تبصرہ
ایس معشوق احمد
یہ بات میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ انشائیہ پڑھنا اور لکھنا مجھے پسند ہے۔ انشائیہ پڑھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے جیسے ضدی بچےکو من پسند کھلونا مل گیا ہو، ہجرزدہ کے نصیب میں وصال لکھا گیا ہو، بے روزگار کو عمدہ سرکاری نوکری مل گئی ہو۔ اگر میں کہوں انشائیہ میرا عشق،میرا جنون اور میرا شوق ہے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔پچھلے چند سال سے لگاتار اس شوق کی تکمیل میں انشائیوں کے مجموعے میرے زیر مطالعہ رہے ہیں اور میں ان سے حظ پاتا رہا۔پیاس لگ جائے تو پیاسا پانی پیتا ہے میں انشائیہ پڑھتا ہوں۔حال ہی میں جس طنز و مزاح اور انشائیوں پر مبنی مجموعہ نے میری پیاس بجھائی وہ’’خراشیں‘‘ ہے۔ یہ مجموعہ تقدیس نقوی کے قلم کی صورت گری کا نمونہ ہے۔ تقدیس نقوی کا تعلق ادبی لحاظ سے زرخیز اور مصحفی، جون ایلیا، نورالحسن نقوی جیسے اعلی پائے کے شعراء اور ناقدین کی سرزمین امروہ سے ہے۔دوبئی میں بینک کی ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔1972ء سے ان کا رشتہ قلم کے ساتھ جڑا ہوا ہے لیکن کبھی قلم کو مصروفیت اور ملازمتی ذمہ داریوں نے چھینا تو کبھی اندر کے تخلیق کار کا ہاتھ قلم کی طرف خودبخود بڑھا۔خراشیں عنوان پڑھ کر مجھے خالد ندیم شانی یاد آئے۔ان کا شعر ہے۔
خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے
تقدیس نقوی نے’’ زیادہ غم‘‘کو چھوٹے سے تراشے کے بجائے خراشیں میں بیان کیا ہے۔خراشیں میں وہ غم بیان ہوا ہے جو ایک ادیب کو لاحق ہوتا ہے جب وہ اپنے آس پڑوس میں کجی اور مسائل دیکھتا ہے۔خراشیں کتاب کا عنوان کیوں رکھا ہے اس کی وضاحت تقدیس نقوی نے’’دو لفظ‘‘میں یوں کی ہے۔’’ان مضامین کے ذریعے ان سماجی ،سیاسی اور ادبی مسائل کی جراحی کا عمل کیا گیا ہے جن سے انسانیت کی روح پر ان دیکھی خراشیں پڑتی رہتی ہیں، اس لئے اس مجموعے کا ٹائٹل خراشیں تجویز کیا۔‘‘
خراشیں جیسا کہ سرورق پر لکھا ہے کہ یہ انشائیے اور طنز ومزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔اس میں شامل مضامین کی تعداد بتیس ہے۔ان میں انشائیہ کون سا مضمون ہے اور طنز ومزاحیہ تحریر کون سی ہے تقدیس نقوی نے یہ فیصلہ قاری پر چھوڑا ہے۔طنزو مزاح کوئی صنف نہیں، اس کے جوہر ناول ،افسانے اور دیگر تحریروں میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن انشائیہ میں مزاح کا تڑکا ہو تو سونے پہ سہاگہ۔جس طرح دلہن کی زینت سنگھار سے بڑھتی ہے، اسی طرح انشائیہ میں انشائیہ پن طنز ومزاح سے آتا ہے۔
قلم یوں تو لکھنے کے کام آتا ہے اور عین ممکن ہے بعض کو یہ معمولی نظر آئے لیکن اس کی عظمت مسلم ہے۔یہ قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔بنی نوع انسان اگر کسی شئے نے پستی سے نکال کر عروج دیا ،وہ قلم ہے۔افسوس موجودہ دور میں قلم سے لکھنے کے بجائے سجاوٹ کا کام لیاجاتا ہے،جیب کی تزئین اور نیفے میں کمر بند ڈالنے کا کام اس سے لیا جاتا ہے۔آج کل قلم لکھنے کے کام کم ہی آتا ہے اس لئے تقدیس نقوی نے’’ مرثیہ قلم‘‘ لکھا ہے۔اس انشائیے میں تقدیس نقوی جہاں قلم کی عظمت بیان کررہے ہیں وہیں بعض جگہوں پر انشائیے کی راہ سے ہٹ کر مضمون کے راستے پر چلنے لگتے ہیں۔جذباتی ہوکر قلم کی عظمت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
قلم کے لئے یہ امر بھی باعث افتخار ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں قلم کی قسم کھائی ہے اور اس میں ایک مکمل سورہ مبارکہ بنام القلم نازل فرمایا ہے۔“
خراشیں میں شامل مزاحیہ مضمون’’ یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ پڑھ کر پطرس بخاری کا مزاحیہ مضمون’’مرحوم کی یاد میں‘‘ ذہن پر دستک دینے لگا۔اس میں پطرس صاحب گاڑی خریدنے کے فراق میں تھے اور یہاں تقدیس نقوی بکرا خریدنے نکلے ہیں۔ان کے پاس نہ بینک بیلنس ہے اور نہ خاندانی جائیدار اور نہ ایسی زمین جس کو بیچ کر بکرا خریدا جاسکتاہے۔شوق کو پورا کرنے کے لئے راوی مولوی مقتدا صحرائی کے پاس جاتے ہیں جو پشتنی پیشہ میں ناکامی کے بعد مولویت کو چھوڑ کر سیاست کے صحرا میں آگئے ہیں۔حاضر نے اپنا مدعا و مقصد بیان کیا تو مولوی صحرائی نے فرمایا۔’’ حکام نے بکروں کی فروخت کو منظم اور قانونی بنانے کی غرض سے ایک بکرا کمیٹی تشکیل دی ہے جس کی صدارت شہر کے ایم پی صاحب کررہے ہیں۔اب بکرا صرف اس کی تحویل میں دیا جائے گا جس کے پاس اس کمیٹی کا اجازت نامہ ہوگا۔‘‘
چچا غالب’’وصال یار‘‘کے خواہش مند تھے پر نقوی صاحب وصال یار کے بجائے چاہتے ہیں کہ وہ بکرا خریدنے میں کامیاب ہوجائے۔ان کی امید بر نہیں آتی کیونکہ اب بکرا خریدنے کے لئے ہیلتھ چیک اپ ضروری ہے۔کہیں بکروں کو انسان سے انفیکشن نہ ہوجائے۔ یہ نہ تھی ہماری قسمت پڑھ کر قاری انتظار کرتا ہے کہ اس کی قسمت میں مزاح کے چند جملے آئے تاکہ وہ سراب ہو لیکن ایسا نہیں ہوتا اور وہ مزاحیہ جملوں کے لئے ایسے ترستا ہے جیسے صحرا میں پیاسا پانی کے لئے حالانکہ مہنگائی پر وار کرنے میں تقدیس نقوی کامیاب ہوئے ہیں۔
انشائیہ کوئی ایسا علمی مضمون نہیں ہوتا، جس میں آپ دلیل اور ثبوت کے ساتھ اپنے بات سامنے رکھے۔ خراشیں میں چند مضامین کی دلخراش آوازیں آتی ہیں کہ وہ نہ انشائیے ہیں اور نہ مزاحیہ مضامین جیسے سوشل میڈیا کی خود ساختہ علامتیں ، دور حاضر کی سیاست میں مشتعل زبان جمہوریت کے لئے ایک بڑا خطرہ، اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے وغیرہ۔خراشیں ایک عمدہ مزاحیہ مجموعہ ثابت ہوسکتا تھا، اگر اس میں شامل مضامین کی تراش خراش کی جاتی، لفظوں کے الٹ پھیر سے مزاح پیدا کیا جاتا یا واقعات کو مزاحیہ اسلوب میں بیان کیا جاتا۔کالم اور مضمون کا اسلوب انشائیہ لکھنے کے لئے موزوں نہیں ہوتا کہ ایک انشائیہ نگار کو غیر جانبداری رہ کر انشائیے کو ایسے موڑ پر چھوڑ دینا ہوتا ہے، جہاں قاری خود اس مسئلے پر سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ایسا کرنے میں تقدیس نقوی ناکام ہوئے ہیں۔خراشیں ایسی ڈش ہے جس میں مزاح اور انشائیہ کی بوٹیاں نظر نہیں آتی ،البتہ کالم اور مضمون کی جھلکیاں بار بار دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔اس کتاب میں شامل مضامین پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ تقدیس نقوی کی زبان وبیان پر اچھی گرفت ہے اور مستقبل میں وہ اپنے قلم سے یقیناً ادبی خزانے میں موتی بھر دیں گے۔
رابطہ۔8493981240
[email protected]