طارق اعظم کشمیری
ربِ کریم کی کائنات میں اگر سب سے قیمتی یااہم چیز دیکھی جائے، تو وہ صحت ہے۔ صحت ایک ایسی نعمتِ عظمیٰ ہے۔ جس کا بدل کسی بھی حسین سے حسین بازار میں نہیں مل سکتا ہے۔ بلکہ اسی کی بدولت کائنات میں چہل پہل روان دوان ہے۔ بڑے سے بڑے کارنامے صحت کے دَم سے ہی وجود میں آئے ہیں۔ ترقی اگر چہ آج اپنی قسمت پر نازان ہے،مگر اس کے پیچھے بھی اچھی اور تندرست صحت کا راز کارفرما ہے۔ صحت کو اگر دنیا کی رونق اور زیبائش کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ کیوں کہ ہر ہر فعل کو اس کے انجام تک لانے کے لیے اچھی صحت درکار ہے۔ غرض کہ توازنِ سے ہی ہے وجودِ کائنات کا دم قائم ہےاورزندگی کے ہر موڑ پر چاہے خوشی ہو یا غم ایک سالم صحت کی اشد ضرورت پڑجاتی ہے۔ زندگی کو نشیب و فراز کے مدار میں قائم رکھنے کیلئے صحت بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ زندگی کا لطف اور اس کے حسین مناظرسے سرشار ایک صحت یاب انسان ہی ہوسکتا ہے اور بے مہک سی انہیں معلوم جو اس نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ہماری کشمیری زبان کا ایک مشہور قول ہے کہ (زُو اور تہ جہان اور)جس کی تشریح میں یہی حاصل ہوتا ہے کہ صحت کے بنا ہر خوبورت چیز اور ہر ذائقہ سے لبریز ضیافت عجیب اور بے لذت لگتی ہے۔اگر ایک انسان کے پاس زندگی کی ہر راحت بخشنے والی چیز میسر ہوگی، لیکن ایک اچھی صحت سے محروم ہوتو وہ سکون اور چین سے خواب تک نہیں دیکھ سکتا۔ اب سوال ہے کہ اس صحت کو بگاڑ نے والا کون ہے؟ جواباً یہی سُننے کو آئے گا کہ انسان کی لاپرواہی اور نا پرہیزی۔ انسان طرح طرح کے غلط چیزوں کا استعمال کرتا رہتا ہے۔ جس میں ایک جرم کے بام پر پہنچا ہے، وہ تمباکو نوشی ہے۔ یہ ایک ایسا گناہ اور جرم ہے جس کے کرنے میں کوئی انسان عار محسوس نہیں کرتا۔ قرنِ قدیم میں اگر چہ دیواروں اور پردے کے آنچلوں میں یہ بُرا کام بپا ہورہا تھا۔ لیکن آج جس زمانے کی جبین پر ترقی کا داغ مضمر ہوگیا ہے، اس بُرے کام کی بھی خوب ترقی خوب ہوئی ہے۔ سماج کی ہر کھڑکی سے تمباکو کا زہریلا دُھواں نکل رہا ہے۔ دفتروں، دکانوں ،سڑکوں، بازاروں میںیہ دُھواں پھیلا ہوا ہے اور المیہ یہ کہ جہاں اس تمباکو نوشی پر نقصانات کی ریسیرچ ہورہی ہے۔ وہاں بھی یہ بُرا کام بہت آگے نکل چکا ہے۔ میرا مطلب ہے ہسپتال اور سکول بھی اس فعلِ بد سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ حالنکہ احکم الحاکمین نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔لیکن اس معاشرے کا مزاج اس حد تک پہنچا ہے کہ اس حرام کو انجام لانے میں گناہ محسوس نہیں کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے ہر طبقےاورہر عمر کےافراد اس آفت میں گرفتار ہوچکے ہیں اور اس کا نتیجہ ہسپتالوں میں عیاں ہے۔ ہزاروں انسان کینسر ،امراض قلب، پھیپھڑوں کے تکلیف اور قسم قسم کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ یہ زہر ہم خود ہی اپنے پیسوں سے اور اپنے ہاتھوں سے پی رہے ہیں اور پھر گلہ شکوہ مقدر اور قسمت سےکیا جارہا ہے۔ اس تمباکو نوشی کو ہمارے ڈاکٹر صاحبان ایک جملہ میں قلم بند کررہے ہیں’’ smoking is a sweat pioson ‘‘جو آج ذوق و شوق سے اکثر مرد و زن پی رہے ہیں۔ ہمارے پیغمبرصاحبؐ نے ارشاد فرمایا کہ صحت کو غنیمت سمجھو بیماری سے پہلے۔ کیوں کہ جب بیماری گھیر لیتی ہے تو زندگی ضعیف اور بے بس ہوجاتی ہے،انسان معذور بن جاتا ہے، پھر نا مقصدِ حیات اور نا ضرورتِ حیات حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی بندگی کا ڈھنگ رہ جاتا ہے۔اسی لئے اگر زندگی کو بنانا اور جینا ہے تو اپنی صحت کا پورا پورا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ خدا کی طرف سے عطا کردہ عظیم نعمت ہے۔جس کی قدر کرنا بالکل لازم ہےکیونکہ اس کی قدر اور شُکر پر اللہ تعالیٰ اس دی ہوئی نعمت میں اضافہ کرتا ہے اور نا قدری اور نا شکری پر چھین لیتا ہے۔ ہم سب ذمہ دارہیں، اپنے گھر اور اپنے معاشرے کے۔ المیہ یہ ہے کہ باپ اپنے اولاد کے سامنے اور اُستاد اپنے شاگرد کے سامنے تمباکو نوشی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سگریٹ پینے والے کو اُتنا نقصان نہیں ہوجاتا ہے، جتنا کہ سگریٹ پینے والے کے سامنے اور ارد گرد بیٹھنے والوں کا ہوجاتا ہے۔یہ زہریلاطوفان آج ہر گھر کو اپنی آغوش میں لے بیٹھا ہے۔
[email protected]