تلنگانہ ٹی آر ایس الیکشن جیت گئی۔ تلنگانہ پر کے سی آر کی قیادت میں اسے دوبارہ اقتدار حاصل ہوگیا۔ انتخابی گٹھ جوڑ’’ مہاکوٹمی ‘‘کو عوام نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔راہول گاندھی ، چندرابابو نائیڈو ، سی پی آئی ، ٹی جے ایس تلنگانہ کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حالانکہ کانگریس نے مدھیہ پردیش ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں زبردست کارکردگی دکھائی۔ تلنگانہ میں وہ اس قسم کے مظاہرہ میں ناکام رہی۔ کیوں؟اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ تلنگانہ میں کانگریس نے اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کی۔ گروہ بندی، ٹیم اسپرٹ کی کمی، ہر کارکن اپنی جگہ لیڈر اور دوسرے لیڈر کو خاطر میں نہ لانا،اس کی موٹی وجوہات ہیں۔ ان سب کے علاوہ نیت کے فتور نے بھی کانگریس کا بیڑہ غرق کیا۔ اُمیدواروں کے انتخاب میں جانب داری یا بیرونی دخل اندازی ، فنڈز کے استعمال میں کفایت شعاری اور بعض موقعوں پر بخالت یا کنجوسی وغیرہ وغیرہ نے بھی اس کا کھیل بگاڑا۔
مسٹر چندرشیکھر رائو کی جانب سے اکتوبر میں جب اچانک اسمبلی کی تحلیل کی سفارش کی گئی تو یہ کہا گیا کہ قبل از وقت اسمبلی کی تحلیل اور انتخابات کے انعقاد سے انہیں نقصان ہوگا۔ جس انداز میں’’ مہاکوٹمی‘‘ یا عظیم اتحاد نے مہم چلائی ، اس سے لگ رہا تھا کہ ایک نیا انقلاب آئے گامگر عظیم اتحاد ایٹم بم کی بجائے ایک معمولی سا پٹاخہ بھی ثابت نہ ہوسکا۔ کانگریس کے کئی ہیوی ویٹس ناک آئوٹ ہوئے، کوڈنڈارام نے اچھا ہی کیا کہ مقابلہ نہ کیا، ورنہ رہی سہی عزت اور وقار سے محروم ہوجاتے۔
ٹی آر ایس نے جس شاندار طریقہ سے دوبارہ اقتدار خاص کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا، اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مہاکوٹمی نے جو پروپیگنڈہ کیا، اس کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہوا، اور دیہی علاقوں کے علاوہ شہری عوام نے ٹی آر ایس کی حمایت کی۔ رائے دہی سے دو دن پہلے ٹی آر ایس نے اخبارات میں جو عوامی فلاح و بہبود کے اشتہارات جاری کئے، اُ سے عوام بالخصوص برسرخدمت اور مؤ ظف(ریٹائر) سرکاری ملازمین اور سرکاری ملازمتوں کے متلاشیان کی زبردست تائید حاصل ہوئی۔ سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد کو 61سال کرنے اور تقرری کی حد عمر میں تین سال کے اضافہ کے اعلان کا بھی خاطر خواہ اثر ہوا۔ حکمران جماعت پر اقلیتوں کو 12؍فیصد کوٹے کے وعدہ پر عدم عمل آوری کے الزامات کا کوئی اثر نہیں ہوا، جس کا ثبوت بیشتر اکثریتی آبادی والے حلقوں میں کانگریس کے مقابلہ میں ٹی آر ایس کو ملنے والے اقلیتی ووٹ ہیں۔ ظہیرآباد کے مسلمانوں کی اکثریت نے کانگریس اُمیدوار کے مقابلہ میں ٹی آر ایس کے حق میں ووٹ دیااور اکثر وبیشتر حلقوں میں ایسا ہی ہوا۔ حتیٰ کہ مجلس کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقوں میں بھی جہاں دوستانہ مقابلہ تھا، ٹی آر ایس کو اچھے ووٹ ملے۔
مہاکوٹمی میں انقلابی شاعر غدر شامل تھے، جنہوںنے کوڈنڈارام کی طرح 2014میں ٹی آر ایس کی کامیابی میں بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔ تاہم دونوں کے کے سی آر سے نظریاتی اختلافات ہوگئے تھے۔ ان دوکی یہ خوش فہمی تھی کہ وہ عوامی قائد ہیں، ان کی آواز پر ایک بار پھر طلبہ برادری، سرکاری ملازمین اور عام طبقات ایک ہوجائیں گے مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ اسی طرح جمعیۃ العلماء ہند کی اپیل بے اثر ثابت ہوئی جس نے کانگریس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ یہ تو غنیمت ہوا کہ انہوں نے مجلسی امیدواروں کی بھی تائید کا اعلان کیا، ورنہ اس کا وقار بھی متاثر ہوتا۔ جماعت اسلامی ہند نے دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ مختلف گوشوں سے مخالفتوں اور تنقید کے باوجود ٹی آر ایس اور مجلس کی تائید کا اعلان کیا اور اپنی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی کو ثبوت پیش کیا۔ ٹی آر ایس کی شاندار کامیابی میں مسلمانوں نے اہم رول ادا کیا ہے، یہ بات کے سی آر جانتے ہیں اور ان سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا صلہ ضرور دیں گے۔ چند مسلم ارکان کو عہدوں کی پیشکش صلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے اقدامات اور وعدوں پر عمل آوری ہے۔
کانگریس بھلے ہی تلنگانہ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی ہو، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس نے دوسری ریاستوں میں غیر معمولی سیاسی طاقت مظاہرہ کیا ، ورنہ راہول گاندھی ایک عرصہ تک مسکرانا بھول جاتے۔ راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کی کامیابی کی خوشی میں وہ تلنگانہ کا غم بھول سکتے ہیں۔ اسبات کا امکان ہے کہ تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کی تشکیل جدید ہواور ایسے ارکان اس میں شامل کئے جائیں جو لیڈر نہیں بلکہ ورکر ہوں۔ جتنی گروہ بندیاں اس قدیم جماعت میں دیکھنے میں آئیں، وہ کسی اور جماعت میں نہیں تھیں۔ اسے اگر دوبارہ عوامی اعتماد بحال کرنا ہے تو سرے سے محنت کرنی ہوگی۔ نوجوانوں کو موقع دیا جانا چاہیے۔
مدھیہ پردیش ، راجستھان ، چھتیس گڑھ میں کانگریس کی شاندار کامیابی کی وجہ حکمران جماعت کے خلاف بیزاری کی لہر تھی، جب کہ میزورم میں خود کانگریسی حکومت کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ تلنگانہ میں ایسے حالات نہیں تھے جیسے اپوزیشن نے عوام کو بتائے تھے، اس لئے ٹی آر ایس کو شاندار کامیابی ملی۔
2014ء اور 2018ء کے الیکشن میں کافی فرق ہے۔ 2014ء میں نئی ریاست کی تشکیل کا کریڈٹ ٹی آر ایس کو ملا، اور 2018میں ٹی آر ایس کو یہ ثابت کرنا تھا کہ اس نے اپنے سوا چارسالہ دورِ اقتدار میں عوام سے کئے گئے وعدوں کی بڑی حد تک تکمیل کی اور وہ اس میں کامیاب رہی۔ ٹی آر ایس کی اقتدار پر واپسی، اس کی حلیف جماعت مجلس اتحاد المسلمین کے لئے بھی وقار کا مسئلہ تھی۔ مجلس کی ساتوں اسمبلی حلقوں سے کامیابی اور ٹی آر ایس کی کسی کی مدد کے بغیر اپنے طور پر تشکیل ِحکومت نے مجلس کے وقار کو بلند کیا ہے۔ چونکہ اس الیکشن میں بی جے پی کو زبردست نقصان ہوا، اس کے ارکان کی تعداد گھٹ گئی اور اب اکلوتے رُکن باقی رہ گئے ہیں، اس لئے مختلف گوشوں سے ٹی آر ایس اور مجلس پر عائد کئے جانے والے الزامات بھی بے اثر ہوگئے کہ دونوں جماعتیں بی جے پی کو مضبوط کررہی ہیں۔
تلنگانہ میں بی جے پی کو نئی طاقت دینے امیت شاہ ، نریندر مودی ، یوگی آدتیہ ناتھ نے دورے کئے، انتخابی جلسوں سے خطاب کیا مگر انہیں چھتیس گڑھ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کی طرح تلنگانہ کے عوام نے بھی مایوس کردیا۔ بی جے پی ارکان کی تعداد میں کمی اور مجلس ارکان کی تعداد برقرار رہنے سے تلنگانہ کے سیکولر عوام بالخصوص اقلیتوں نے راحت کی سانس لی۔البتہ مسلم اکثریتی آبادی والے حلقوں میں رائے دہی کے تناسب میں کمی تشویش کا باعث ہے۔ حالانکہ شعور بیداری مہم چلائی گئی۔ لگتا ہے یا تو عوام کو الیکشن سے دلچسپی نہیں ،یا اُمیدواروں سے زیادہ ہمدردی نہ رہی۔
2023ء کے الیکشن تک حالات اور بدل سکتے ہیںکیونکہ اس وقت جو نئی نسل ووٹ ڈالنے کی اہل ہوجائے گی، وہ شاید ہی رائے دہی میں دلچسپی لے گی۔ اس سے بہت پہلے ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھی کم رائے دہی کے تناسب کا فرق محسوس کیا جاسکے گا۔ فہرست رائے دہندگان سے ہزاروں نام حذف پائے گئے، اگر پارلیمانی انتخابات سے قبل اس پر نظر ثانی نہ کی گئی تو نقصان پورا نہ سہی کچھ تو ہوگا۔ تلنگانہ الیکشن 2018ء میں چندرابابو نائیڈو نے گرم جوشی کے ساتھ حصہ لیا، سمجھا جارہا تھا کہ وہ دوبارہ تلنگانہ کی سیاست میں کوئی اہم رول ادا کریں گے۔ اگرچہ کے ٹی ڈی پی نے دونشستوں پر کامیابی حاصل کرلی مگر یہ بابو کیلئے مایوس کن ہے۔ اب وہ یقینا ایک طویل عرصہ تک تلنگانہ معاملات میں دخل انداز ی سے گریز کریں گے۔
الیکشن سے پہلے کانگریس اور ٹی آر ایس کے کئی سرکردہ قائدین نے اپنی اپنی پارٹیوں سے وفاداری تبدیل کی۔ بعض ٹی آر ایس سے کانگریس میں شامل ہوئے اور کانگریس کے وفادار ٹی آر ایس میں۔ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، اسے سیاسی بصیرت، دور اندیشی کا بھی نام دیا جاسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جو مسلم قائدین ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ہیں آیا انہیں کوئی صلہ ملے گا یا نہیں؟
جناب محمود علی نے مسلم ڈپٹی چیف منسٹر کی حیثیت سے اپنی میعاد کامیابی کے ساتھ مکمل کی۔ اپنی شرافت اور منکسر المزاجی سے انہوں نے ہر طبقہ کے دل میں جگہ بنائی ہے۔ کے سی آر کے وہ اس وقت سے ساتھ ہیں جب ٹی آر ایس کے اقتدار حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ کے سی آر ان کو برقرار رکھیں گے یا کوئی تبدیلی ہوگی، یہ سوال ذہنوں میں ضرور ہے۔ ویسے کابینہ میں ممکنہ اُمیدواروں میں عامر شکیل، فرید الدین، اور فاروق حسین شامل ہیں، جب کہ پہلے سے موجود اور بعد میں ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے مسلم قائدین بھی پر اُمید ہیں کہ ان کا بھی لحاظ کیا جائے گا۔
نو ٹ: چیف ایڈیٹر ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد۔ فون:9395381226