دھوپ کھلی ہوئی تھی اور لمحہ بہ لمحہ اس کی تمارت بھی بڑھ رہی تھی۔ لوگ پسینے میں تر بتراس وسیع چٹیل میدان میںجمع ہو رہے تھے جس چاروں طرف دُور دُور تک پہرے بٹھادئیے گئے تھے۔محافظ چاک وچوبند دائیں بائیںنظریں دوڑائے آنے دالوں کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ کوئی شخض مشتبہ حالت میںنظر آتاتو اس کی طرف دوڑ کر اس کی جامہ تلاشی لیتے اور پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد ہی اس کو آگے بڑھنے کی اجازت دیتے، پھر وہ جاکر سامعین کی صف میں بیٹھ جاتا۔محافظ بڑی جاں فشانی سے ڈیوٹی کر رہے تھے اور بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی، نواز خانؔ، جو سامعین کی صف میںموجود تھا‘اپنے ساتھی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔’’نہ جانے کیوں بادشاہ سلامت نے رعایا کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا ہے۔‘‘’’بھلا میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ بادشاہ سلامت کے دل میں کیا ہے۔‘‘اس کے ساتھی نے جواب میں کہا۔’’خیر اب انتظار کرنے کے سواکوئی دوسری صورت بھی تو نہیں ہے، چپ چاپ بیٹھے رہو‘‘ دو نوں ہرے بھرے میدان میں اطمینان سے بیٹھ گئے کہ اتنے میںاسٹیج پر موجودعمدہ عمدہ لباس میں ملبوس لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے اور تالیاں بجا نے لگے لوگ خاموش دیکھ رہے تھے کہ اتنے میں بادشاہ سلامت جلوہ افروز ہوئے۔’’بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو۔لوگ شاہی حکم سننے کے لئے بڑے اتاولے ہورہے ہیں۔لب کشائی کیجئے عالم پناہ۔۔۔‘‘وزیر خاص نے التجا کرتے ہوئے کہا۔بادشاہ سلامت آگے بڑھے تولوگ ہوا میں ہاتھ ہلاتے ہوئے یک زبان ہوکر بولے۔‘‘بادشاہ سلامت ۔۔۔۔خوش آمدید ۔۔‘‘بادشاہ سلامت نے اشاروں سے خاموش ہونے کے لئے کہا۔پھر بولے’’میں جانتا ہوں کہ میری رعایا بہت وفادار ہے اسی لئے میں تمہاری ایک ایک مانگ پوری کر تاہوں لیکن مآب دولت کی سلطنت کے خلاف چند ایک لوگوں نے سازش رچی تھی جو بے نقاب ہوئی ہے۔ اس جنت نما وادی پر کچھ لوگوں کی نظریں عرصے دراز سے ٹکی ہوئی تھیںجو اس پر اپنا الگ قلعہ تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے خیر خواہوںنے ہماری آستین کے سانپوںکی بروقت نشان دہی کرکے اپنی وفا شعاری کا ثبوت دیا ہے اور اس جنت نما وادی پر بری نظر رکھنے والوں کے خواب چکنا چور کردئیے۔اس سے پہلے کہ میں شاہی اعلان کر دوں،ایسا تماشہ دکھایا جائے جو لوگ ہمیشہ یاد رکھیںاور مآب دولت کی جے جے کار کرتے رہیں۔‘‘’’جی عالم پناہ۔تماشا شروع کیا جائے۔‘‘کچھ محافظ کپڑے میں لپٹے سروںکوالگ الگ ٹوکریوں میں لادے ایک بڑے میزپررکھ دیتے ہیںاور ان سروں سے خون کے قطرے نیچے فرش پر ٹپک کر پھیل جاتے ہیں اور فرش آن کی آن میںخون سے رنگ جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر لو گ سہم جاتے ہیںلیکن نواز خان کے ماتھے پر کوئی شکن تک نہیں آئی۔ وہ سب کچھ جان کر بھی انجان بن رہا تھا۔اسی بیچ وزیر خاص آگے بڑھ کرسروں سے کپڑا ہٹاتے ہوئے اونچے لہجے میں بولے۔’’’’یہ ہیں ۔۔وہ سر جو عالم پناہ کے خلاف بغاوت پر اتر آئے تھے اور یہ سر۔۔سر کو ہاتھ میں اُٹھائے ہوئے‘ایک خاص سر۔۔۔۔۔۔۔نمبر ۸ ۷۶۔بسم اللہ خان۔ پی ایچ ڈی‘نیٹ ‘سلیٹ کر کے پروفیسر ہوئے تھے۔‘‘وزیر خاص بسمل اللہ خان کے باغی بننے کی کوئی خاص وجہ۔۔؟عالم پناہ۔۔بسم اللہ خان کا دعویٰ ہے کہ وہ جنت نما وادی کے اصل وارث ہیں۔ تاریخ سے معلوم پڑتا ہے کہ بسم اللہ خان حسب نسب سے راجائوں کے خاندان سے ہیںاور یہ دراصل اس کے باپ اجداد کی ہی مملکت ہے۔‘‘’’دزیر خاص یہ کس مملکت کی تاریخ بیان کر رہے ہو۔ہمارا قبیلہ سات دہائیوں سے جنت نما وادی پر حکمرانی کر رہا ہے۔عالم پناہ۔ اس سے پہلے آپ کے قبیلے کاتاریخ کے پنوں میںکہیں نام ونشان نہیں ملتا۔‘‘ گستاخ ۔۔۔۔اپنی زبان کو لگام دو۔آپ کی باتوں سے بغاوت کی بو آ رہی ہے‘‘رحم عالم پناہ۔۔۔رحم۔۔یہ بسم اللہ خان کا دعویٰ ہے‘‘سہمے ڈرے لوگ یک زبان ہوکرزور زور سے چلائے۔۔’’عالم پناہ۔۔۔یہی حقیقت ہے۔۔۔یہی حقیقت ہے یہ بسم ا للہ خان کے ہی قبیلے کی مملکت ہے اور ہم ان ہی کی رعایا ہیں۔یہ تخت وتاج اصل وارثین کے حوالے کیا جائے۔بسم اللہ خان کے بھائی اور ان کے آخری وارث کومملکت جنت نما وادی کے تخت پر بٹھایا جائے۔یہی انصاف ہوگا۔‘‘ ’’خاموش ۔۔۔۔۔ بادشاہ سلامت کی گرجدار آوازفضا میں اس طرح گونجی کہ سنتے ہی لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیاہو۔وہ ہکا بکا ہوکر ایک دوسرے کو خاموش دیکھتے رہے۔’’وزیر خاص‘‘اور وہ تیز تیز قدم اُٹھائے بادشاہ سلامت کی طرف لپکے اور تھر تھراتے ہونٹوں سے بولے۔’’حکم کیجیے عالم پناہ‘‘۔ ’’بادشاہ سلامت نے سر گوشی کرتے ہوئے کہا۔’’وزیر خاص لوگوں کے اندر بہت غصہ ہے ایسا تماشا دکھائو کہ لو گ دوبارہ آواز بلند کرنے کی جرأت نہ کریں‘‘ عالم پناہ۔۔میں ان کی نس نس سے واقف ہوں۔ ایسا تماشا دکھائیں گے کہ لوگ برسوںدوبارہ آواز نہ اُٹھا سکیںگے۔’’تماشا شروع کیا جائے۔‘‘ وزیر خاص نے آواز دی ۔کچھ لوگ نیزے ہاتھوں میں لئے سروں کے ارد گرد گومنے لگے پھرسروں کو نیزوں کی نوک پراُٹھاتے ہوئے ان کی نمائش کرنے لگے۔ لوگ ایک ساعت کے لئے بھول گئے کہ یہ سر ان ہی کے سگے سمبندھیوں کے ہیں‘وہ مست تالیاں بجاتے رہے۔ پھر بادشاہ سلامت کی آواز گونجتے ہی سب چپ ہوگئے۔۔’’مآب دولت کی خوشی پرجا کی خوشی میں ہے۔ انعام لینے والوں کو عزت کے ساتھ اسٹیج پر بلایا جائے۔‘‘جو حکم عالم پناہ۔نواز خان اسٹیج پر تشریف لائیں۔‘‘نواز خان اُٹھ کر اسٹیج کیجانب بڑھاتواس کو پھولوں کی مالائیں پہنائی گئیں، مٹھائیاں بانٹی گئیںاور ایک ہی جست لگا کر نیزہ بردار سروں کو نیزوں پر اُٹھائے نواز خان کے دائیں بائیں آکر کھڑے ہوگئے کیمرہ مین ‘پریس رپورٹراسٹیج کے سامنے آکراپنے اپنے کیمرے تانے تصویریں کھینچنے کے لئے تیارہوئے کہ وزیر خاص نے آواز دیتے ہوئے کہا ۔’’یہ نواز خان ہے بسم اللہ خان کا بھائی ۔۔۔چیک پیش کیا جائے۔بادشاہ سلامت نے نواز خان کے ہاتھوں میں چیک تھما کراعلان کر دیا کہ ہم اپنے وفاداروں کو ایسے ہی نوازتے رہیں گے۔‘‘اور دربار برخواست ہوا۔۔ تو لوگ ہکابکا ہوکر چہ میگوئیاں کرنے لگے۔کیا ہم پھر ایک بار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟’’ہاں بھئی ۔۔تماشا جاری ہے۔‘‘ایک بوڑھے نے آواز دی۔
٭٭٭
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر:-9906484847