حصۂ کیف بہاراں کی پڑی ہے سب کو
اور بجلی ہے کہ رقصاں ہے گلستاں کے قریب
جموں کے انگریزی روزنامہ میںایک دانش ور ، قلم کار اور ماہر قانون اے جی نورانی کا ایک آرٹیکل 7؍جنوری کے شمارے میں شائع ہوا ہے جس میںاُنہوںنے انکشاف کیا ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی اور دائیں بازو کے عناصر جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے کوشاں ہیں اوران کی پُشت پناہی میں مرکزی وزیر ڈاکٹر جتندر سنگھ پیش پیش ہیں۔ یہ انکشاف اگرچہ تشویش ناک ضرور ہے لیکن حیران کن نہیں،کیونکہ بھارتیہ جنتاپارٹی اور جموں وکشمیر میں اس کی پیشرو تنظیمیں پرجا پریشد اور جن سنگھ شروع سے ہی ایسے نعرے بلند کرتی رہی ہیں اور ایسے مطالبات کرتی رہی رہیں بلکہ ایسی ایجی ٹیشن چلاتی رہی ہیں جن کا مقصد اور نتیجہ تقسیم جموں وکشمیر کی تقسیم ہی ہوسکتاہے۔ اگرچہ باقاعدہ طورپراُنہوں نے کبھی تقسیم ریاست کا مطالبہ کھل کر نہیںکیا۔،دفعہ 370کو حذف کرنے، ایک پردھان ۔ ایک نشان۔ ایک ودھان کے نام سے ایجی ٹیشن بلاشبہ جموںوکشمیر کی تقسیم کے مطالبہ کی غمازی کرتی تھی۔ کشمیر کے خلاف نفرت کاپرچار تقسیم ریاست کے مطالبہ کی طرف رہنمائی کرتاتھا، فرقہ وارانہ ماحول کا پیدا کرنا جو کہ ان تنظیموں کا اوڑھنا بچھونا رہاہے، تقسیم جموںو کشمیر کی طرف پیش قدمی کا پیش خیمہ رہاہے اور اب بھارتیہ جنتاپارٹی کی ذیلی تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دفعہ 370کے حذف کرنے، دفعہ 35A کو کالعدم قراردینے جیسی قانونی کاروائیوں اور سیاسی کوششوں کا مقصد اور نتیجہ بھی تقسیم ریاست کی طرف ہی اشارہ کرتاہے۔ حالانکہ جموںخطہ کے باشعور لوگوں کے علاوہ خطہ کشمیر کے لوگ بحیثیت مجموعی ان اقدامات کے سخت مخالف ہیں۔ موجودہ دورمیں بھی جس طرح بھاجپا نے پی ڈی پی کے ساتھ مشترکہ پروگرام (ایجنڈا آف الائنس ) میں دفعہ370کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہ کرنے اور موجودہ آئینی پوزیشن قائم رکھنے کے باوجود جیسا سلوک روارکھا، وہ بھی اس امر کو ظاہر اور واضح کرتاہے کہ بھاجپا تقسیم ریاست کی طرف ہی قدم بڑھارہی ہے۔ اسی طرح فاروق عبداللہ کے عہد حکومت میں جموںوکشمیر اسمبلی کی طرف سے جب نیشنل کانفرنس بھاجپا کی اتحادی پارٹی تھی اور اُس کا نمائندہ عمر عبداللہ بھاجپا کی مرکزی سرکار کے وزیرا مملکت تھے ، ریاستی اسمبلی کی اٹانومی قرارداد کو رد کیاگیا۔ وہ بھی اس امر کی ولالت کرتاہے کہ سنگھ پریوار کو خطہ کشمیر کی کوئی پرواہ نہیں اور یہ تقسیم ریاست کے لئے فضا سازگار بنانے کی خواہاں ہے۔ بدیں وجوہات تقسیم ریاست کے متعلق بھاجپا کی طرف سے کوشش کوئی نہیں بات نہیں بلکہ ا س کی پرانی حکمت عملی کا ہی ایک پرتوہے۔
صرف بھارتیہ جنتاپارٹی ہی نہیں بلکہ کئی دیگر عناصر بھی جموںوکشمیر کو تقسیم کرنے کی ناپاک کوششوں میں شامل ہیں۔ سابقہ حکمران ریاست ڈاکٹر کرن سنگھ بھی شامل ہیں جوکہ آج کل کانگریس کی اعلیٰ قیادت میں شامل ہیں۔ ایک مرتبہ تو اُنہوںنے جموں اور ہماچل پردیش کو ملا کر ایک ریاست بنانے کی تجویز بھی پیش کی تھی جسے ہماچل پردیش کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر پرمار کی کوششوں نے ہی آگے بڑھنے نہ دیابلکہ ڈاکٹر کرن سنگھ کی بے عقلی کے باعث ہماچل پردیش کے ڈوگری بولنے والے لوگوں نے بھی اپنی مادری زبان پہاڑی لکھوائی۔ ڈاکٹر کرن سنگھ نے ہی جموں میںاٹانومی فورم بنا کر ا ُس کی مالی امداد کرکے تقسیم ریاست کی کوششوں کی مکمل پشت پناہی کی تھی، اس لئے صرف بھاجپا ہی نہیں بلکہ ہرطرح کے قدامت پسند اور فرقہ پرست عناصر تقسیم جموںوکشمیر کے لئے کوشاں رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔
اِ ن دنوں پنتھرس پارٹی کے قائد بھیم سنگھ بھی ریاست جموںوکشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا کھلم کھلا دعوے دار بن گئے ہیں اور بڑے زور وشور سے جموں،کشمیر اور لداخ کو الگ الگ ریاستیں بنانے کا علمبردار بنے ہیں اور اس طرح جموں میںاپنی ساکھ بنانے کے خواہاں ہیں۔ اپنی ساکھ بنانے کے علاوہ وہ تقسیمِ ریاست کا مطالبہ ڈاکٹر کرن سنگھ کی شہ پر کررہاہے جو کہ جموں کی الگ ریاست بنا کر پھر جموں میں اپنی جاگیردارانہ اور آمرانہ حکمرانی مسلط کرنے کے خواہاں ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کا لیڈر چوہدری لال سنگھ بھی ڈوگرہ شاؤنزم پیدا کرکے، اصل میں جموں کو کشمیر سے الگ کرنے کی کوشش کررہاہے۔ یہ سب عناصر مل کرقومی و ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر انتخابی غرض براری کے لئے قلابازیاں کررہے ہیں لیکن ان سے نہ صرف علاقائی بلکہ فرقہ وارانہ جذبات برانگیختہ ہورہے ہیں بلکہ تخریب وتنفر کی آتش بھی سلگ رہی ہے جس سے ریاست کے مختلف حصوں میںتنائو اور ٹکرائو پیدا ہورہاہے جو کہ انتہائی خطرناک اور مہلک ہے۔اب جموں وکشمیر کا سب سے بڑا سیاسی قلاباز اوربنڈل بازڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی اس کھیل میں سامنے آگئے ہیں۔ رائے شماری کا مطالبہ کرتے کرتے وہ ہوسِ اقتدار کی خاطر ریاست کی اٹونومی کا علمبردار بن گئے لیکن اس میں ناکامی کے بعد اُنہوںنے ریاست کے تینوں خطوں کواٹانومی دینے کااعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ برسر اقتدارآگئے اور اسمبلی انتخابات میں این سی کو اکثریت حاصل ہوگئی تو وہ تیس دن کے اندر اندر اسمبلی میں قراردار منظور کرکے ریاست کے تینوں خطوں کو اٹانومی دے دیں گے۔ اُنہیں یاد نہیں رہا یا جان کر انجان بن رہے ہیں کہ پوری ریاست کی اٹانومی کے متعلق قانو ن ساز اسمبلی قرار داد کاکیا حشر ہواتھا، اِس سلسلے میں بھی اُن کے اعلان کا بھی وہی حشر ہوناہے۔
فارو ق عبداللہ کے اِس اعلان کے بعد رد عمل کے طورپر صوبہ جموں کے چناب خطہ کے کچھ لیڈروںنے بھی اٹانومی کا مطالبہ زور وشور سے کردیاہے اور خطہ پیر پنچال کے کچھ انتخابی پہلوان بھی ا س مانگ میں پیچھے نہیں رہے۔ اُنہوںنے بھی اٹانومی کا مطالبہ بلند کیاہے اور کرگل کے انتخابی پہلوانوں نے بھی لداخ سے الگ خطہ بنانے کا مطالبہ کردیاہے اور جموں کے کئی کانگرسی لیڈروں نے بھی جموں اٹانومی کے مطالبہ کی حمایت کی ہے یعنی ساری ریاست کے انتخابی پہلوان اٹانومی تقسیم ریاست اور اٹانومی راگ الاپ رہے ہیں۔اس سارے سیاسی ماحول میں انتخابی دنگل کے پہلوانوں نے جموںوکشمیر میں انتہائی تشویش ناک صورت حال پید اکردی ہے۔ ریاستی اور صوبائی اٹانومی یاعلاقائی اٹانومی کا کیا حشر ہوتاہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ان انتخابی سیاسی دنگل کے پہلوانوں نے جموںوکشمیر کی فرقہ وارانہ، علاقائی اور صوبائی فضاء کو ضرور مکدر کردیاہے۔ اس صورت حال کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں، صوبائی، علاقائی اور ریاستی جھگڑے بڑھ سکتے ہیں اور فتنہ وفساد کی صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
ریاست کو تقسیم کرنے اور تقسیم درتقسیم کرنے والے ان تمام عناصر کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت کے آئین کی دفعہ3جوکہ پارلیمنٹ کو ریاستوں کی حد بندیاں تبدیل کرنے کا اختیار دیتی ہے، ریاست جموںوکشمیر پر لاگو نہیں ہوتی۔ اس لئے پارلیمنٹ سمیت کوئی سرکاری عہدیدار اورآئینی ادارہ نہ جموںوکشمیر کی حد بندی تبدیل کرسکتاہے اور نہ ہی ریاست کے اندر دیگر ریاستیں وجود میں لاسکتاہے۔ البتہ جب کبھی جموں و کشمیر کے مسئلہ اور تنازعہ پرمذاکرات ہوتے ہیں تو ریاست کی تقسیم اور تقسیم در تقسیم کی نعرہ ڈکسن فارمولہ کو زیربحث لانے کاموجب بن سکتی ہے۔ جسے جب پیش کیاگیاتھا توریاستی عوام نے بحیثیت اسے بھی مجموعی رد کردیاتھا لیکن اب مین سٹریم کہلانے والی پارٹیوں نے ریاست کی تقسیم اور اندرونی اٹانومی کے نام پر تقسیم در تقسیم کے فارمولے پیش کرنا شروع کردئے ہیں جو کہ آخری تجزیہ میں ڈکسن منصوبہ کے لئے ہی راہ ہموار کرتے ہیں اور جو پہلے ہی تقسیم شدہ ریاست کو مزید تقسیم کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ یہ صورت حال ریاستی عوم کو ہرگز قابل قبول نہیںہوسکتی۔ریاست کے مختلف خطوں کو امتیاز اور بے توجہی کی شکایات ہوسکتی ہیں۔ اُن کاانسداد کیا جاناچاہیے اور ضرو رکیا جاناچاہیے لیکن جموںوکشمیر کی تقسیم اور تقسیم در تقسیم کے مطالبے ریاستی عوام کے مفادات کے کے لئے زہر قاتل ہیں، اس لئے اُ نہیں بہر صورت رد کیاجاناچاہیے۔
1947میں ریاست ایک تھی لیکن اب پہلے ہی وہ تقسیم شدہ ہے جس کے باعث اس ریاست کی زبردست تباہی و بربادی اور خون خرابے سے گزر ہی ہے۔ اس کے نتائج اور خمیازہ ابھی تک ریاستی عوام بھگت رہے ہیں۔ کنبے الگ الگ ہوگئے ہیں، تجارت تباہ ہوگئی ہے، مستقبل کے متعلق تنازعات کی وجہ سے ریاست جنگ و جدل کا شکار ہے، امن وامان تباہ وبرباد ہے، خون ریزی جاری ہے۔ اگرچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعہ تقسیم شدہ ریاست کو یکجا کرنے کی کوششیں تیز کی جائیں لیکن جو عناصر محض خود غرضی کی خاطر اور انتخابی ضروریات کے لئے جموںوکشمیر کی تقسیم اور تقسیم در تقسیم کی نعرہ بازی کررہے ہیں۔ یہ لوگ ہرگز جموں وکشمیر کے قطعی طورخیرخواہ نہیںہوسکتے۔ اس مجوزہ نحوست آمیز تقسیم کے باعث ستر سال سے جموں وکشمیر کی سرزمین خون ریزی ہوئی ہے اور ہر طرح کی مشکلات اور مصائب سے دوچار ہے۔ اس کی مزید تقسیم سے جومصائب برداشت کرنے پڑیںگے،وہ ناقابل بیان ہیں۔
جموںوکشمیر کی مکمل ریاست جس کا وجود 1947سے پیشتر موجود تھا، گردوپیش کے ممالک کے اُس خطہ راضی میںواقع ہے جو ان ممالک کے درمیان تجارت کااہم مرکز بن سکتی ہے۔ اس ریاست کا محل وقوع اس جگہ ہے جو گردوپیش کے ممالک کے لئے آبی بندرگاہ اور زمینی تجارت کی محور بن سکتاہے۔ اس کے ذریعہ نہ صرف برصغیر کے ممالک ہند و پاک کی باہمی تجارت فروغ پاسکتی ہے بلکہ ریاست چین اور وسط کی ایشیاء کے ممالک کی تجارت کابھی مرکز بن سکتی ہے جیسا کہ محدود پیمانہ پر ہی سہی یہ1947سے پیشتر تھی۔ تقسیم جموںوکشمیر کی صورت میں جموںوکشمیر کے عوام یہ حیثیت کھودیںگے جس سے جموںوکشمیر کے تمام خطوں کونقصان کا متحمل ہوناپڑے گا۔ اس لئے تقسیم جموںوکشمیر ہر لحاظ سے نہ صرف زیاں کار بلکہ تباہ کن ہوسکتی ہے۔ تقسیم جموں وکشمیر اور تقسیم در تقسیم ریاست کی نعرہ بازی کرنے اور غوغا آرائی کرنے والے عناصر اس ریاست کی نہ صرف سیاست، سا لمیت کے لئے تباہ کن راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ اس ریاست کے تمام خطوں کی معیشت کے لئے بھی قبر کھود رہے ہیںجوپیشترازیں ہی معاشی طورپر تباہ حال وخستہ ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ جموں وکشمیر کے سارے خطوں کے عوام اس تباہی وبربادی کے خطروں کے پیش نظر ہر گز تقسیم ریاست کے حمایت نہیںکرسکتے اور نہ ہی کرتے ہیں، لیکن چند سوداگر اپنے سیاسی وانتخابی اغراض طرح طرح کے شوشے چھوڑ کر مختلف خطوں کے عوام میں بدگمانیاں پید اکرکے تقسیم ریاست کے لئے فضا کی راہ ہموار ضرور کررہے ہیں اور یہ ایک انتہائی خطرناک کھیل ہے جس سے ساری ریاست کے عوام کا پیشگی آگاہ ہونا اور ا جنونی اور کم سواد عناصر کی کوششوں کو ناکام کرنا اشد ضروری ہے۔
تقسیم ریاست کی غوغا آرائی اور نعرہ بازی فقط سامراجی ڈکسن پلان کوعمل درآمد کروانے کے لئے مددگار ثابت ہوسکتی ہے اور اس خطہ کو سامراجی جنگ بازی کا اڈہ بنانے کا کارنامہ ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ اس ناقابل تردید حقیقت کو باشندگان جموںوکشمیر کو بخوبی سمجھ لیناچاہیے۔چونکہ تقسیم جموںو کشمیر اور تقسیم در تقسیم کی زیادہ تر آوازیں صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے غرض مند عناصر ہی بلند کررہے ہیں،اس لئے اس صوبہ کے عوام، دانشوروں، جمہوریت پسندوں، عوامی بہتری وبہبودی کے طلب گاروں اور عوام کے خیرخواہوں کا فرض اولین ہے کہ وہ اس فتنہ کے خلاف زور دار آواز بلند کریں اور جس طرح پیشتر ازیں اس کی اس قسم کی فتنہ بازیوں کاقلع قمع کیا گیاہے،اُسی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ متحرک وفعال ہوکر اوربیدار مغزی کے ساتھ اب کے بھی اِس فتنہ کاسرکچل دیا جائے گا۔مسٹرنورانی کے دیگر خیالات اور نظریات سے شدید اختلافات ہوسکتے ہیںلیکن اُن کاتازہ انکشاف اور انتباہ محض خیالی نہیں بلکہ حقیقی چلنج ہے۔ اس لئے جموںوکشمیر کے تمام خطوں کے باشعورعوام کو تقسیم کے خطرات کے مفہومات کو سوچ سمجھ کر تقسیم ریاست اور ریاست کی تقسیم درتقسیم کی نعرہ بازی اور غوغا آرائی کا مر دانہ وار مقابلہ کرنا اور اُسے ناکام بنانا ریاستی عوام کا بحیثیت مجموعی فرض اولین ہے ؎
زباں جلائی کہ قطع ہاتھ پہنچوں سے
یہ بندوبست ہوئے ہیں میری دُعا کے لئے
داغؔ دہلوی