محمد ہاشم القاسمی
تعویذ کی لغوی معنی ’’حفاظت کی دعا کرنا‘‘ کے ہیں۔ عربی میں ’’عَوّذَ، یُعوّذُ بابِ تَفعِیل سے ’’تعویذ‘‘ مصدر ہے، دوسرے لفظوں میں اسے ’’تحریری دعا‘‘ کہا جاسکتا ہے، جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثر پزیری اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی ’’تحریری دعا‘‘ کے اثرات و فوائد بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے۔
تعویذات میں عموماً قرآن پاک کی آیات اور اللہ پاک کے اسماء حسنی لکھے ہوتے ہیںاور ان کو پڑھ کر دم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا تعویذات سے استفادہ کرنے والا قرآن سے شفاء طلب کرنے والا ہے، اور یقیناً قرآن کریم میں شفاء ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے :’’اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔(بنی اسرائیل)
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ خیرُالدواءِ القُرْآن‘‘ یعنی قرآن بہترین دواہے۔ (ابنِ ماجہ)
تعویز میں پناہ چاہنے اور پناہ دلانے کے لئے بعض آیات و ادعیۂ ماثورہ ایسی ہیں کہ جن کو لکھ کر دیا جاتا ہے، تو اللّٰہ کے فضل اور اس کی شان کریمی سے یہ کلماتِ معوذات شیطانی اثرات، شر و فساد اور نظرِ بد کے اثر انداز ہونے سے مانع اور رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اگر کسی پر اثر ہوچکا ہوتا ہے تو وہ زائل ہوجاتے ہیں۔
تعویذ سے مراد وہ کلمات ہیں جن کے ذریعہ پناہ چاہی جائے خواہ وہ تلاوت و قرأت (رقیہ) کے ذریعہ ہو یا تحریر (تعویذ) کے ذریعہ۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے ،’’أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ‘‘ یعنی میں اللہ کے غضب، عقاب، اس کے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں، اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا، عبد الرحمن بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے۔(مسلم شریف)
صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی وہ حدیث، جس میں انہوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوئے ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہو گیا تھا اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی۔
دسویں صدی کے مجدد حضرت ملا علی قاریؒ اس حدیث پر لکھتے ہیں کہ ’’و ھٰذا أصل في تعلیق التعویذات التي فیھا أسماء اللہ تعالٰی۔‘‘ ( مرقات )
اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی اثر رکھتے ہیں، اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ ہاں! وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں، ان کی قطعاً اجازت نہیں۔ جن روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دَم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمام ‘‘میں’’الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دَم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔ حضرت عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں دَم کیا کرتے تھے، ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’أعرضوا عَلَیَّ رقاکم ، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔‘‘ (رواہ مسلم )
اس سے پتہ چلتا ہے کہ دَم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دَم اور تعویذ جائز ہے، چنانچہ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں تعویذ کے جواز پر ایک مستقل فصل، ’’فصل في جواز أن یکتب لمصاب و غیرہ الخ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں،’’و یجوز أن یکتب للمصاب و غیرہ من المرضٰی شیئًا من کتاب اللہ و ذکرہ بالمداد المباح ، ویغسل و یسقٰی ، کما نص علٰی ذلک أحمد و غیرہ۔‘‘ (مجموعۃ الفتاویٰ )
کسی مریض کے لیے کتاب اللہ میں سے کچھ لکھ کر دینا یا اس کو دھو کر پانی میں گھول کر پلانا، یہ دونوں جائز ہیں۔ مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ’’کفایت المفتی ‘‘میں رقم طراز ہیں کہ’’قرآن شریف کی آیت تعویذ میں لکھنا جائز ہے۔‘‘ (کفایت المفتی) حضرت مفتی محمد تقی عثمانی اپنی کتاب ’’تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’وہ تعویذات جن میں اللہ کے کلام اور مسنون دعاؤں کا ذکر ہو تو وہ قطعاً حرام نہیں ، ان کاحرمت سے کوئی تعلق نہیں، ایسے تعویذات تو عام جمہور علماء کے نزدیک جائز ہیں، بلکہ بعض علماء نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے۔ علامہ شوکانی ؒ نے ان سے یہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں نقل بھی کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فتح الباري میں لکھتے ہیں کہ ’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر اجماع کیاہے، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں (1) وہ اللہ کے کلام ،اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہوں(2) وہ عربی زبان یاپھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو (3) یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔
علامہ شامی ؒ بھی اپنی کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں تعویذ کا جواز نقل کرتے ہیں۔’’قرآنی آیات کے ذریعہ دَم میں علماء نے اختلاف کیا ہے، مثلاً اگر کسی کاغذ پر قرآن کی آیت لکھ کر مریض کے جسم پر باندھ لیا جائے، یا کسی برتن میں آیات لکھ کر دھویا جائے اور مریض کو پلایا جائے ، تو عطاء ؒ، مجاہدؒ اور ابو قلابہؒ اس کو جائز سمجھتے ہیں، اور امام نخعی ؒ اور بصریؒ اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، لیکن مشہور کتابوں میں اس کے جواز پر کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی ہے، وہ آگے لکھتے ہیں کہ تعویذ کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
ابن القیم الجوزیۃؒ اپنی کتاب’’ زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں ،’’راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے تعویذ باندھنے کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کا کیا حکم ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ’’ اگر وہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مشتمل ہو تو اس کو باندھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ‘‘۔
تفسیر’’روح البیان‘‘ میں ہے کہ’’ تعویذ اگر مجرب دعا، مجرب آیت یا اللہ کے اسماء پر مشتمل ہو، اور کسی مصیبت یا بیماری کے دفعیہ کے غرض سے لٹکایا ہو تو یہ جائز ہے ،لیکن جماع اور بیت الخلاء جانے کے وقت نکال لے گا ‘‘۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ ’’سعید ابن المسیبؒ، ضحاک اور ابن سیرین جیسے اکابر علماء اس کے جواز کے قائل تھے۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں کہ ’’ قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے، جبکہ غلط مقاصد کے لیے نہ کیاگیا ہو ، حدیث میں جن ٹونوں ، ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانۂ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے اور ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی، قرآنی آیات پڑھ کر دَم کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔‘‘( آپ کے مسائل اور ان کا حل)
علامہ شوکانی ؒ ابن ارسلانؒ سے نقل کرتے ہیں ’’ابن ارسلان کہتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ جائز ہیں، شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا‘‘(فتاویٰ اہل حدیث)
شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المؤ منین حضرت حفصہؓکے پاس بیٹھی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے مجھے کہا
’’اے شفاء! کیا تو انہیں ( یعنی حضرت حفصہؓ کو) نملہ کا دَم نہیں سکھادیتی، جیسا کہ تو نے انھیں لکھنا سکھادیا ہے؟ ‘‘(مسند احمد)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دَم اور تعویذ جس میں کفر و شرک اور غیر معروف الفاظ نہ ہوں اور الفاظ میں ذاتی تاثیر نہ سمجھی جائے ، اس کے منع پر کوئی دلیل وارد نہیں ۔شیخ احمد عبد الرحمٰن البناؒ لکھتے ہیں کہ یہ ’’ہر گز ممنوع نہیں ، بلکہ سنت ہے‘‘۔ ( مسند احمد ) ۔۔۔۔۔۔۔۔(مضمون جاری ہے)
فون نمبر۔9933598528
[email protected]>