تماشائے اہل سیاست دیکھتے ہیں

Kashmir Uzma News Desk
13 Min Read
مجھ سے نہ میری صورت احوال پوچھئے
ترسیدہ، رنج دیدہ و سیاست رسیدہ ہوں
دکھتا نہیں ہے سبزہ مجھے میرے وطن کا
پاوا کے مرچی گیس کا پیلٹ گزیدہ ہوں
وشال بھارت دیش یااپنے ملک کشمیر کے میدان سیاست میں ہم ،آپ، یہ، وہ تماشائے اہل سیاست دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ جمہوری تماشے میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۔اس لئے اس میں جمورے کی اچھل کود ہوتی ہے، بندر کا ناچ ہوتا ہے، مداری کی ڈگڈگی ہوتی ہے، ردالی کی آنکھوں میں مگر مچھ کے آنسو ہوتے ہیں،مسخروں کے ٹھہاکے ہوتے ہیں، لیڈران اور کارکنوں کی بہتات ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر چمچوں کی تعداد ہوتی ہے ۔اور یہ چمچے ایسے پھوٹتے ہیں جیسے پہاڑی علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ گچھیاں پھوٹ آتی ہیں کہ دیکھتے دیکھتے تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی بلکہ چلو تو کئی ایک پائوں تلے روند جائیں۔کراہتے ہوئے آواز دیں کہ جناب ہمارا بھی خیال رکھو ہم تو آپ کے شیدائی ہیں۔آپ پر مر مٹنے کو تیار کیونکہ ہمارا اس کے علاوہ کوئی واجب مصرف بھی نہیں مطلب ہم کسی اور کام کے لائق نہیں۔یقین نہ آئے اوڈیشہ ممبر اسمبلی کے چمچوں کو دیکھو جو اپنے لیڈر کے سفید جوتوں کو کیچڑ میں گندہ ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور اسے اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر کیچڑ والی ندی پار کرالی۔ ان کا مقصد بظاہر تھا کہ کہیں داغ نہ لگ جائے کیونکہ لاگا چنری پہ داغ چھپائوں کیسے ۔انہیں اس سے کیا سروکار داغ تو اندر ہوتا ہے بھلا باہر کے داغ کیا نشان چھوڑیں گے۔خیر تجربہ یہی ہے کہ لیڈر پہنچا نہ پہنچا تو آس پاس گلی کوچہ، میدان بھر جاتا ہے یعنی سیاسی پارٹیاں جہاں کارکناں کی زبردست کوششوں سے زندہ اور قائم و دائم رہتی ہیں وہیں لیڈران کی عزت چمچوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔چمچے ان کی عزت  رکھوانے میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور انہیں وہ کچھ بناتے ہیں جو وہ بالکل نہیں ہوتے یعنی اگر وہ سفیدے کا درخت ہوتے ہیں انہیں آسمان کی اونچائی عطا کرتے ہیں۔یہ کارکنان اپنی بھی بے عزتی  بڑھاتے بڑھاتے اس کا فالودہ بناتے ہیں کیونکہ عزت برائے نام ہی ہوتی ہے۔جو چمچہ چار دن پہلے ایک پارٹی چھوڑ کر مخالفین سے جا ملتا ہے وہ فوراً سینئر لیڈر بن جاتا ہے ۔جونیئری کا کوئی امتحان پاس کئے بنا وہ اپنے آپ کو سینئر بنا اور جتا دیتا ہے اور اسی کوشش میں وہ پارٹی کے اصلی لیڈر کو بہت کچھ بنا دیتا ہے۔اپنی طرف سے پریس نوٹ جاری کرتا ہے لیڈر کو ینگ لیڈر اور خود کو سینئر لیڈر بنادیتاہے۔سیاسی چمچے کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ اپنے لیڈر کی ہاں میں ہاں ملا دے بلکہ نا کو نا ثابت کرنے کیلئے جھوٹی قسم کھانے پر بھی تل جائے۔کہاں قلم کنول والے سینک کالونی کی زمین میں بے چارے دھنسے جا رہے تھے اور سیاسی چمچ اس فائل سے انکار کئے تھے کہ اس کا کوئی نقشہ انتخاب موجود نہیں۔کہاں پیلٹ سے ،گولی سے لوگ مرے جا رہے تھے اور سیاسی چمچ فوٹو دکھا رہے تھے کہ یہ لوگ سنگ بازی میں مشغول تھے، جبھی تووہ سر اونچا کئے اور گولی پیلٹ کا شکار ہو گئے یعنی اپنا کمال دکھانے والا لیڈر پانی کے تالاب میں سطح کے اوپر کھڑے رہ کر اپنا معجزہ ثابت کرے اور سیاسی چمچہ پانی کے اندر اپنے لیڈر کے لئے سپورٹ کی طرح کھڑا رہے۔
یقین نہ آئے تو راہل گاندھی کو دیکھئے پچاس کے عشرے میں روان دوان تو ہے لیکن ہے جوان سال لیڈر۔کسی کی کیا مجال کہ انہیں اولڈ گارڈ( یعنی مارگ درشک ) جیسی فالتو  چیز میںمیں شمار کردے ۔ ایسا ہی حال جوان سال قائد عمر عبداللہ کا ہے کہ بتالیس کا ہندسہ پار کرنے کے باوجود نوجوان لیڈر ہی کہلاتا ہے۔اپنے میر واعظ صاحب تو نوے کے اواخر میں ینگ تو بے شک تھے لیکن چھبیس سال گزرنے کے بعد بھی ینگ ہی رہے۔محبوبہ جی تو اپنے چہیتوں کی باجی کہلاتی ہے کیا پتہ وزارتِ اعلیٰ کا قلمدان سنبھالتے ہی نوجوانی میں قدم رکھنے پر مجبو رکی گئی کیونکہ اقتدار کا چمتکاریPower  تو ہر ایک کی جوانی واپس لوٹاتا ہے ۔ کرسی ٹانک کا کام کرتی ہے اور جسم کے ریشے ریشے میں نئی جوانی بھر دیتی ہے۔ مودی مہاراج کی داڑھی بال سفید تو ہوچکے ہیں ،اس لئے کنول والے انہیں ینگ کہلانے سے کتراتے بھی ہیں اور شرماتے بھی لیکن بات بات پر ان کی انرجی کا ڈھنڈورا ایسا پیٹتے ہیں جس کا مطلب صاف ہوتا ہے یعنی ینگ کہلوا کر ہی ر ہ جاتے ہیں، مگر کوئی مانے نہ مانے اپنے قائد ثانی تو سارے جوان سال لیڈروں کو مات دینے کے ماہر ہیں۔وہ بات کریں تو ینگ، کپڑے پہنیں تو نوجوان اور ڈانس فلور پر پہنچیں تو تھرک تھرک  sweet sixteen  کے زمرے میں بالکل فٹ لگتے ہیں۔
سیاسی لیڈران کو ہی نہیں بلکہ تمام قسم کے لیڈران کو اظہار افسوس کرنا کیا خوب آتا ہے۔۔اظہار افسوس اصل میں سب لیڈران کا من بھاتا کھانا ہے جس سے وہ سیاسی و قائدانہ بھوک مٹاتے ہیں۔اظہار افسوس ٹریفک حادثات، فورسز فائرنگ، ژالہ باری سے نقصان، سیلابی صورت حال ، کسی علاقے میں پانی کی کمی حتیٰ کہ کسی جوڑے کے طلاق  پر بھی کیا جاتا ہے۔مقصد دکھ کا اظہار نہیں بلکہ اخبارات  اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنا نام آنے سے ہوتا ہے۔جب بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے وہ فوراً اظہار افسوس کی ٹوکری لے کر پریس انکلیو پہنچ جاتے ہیں۔ٹوکری میں سے اوراق نکال کر اخباری دفاتر  میں جمع کراتے ہیں۔ان اظہار افسوساں میں تمام سینئر لیڈران ہوتے ہیں۔کوئی جونیر نہیں ہوتا۔ویسے انٹرنٹ زمانے میں اظہار افسوس میل کرکے بھی بھیجا جا سکتا ہے لیکن ذاتی حاضری سے کئی ایک نمایندے سینئر لیڈر کی شکل دیکھتے ہیں اور مستقبل میں یہ پہچان کافی کام آتی ہے۔یہ سینئر لیڈران کسی کی موت کے وقت معقول معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ژالہ باری کے وقت کسان قرضے معاف کرنے کی بات کرتے ہیں۔سینئر لیڈران کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ ان کے اظہار افسوس سے کوئی مردہ واپس نہیں آتا ، نہ ہی ژالہ باری سے نقصان رک سکتا ہے لیکن اپنی ٹانگ اڑانے میں ان کا پیش پیش رہنا بڑا ضروری ہے۔ اظہار افسوس کے لئے ان کے پاس رٹے رٹائے پریس نوٹ موجود رہتے ہیں اور ان میں بس جگہ اور تاریخ کا اندراج کرنا پڑتا ہے، باقی تفاصیل پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔شاید ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ واقعہ کشمیر میں ہو اور لیڈر دلی، جاپان یا نیو یارک میں اظہار افسوس کا راکٹ داغا ہی جاتا ہے۔مطلب راکٹ ہر وقت موجود رہتا ہے فقط چلانے والے بدل جاتے ہیں اور ان اظہار افسوساں سے لیڈر صاحب کو دلی تسکین مل جاتی ہے     ؎ 
گو کہ میدان سیاست میں وافر ہیںلوگ
گارڈ ہو، پریس نوٹ ہو، اور فون ہونا چاہئے
کام کب نکلا تھا ہم سے ،آگے نکلے گا جو
ہاں یہ لازم ہے منہ پہ سیاسی ٹون ہونا چاہئے
اب کی بار مودی سرکار کے دست راست  شیو کی سینا کے لیڈر کی وہ بات بہت پسند آئی کہ گئو ماتا کے نام پر خون خرابہ کرنے والوں کو بقول اس کے آتنک وادیوں سے لڑنے کے لئے بھیجا جائے۔جبھی تو نہتا پہلو خان اور جنید وغیرہ بچ جاتے اور گئو رکھشکوں کو بھی مقابلے کا مزہ چکھنا پڑتا ۔وہ تو اپنی بہادری کا پورا تماشا دیکھتے اور گائے کے نام پر خون بہانے سے رہہ جاتے کہ گائے دودھ دیتی ہے خون کا کاروبار نہیں کرتی۔اتنا ہی نہیں ہم تو کہتے ہیں کہ ٹی وی اسکرین پر چیخنے والوں کو بھی سرحد پر فوج کا ہر اول دستہ بنا دو جبھی تو وہ دن رات جنگ کی باتیں نہ کریں گے۔ادھر تو  یاتری بس پر گولی باری کے دوران سلیم شیخ نامی ڈرائیور گاڑی دوڑاتا رہا  اور کوئی مزید نقصان ہونے سے بچایا لیکن ا دھر ایک پوری ٹرین جنید کو نہ بچا سکی بلکہ اُس کو بھی سرحد پر بھیجیں جو کہنے کو تو بھاجپا کا آئی ٹی انچارج ہے لیکن گجرات فسادات کے فیک ویڈیو  بنگال میں منظر عام پر لا کر انہیں وہاں کے فسادات گردانتا ہے تاکہ بنگال میں جلتی پر گھی ڈالا جائے۔مانا کہ اب اسے جیل کی ہوا کھلائی گئی لیکن اسکا سیاسی خلیج بنگال ننگا تو ہوہی گیا  ؎
اورجو تھی سوشل سروس وہ سیاست کھپ چکی
شہر شہر ،سڑک سڑک، کشت و خون ہونا چاہئے
یہ فیس بک بھی کیا چیز ہے جوخبر پہلے پہل دنوں ہفتے نہیں سنا کرتے تھے وہ اب چشم زدن میں ہمارے سامنے ایسے آتی ہے جیسے ہم وہیں موقعہ واردات پر موجود ہوں۔ہم تو خیر فیس بک دوستوں سے محو گفتگو تھے کہ داڑھی والے آدمی کی تصویر اُبھری ۔کہاں بھارت ورش میں بیف کھانے بلکہ ادھر ادھر لے جانے کی محض افواہ پر جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، ادھر عالم عالم کو جمہوری تماشہ سکھانے والے انگلستان میں زیادہ کپڑے پہننے پر ایک مسلمان کی ہتھکڑیاں پہن کر بارک بینی سے تلاشی کا ویڈیو ابھرا۔یعنی باریش کھائے کیا وہ قشقہ کھینچے، ہاتھ میں ترشول لئے بھکت جن طے کریں اور یہ کہ کتنا پہن لے اس کا فیصلہ گوروں کی پولیس طے کرے۔ سردی ہو یا گرمی پتلے کپڑے کی قمیض پتلون پہننے کی اجازت ہے ،موٹے یا تہہ دار کپڑوں میں تو بم بارود چھپا یا جا سکتا ہے کہ گوروں کے پاس  weapons of mass destruction کھوج نکالنے کا وسیع تجربہ ہے، بھلے اس دوران لاکھوں لوگوں کی بلی چڑھ گئے ۔مار کاٹ کر بارود سے جلا کر پھر اعلان کرد یں گے کہ انفارمیشن غلط تھی اور چونکہ ہم جمہوری اقدار کے شیدائی بھی ہیں اور محافظ بھی اس لئے ہم پر کوئی انگلی نہ اٹھا پائے گا۔چلو پھر بھی بچ پایا ہم تو تیار تھے کہ ابھی گورے پولیس والے جیب سے کنگھی نکال کر داڑھی میں پھیر لیں گے کیا پتا اس میں گولیاں چھپائی رکھی ہوںاور پھر ٹی چینلوں پر صحافت کا مچھلی بازار چار سو قائم ہے جو باریش کو مذہبی دہشت گرد منوا لے  ؎
شام کو گھر میں اضافی شور و غوغا کے لئے 
ارنب و بخشی کا، ٹی وی کا، زرا ممنون ہونا چاہئے
رات دن بور ہوتے ہیںتلاشی سے ہم
کریک ڈائون کے لئے اک ڈرون ہونا چاہئے 
……………………………..
رابط[email protected]/9419009169    
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *