائی کی ایک ریلی میں جم غفیر کا اُمنڈآنااور ڈائس پر تقریباً ۲۰؍ ایم ایل ایز کی موجودگی، بی جے پی کی نیند حرام کئے ہوئی ہے۔اگر دینا کرن کے یہ ایم ایل ایز موجودہ حکومت سے اپنا تعاون واپس لے لیتے ہیں یا اسمبلی سے استعفیٰ دے دیتے ہیں تو حکومت اقلیت میں آجا ئے گی اور ممکن ہے کہ ’ڈی ایم کے‘ کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت سازی کا دعویٰ پیش کر دے کیونکہ انڈین مسلم لیگ کے ۱؍ اور کانگریس کے ۹؍ ایم ایل کے ساتھ’ ڈی ایم کے ‘کے اراکین کی تعداد۱۰۰؍ کے آس پاس ہو جائے گی اوراس کے پاس اسٹالن کی شکل میں لیڈر شپ بھی ہے۔ڈی ایم کے خیر سے بی جے پی اور این ڈی اے کی مخالف رہی ہے اور کانگریس کے یو پی اے حکومت میں ایک اتحادی پارٹی کی حیثیت سے۱۰؍برسوں تک شامل رہی ہے۔ایک سال پہلے جب اسمبلی کا الیکشن ہوا تھا اُس وقت کرونا ندھی کی پارٹی نے کانگریس کو اچھی خاصی نشستیں اتحاد کے تحت دی تھیں ،یہ اور بات ہے کہ کانگریس نے ویسا مظاہرہ نہیں کیا جس کی اس سے توقع تھی۔باوجود اس کے دونوں کا اتحاد ابھی بھی برقرار ہے اور آگے بھی برقرار رہنے کی امید ہے۔تمل ناڈو کے کچھ علاقوں میں آج بھی کانگریس کے کیڈر موجود ہیں اور پارٹی اپنی ایک حیثیت رکھتی ہے۔یہی بات بی جے پی کو گوارا نہیں ہے۔بی جے پی سوچتی ہے کہ وہ وہاں کیوں نہیں ہے؟
بہر کیف دینا کرن تمل ناڈو کی سیاست میں غیر متوقع گل کھلا سکتے ہیں اور ممکن ہے کہ وہ اپنے اور اپنی چچی شسی کلا کے لئے کسی بھی حد تک چلے جائیں ۔اگرچہ وہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو رشوت دینے کے الزام کا سامنا کر رہے ہیں اور فی الحال ضمانت پر رہا ہوئے ہیں اور شسی کلا جیل کاٹ رہی ہیں لیکن امکان یہی ہے کہ پارٹی اِن دونوں کے پاس ہی رہے گی۔اوپنیرسیلوم (او پی ایس )اورای پلانی سوامی (اِی پی ایس) تو نامزد لوگ ہیں ،ان کا تمل ناڈو کے لوگوں پر کوئی پکڑ نہیں ہے۔ جے للتا کی بات کچھ اور تھی ۔وہ تمل ناڈو کی سیاسی روایت کو مسمار کرتے ہوئے لگاتار دوسری بار منتخب ہو کر آئی تھیں۔آج کی تاریخ میں اگر الیکشن ہو جائے توا ٓل انڈیا انا ڈی ایم کے بری طرح شکست سے دوچار ہو سکتی ہے جو بی جے پی قطعی نہیں چاہتی کیونکہ بی جے پی اسے اپنا فطری اتحادی سمجھتی ہے،مگر مسئلہ یہ ہے کہ کون سا دھڑا اس کے ساتھ ہے؟اسی لئے یہ چاہتی ہے کہ پارٹی ٹوٹے نہیں۔لیکن جو رویہ اس نے دینا کرن کے ساتھ روا رکھا ہے اور با دی النظر میں شسی کلا بھی بی جے پی کو اپنا دشمن ہی سمجھتی ہیں ،اس تناظر میں پارٹی کا ایک رہنا مشکل نظر آتا ہے ،لیکن خود وزیر اعظم اس میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں اور ای پی ایس اور او پی ایس دونوں سے گزشتہ۲؍ ماہ میں ۵؍بار مل چکے ہیں۔کیا وزیر اعظم کے پاس دوسرا کام نہیں ہے کہ اتنا وقت ان دونوں لیڈروں کو دے رہے ہیں؟
بی جے پی تمل ناڈو کے مشہور و معروف شخصیت اور سپر اسٹار رجنی کانت پر ڈورے بھی ڈال رہی ہے کہ وہ بی جے پی جوائن کر لیں لیکن ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ایک دوسرے سپر اسٹار کمل ہاسن کو بھی اس نے ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن اس معاملے میں بھی کامیابی نہیںملی۔بی جے پی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ تمل ناڈو یوپی نہیں ہے اور نہ ہی شمالی ہند کا کوئی صوبہ۔اس کے جملہ بازیوں کاکتنا بھی تمل زبان میں ترجمہ ہو جائے، تمل ناڈو کے لوگ اس کے جھانسے میں نہیں آ نے والے ہیں۔بھاجپاکا دھارمک کارڈ یہاں کیا جنوبی ہند کے کسی بھی صوبے میں چلنے والا نہیں ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تمل ناڈو یا جنوبی ہند کے لوگ مذہبی نہیں ہیں۔دیکھا یہ گیا ہے کہ یہ لوگ مذہب پر حد درجہ قائم ہیں لیکن ’یوگی والے مذہب‘ پر نہیں جب یوگی ایک ذمہ دارعہدے پر رہتے ہوئے یہ بیان دیتے ہیں کہ ’جب نماز سڑکوں پر پڑھی جا سکتی ہے توجنم اشٹمی پولیس اسٹیشن کے اندر کیوں نہیں منایا جا سکتا ؟‘۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آرایس ایس کی ذہنیت کے لوگ ہندوستان کو کیسا بنا نا چاہتے ہیں؟سیکولرزم کا حلف لے کر غیر سیکولر کام کرنا کوئی اِن آر ایس ایس نواز لوگوں سے سیکھے۔ا ٓ ئینی عہدے پر رہنے کے باوجود اکثر یہی تاثر ملتا ہے کہ یوگی لکھنؤ سے نہیں بلکہ ناگپور(آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر) سے حکومت چلا رہے ہیں۔
سیکولرزم سے آر ایس ایس اور بی جے پی کو چڑ چڑاہٹ سی ہوتی ہے ۔ہندوستانیوں کی رگوں سے اس کا اثرکس طرح زائل کرنا ہے ،اس محاذ پر یہ ادارہ بڑی شدت سے کام کر رہا ہے۔اسے پتہ ہے کہ رائے عامہ ہموار کرنے کے اس وقت سب سے بڑا ذریعہ الیکٹرانک میڈیا یعنی ٹی وی کی خبریں اور سوشل میڈیا ہے۔ا سے یہ بھی پتہ ہے کہ میڈیا عوام کے ذہنوںکو متاثر کرتا ہے۔اس لئے اس نے میڈیا کو ہی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے اور گزشتہ ۴؍ برسوں سے اس پر حد سے زیادہ محنت کر رہی ہے۔اس سے پہلے پرمود مہاجن نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا اور میڈیا کا سہارا لے کر انہوں نے کچھ نیا اور انوکھا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انجام بر عکس نکلا تھا۔ چند دنوں سے میڈیا نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ ۲۰۱۹ء کا الیکشن بدعنوانی بمقابلہ غیر بدعنوانی لڑا جائے گا اور سیکو لرزم بمقابلہ غیر سیکولرزم یاکمیونلزم کا موضوع قطعی زیر بحث نہیں رہے گا۔اس کا سیدھا مطلب ہے کہ سیکولرزم کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے اور میڈیا کو اس کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔اسیکولرازم پر یقین رکھنے والے تو یہی دعا کر رہے ہیں کہ بہار میں شرد یادو بھی کوئی گل کھلاسکیں اور نتیش کمار کی سیکولرزم سے بے اعتنائی والی حکومت کو پٹخنی دے دیں ،تب جا کر بات بنے۔ شرد یادو کی جمعرات والی میٹنگ سے ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا کیونکہ نتیش کمار نے جیسا سوچا تھا ویسا ہو نہیں رہا ہے ،اس لئے نتیش کمار کی بھی نیند حرام ہو گئی ہے۔یہی سبب ہے کہ شرد یادو سے انہوں نے اپیل کی ہے کہ وہ لالو کی ۲۷؍ اگست والی ’دیش بچاؤ بی جے پی بھگاؤ‘ ریلی میں شریک نہ ہوں۔اس سے نتیش کمار کی مایوسی اور ان کے فرسٹریشن کا پتہ چلتا ہے۔بہار اور تمل ناڈو میں نئی حکومت کی تشکیل یا وسط مدتی انتخابات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔نئے انتخابات ہونے کی صورت میں بی جے پی کو شکست سے کوئی نہیں روک سکتا اور اسی طرح سیکولرزم کی جیت بھی ہندوستان کی مقدر رہے گی خواہ میڈیا ایڑی چوٹی کا زور ہی کیوں نہ لگا دے یا بحث کا رخ کہیں کا کہیں موڑ دے۔ہندوستان کی مٹی میں سیکولرزم پیوست ہے ،اس لئے یہاں عوام تھوڑی دیر کے لئے کسی کے بہکاوے میں آجائیں لیکن اتنا طے ہے کہ یہ سیکولرازم کو ہمیشہ کے لئے خیر باد نہیں کہیں گے ۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883