جموں//آج قومی تمباکو نوشی مخالف دن ہے ،ہر برس کی طرح امسال بھی مختلف تنظیموں کی طرف سے کئی پروگرام منعقد کئے جا رہے ہیں، بلکہ پروگراموں کے نام پر لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں ۔ جموں میں آرٹ آف لونگAOL نامی تنظیم نے انڈین ڈینٹل ایسو سی ایشن IDAکے اشتراک سے ہفتہ بھر کی بیداری مہم شروع کر رکھی ہے تو صوبہ بھر کے تعلیمی اداروں میں مباحثے، پینٹنگ اور سلوگن مقابلوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ سرکاری سطح پر اشتہار ، بیانات اور اپیلیں کی جا رہی ہیں ، لیکن جموں کشمیر جیسی ریاست میں اس سے بہت زیادہ کچھ کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ ان ایجنسیوں اور محکموں کو متحرک کر کے فرائض منصبی سے کوتاہی کرنے والے ملازمین کی ذمہ داری طے کیا جانا لازم ہے جو تمباکو کے استعمال پر قدغن لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس بات سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے کہ سات سال کئے گئے سروے کے مطابق ریاست کے 26.6فیصد افراد کسی نہ کسی طور پر تمباکو کا استعمال کرتے ہیں اور اس مَد میں ماہانہ 514کروڑ روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ قومی سطح پر جہاں سالانہ سیگریٹ کی خرید پر 399.20روپے فی کس اور بیڑی پر 93.40روپے فی کس خرچ کیا جاتا ہے وہیں جموں کشمیر میں یہ خرچ بالترتیب 513.60روپے اور 134.20روپے ہے ۔ امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر سشیل شرما نے بتایا کہ تمباکو کا استعمال ہارٹ اٹیک اور کینسر کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے صرف جموں میں ایسی اموات کی شرح 53فیصد ہے۔ ریاست میں 14برس قبل تمباکو نوشی اور دیگرتمباکو مصنوعات کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے قومی سطح پر اپنا ئے گئے COPTAسیگریٹ اینڈ ادر ٹوبیکو پروڈکٹس ایکٹ متعارف کروایا تھا ، لیکن دیگر کئی قوانین کی طرح یہ ایکٹ بھی فائلوں تک ہی محدو د ہو کر رہ گیا اور اس سے سیگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی ہی ہوئی ہے کیوں کہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 14برس میں ریاست میں تمباکو اور بالخصوص تمباکو کھانے والے گٹکا، کھینی وغیرہ کے استعمال میں کئی گنا اضافہ درج کیا گیا ہے ۔ اس ایکٹ کے تحت جہاں تعلیمی اداروں سے 100گز کے فاصلہ پر کسی بھی قسم کی تمباکو بنی مصنوعات فروخت نہیں کی جا سکتی ہیں وہیں عملی طور پر اس پر عملدرآمد دکھتا ہوا نظر نہیں آتا ہے ۔ چھوٹے موٹے تعلیمی اداروں کا تو کہنا ہی کیا جموں یونیورسٹی، مولانا آزاد میموریل آرٹس کالج ، سائنس کالج، کامرس کالج اور انجینئرنگ کالج کے قرب و جوار میں لگی ہوئی ریڑھیاں اور دکانیں دھڑلے سے سیکریٹ اور دیگر مصنوعات فروخت کر رہی ہیں۔ گلے کے کینسر میں ہوئے اضافہ کے مدِ نظر ریاستی سرکار نے جموں کشمیر میں گٹکا اور کھینی بیچنے پر بھی پابندی لگائی تھی لیکن پالیتھین کی طرح یہ پابندی نہ صرف دکانداروں کے لئے کالا بازاری کی راہ ہموار کر گئی بلکہ اس پر عملدرآدمد کروانے کے لئے ذمہ دار حکام کی بالائی آمدن کا ایک ذریعہ بن کر رہ گئی ہے ۔ پورے جموں خطہ میں سیگریٹ کی ہر دکان اور ریڑھی و کھوکھے پر تمباکو کے پوچ لٹکتے ہوئے نظر آجاتے ہیں۔ اس ایکٹ کے تحت 18برس سے کم عمر کے بچوں کو اشیائے تمباکو کی فروخت ، کسی بھی قسم کی سپانسر شپ اور ہر پیکٹ کے چالیس فیصد حصہ پر قانونی تبنیہہ کا شائع کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ایکٹ کی دفعہ 12کے تحت لگائی گئی 18برس سے کم عمر کی شرط پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ 28مئی 2016کو ریاستی محکمہ صحت نے کھلے سیگریٹ و بیڑی وغیرہ کی فروخت پر COPTAکی دفعہ 7کے تحت پابندی عائد کر دی تھی لیکن یہ بھی محض کاغذی کارروائی ہی ثابت ہوئی ۔