فہم و فراست
عبدالطیف تانتر ے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتاً اجتماعیت پسند پیدا کیا ہے اور اس تناظر میں معاشرت اُس کی زندگی کا ایک اہم ترین اور لازمِ ملزوم حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان معاشرے کی بہبود کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اپنے مقام و مرتبت کے حصول سے متعلق بڑی حساسیت کے ساتھ فکرو تدبر میں مصروف رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُسے ایامِ طفلی سے ہی اپنے معاشرے سے آشنائی کرائی جاتی ہے اور اسکی تربیت بھی زمانۂ حال کے معاشرے میں مروجہ طریقے کی افراد سازی سے منسوب ہوتی ہے۔ چونکہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ بہترین معاشرہ صرف بہترین افراد سازی سے تشکیل پاتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فرد معاشرے کی بنیادی اِکائی ہے اور مثالی معاشرہ قائم کرنے کیلئے مثبت اور فعال افراد سازی اولین شرط ہے بقولِ علامہ اقبال ؎
افرادکےہاتھوں میں ہےاقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے مِلت کے مقدر کاستارہ
تاریخ گواہ ہے کہ اب تک کے تمام تر مثالی معاشرے بہترین افراد سازی کی بدولت ہی وجود میں آئے ہیں اور فعال معیشت، اعلی اخلاقی اقدار اور عدل و انصاف پر مبنی سیاسی نظام کے طفیل ہی یہ معاشرے مثالی اور یادگار گردانے جاتے ہیں، اس کے برعکس وہ معاشرے جہاں بطریقِ احسن افراد سازی کا فُقدان رہتا ہے، معاشی بدحالی ، اخلاقی گراوٹ اور ظلم و جبر کا شکار رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مثالی معاشروں کو اپنی عظمت رفتہ بحال رکھنے اور بدحال معاشروں کو اپنی حالت سُدھارنے کے لیے صرف اور صرف افراد سازی پر ہی انحصار ہے ۔ افراد سازی کے عمل کا ہمہ جہتی ہونا بھی لازمی ہے اوراس کےلیے یہ ضروری ہے کہ مثالی معاشرے کے لیے کی جانے والی افراد سازی اس کے لیے درکار تمام لوازمات سے مربوط ہو ۔ اگر افراد سازی کی بنیاد معیشت تک محدود رہتی ہے تو اخلاقی پستی اور ناقص نظامِ سیاست معاشرے کو مطلوبہ معیار حاصل کرنے میں حائل ہو جائیں گے اور اگر ہم طائرانہ نظر ڈال کر موجودہ معاشروں کا بغور جائزہ لیں تو دور حاضر اخلاقی اقدار کو پسِ پشت ڈال کراور ناقص نظام کی اور بے توجہی دکھا کر صرف معاشی استحکام کے لیے افراد سازی کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ دور حاضر معاشرتی پستی کی انتہا پر ہے۔ حالانکہ مادی ترقی کے تناظر میں بھی یہ دور اب تک کی تاریخ میں انتہا پر ہے۔
لہٰذا ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ صرف مادی ترقی کو معاشرتی ترقی سے تعبیر کرنا دور حاضر کی ایک اجتماعی بھول ہے، بلکہ بہت سارے اہل دانش کے مطابق موجودہ معاشرتی پستی کی بنیادی وجہ یہی مادی ترقی ہے ۔ آج کا معاشرہ ہر سطح پر بکھراؤ کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے ۔ خاندانی نظام بکھراؤ کا شکار ادارہ جاتی نظام بکھراؤ کا شکار، ریاستی نظام بکھراؤ کا شکار، تعلیمی نظام بکھراؤ کا شکار، ثقافتی نظام بکھراؤ کا شکار ، تجارتی نظام بکھراؤکا شکار ،ماحولیاتی نظام بکھراؤ کا شکار ہو رہا ہے اور اس سب کا اصلی شکار معاشرے کی بنیادی اکائی کہلانے والافرد ہو رہا ہے۔صرف مادی ترقی کو بنیاد بناکرافراد سازی کا نتیجہ ہے کہ خونی قرابتوں میں پاس و لحاظ کی جگہ اب اناد ہی اناد نظر آرہاہے ، شفقت وتعظیم کی جگہ اب دشنامکاری نے ہڑپ لی ہے، شرم و حیا کی جگہ اب فحاشی نے لی ہے ، حُسنِ سلوک کی جگہ اب بد سلوکی نے لی ہے ، عدل و انصاف کی جگہ اب ظلم و زیادتی نے لی ہے، ذکر اذکار کی جگہ اب رقص و سرور نے لی ہے اور دینداری کی جگہ الحاد ہڑپ رہا ہے اور اس سے بڑھ کر قابل فکر بات یہ ہے کہ مادی آسائشوں کی بھرمار کے باوجودبھی معاشرہ میں نہ امن و امان قائم ہے اور نہ فرد کو ہی ذہنی سکون فراہم ہوتا دکھائی دے رہا ہے بلکہ معاشرہ روز بروز افرا تفری سے دوچار ہو رہا ہے اور فرد بھی ذہنی انتشار میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ حالات اب اس قدر ابتر ہو چکے ہیں کہ معاشرتی بگاڑ سے متعلق فکرمند لوگ چاہ کر بھی بہتری کی راہ استوار کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔
دنیا کے گلوبل ولیج بننے سے آج کا ہر فرد پورے عالم میں موجود شر انگیزیوں سے باخبر ہو کر اثر انداز ہو رہا ہے اور اس صورتحال میں افراد سازی کا کام ادارہ جاتی انحصار تک محدود رکھنا بھی کوئی دانشمندی کی بات نہیں ۔ دور حاضر کا تقاضہ یہ ہے کہ افراد سازی کو اجتماعی ذمہ داری مان کر ہر سطح پر کوشش کی جائے اورمعاشرے کی باگ دوڑ سنبھالنے والے ، انتظامی امور سنبھالنے والے ، معاشی معاملات سنبھالنے والے ، تعلیمی فرائض انجام دینے والے،وعظ و تبلیغ کرنے والے، ادبی تخلیق و تنقید والے، خاندانی ذمہ داران، محلہ جات کے ذمہ داران، الغرض معاشرے کی تمام تر اکائیاں ایک جٹ ہو کر اس پیچیدہ معاملے کو سُلجھانے پر متفق ہو کر مطلوبہ معاشرے کے لیے افراد سازی کا کام سرانجام دیں ۔
اگر ایسا نہیں ہواتو معاشرے کو بہتر بنانے کے لئےکوشاں لوگ انفرادی سطح پر اپنی کوششوں میں ناکام ہو کر ذہنی کوفت اور نا اُمیدی کی ایسی تاریکیوں میں گُم ہو جائیں گے جن کی کوئی سحر نہیں۔ جب بحیثیت ِ والدین آپ کے بچے معاشرتی بکھراؤ کی وجہ سے صحیح تربیت کے فقدان کا شکار ہو نگیں تو آپ مستقبل کی بدحالی اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر کس خوشحالی کے منتظر رہ سکتے ہیں، جب آپ بحیثیت ِ اُستاد آنے والی نسلوں کی تربیت سے متعلق والدین اور سماج کو غیر ذمہ داری کا شکار پاتے ہیں تو آپ قوم وملت کا آنے والاکل تاریک دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں، جب آپ بحیثیت ِ پیشوا اپنی قوم کو صحیح اور سیدھی راہ کی اورگامزن ہونے پر آمادہ نہیں پاتے تو آپ دل برداشتہ ہوکر مایوس ہوتے ہیں، جب آپ بحیثیت ِ تاجر رزقِ حلال پر اکتفاء کا فقدان پاتے ہیں تو آپ کی قوتِ ارادی متاثر ہوتی ہے، الغرض معاشرے کی بدحالی سے معاشرے کےتمام لوگ متاثر ہو ہی جاتے ہیں اور اسی لئے تعمیرِ معاشرہ لوگوں کی ملی ذمہ داری ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس ملی ذمہ داری کو بحسنِ خوبی انجام دینے کے لئے اجتماعی طور کیا حکمتِ عملی اپنائی جائے، جس سے خوشحال معاشرے کیلئے افراد سازی کی ہمہ جہت کوشش بارآور ہونے کے قوی امکانات سامنے آ جائیں ؟اگرچہ مطلوبہ حکمتِ عملیاں متعدد ہوسکتی ہیں تاہم ایک نقطۂ نظر کے مطابق موجودہ حقوق طلبی کا رجحان ادائیگئ فرائض کے رجحان میں تبدیل کرنے کی حکمتِ عملی سب سےزیادہ ثمر آور ہوسکتی ہے۔کیونکہ دورِ حاضر کی معاشرتی بدحالی کی سب سے اہم وجہ یہی رجحانِ حقوق طلبی ہے۔ آج جہاں بھی نظر دوڑاؤ حق و انصاف کی دُہائیاں دیتے ہوئے لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ والدین اپنے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں، اولاد اپنے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں، مرد اپنے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں، عورتیں اپنے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں، حاکم اپنے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں،محکوم اپنے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں،غریب اپنے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں،امیر اپنے حقوق کی دہائی دے رہے ہیں،تو کیا ایسا معاشرہ خوشحال ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے جہاں حقدار کو حق مانگنے کی ضرورت پڑے۔ مثالی معاشرے میں حقدار کی حق ادائی بِن مانگے ہونی چاہیے۔ معاشرے کی خوشحالی اور بدحالی کا دارومدار معاشرے میں موجود لوگوں کے حقوق کی پاسداری پر ہی ہوتا ہےاور حقوق کی پاسداری یا ادائیگی کا سب سے افضل طریقہ کار حقوق و فرائض کی باہمی نسبت کو بھانپ کر فرائض کی ادائیگی سے حقوق ادا کرنا ہے۔
اگرچہ دنیا میں موجودہ و سابقہ تہذیبوں کے مثالی معاشرہ سے متعلق نظریات متعدد ہیں تاہم متذکرہ بالا نقطۂ نظر کے ماخذ اسلامی نظامِ معاشرہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے حقوق و فرائض کا ایساباہم پیوست نظام فراہم کیا،جس میں حقوق و فرائض میں ایک واضع نسبت موجود ہے۔ جیسے اولاد کے تئیں والدین کے فرائض اولاد کے حقوق کی ادائیگی ازخود پورا کرتے ہیں، والدین کے تئیں اولاد کے فرائض والدین کے حقوق پورا کرتے ہیں۔ اسی طرح حاکم کے فرائض محکوم کے حقوق،محکوم کے فرائض حاکم کے حقوق، امیر کے فرائض غریب کے حقوق، غریب کے فرائض امیر کے حقوق، بڑوں کے فرائض چھوٹوں کے حقوق اور چھوٹوں کے فرائض بڑوں کے حقوق، شوہر کے فرائض بیوی کے حقوق اور بیوی کے فرائض شوہر کے حقوق پورا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی صالح معاشرے کو قائم کرنے میں حقوق طلبی کا کوئی رول ہی نہیں بلکہ ادائیگئ فرائض پر زور ہے۔ صالح معاشرے میں حاکم کو اپنے فرائض کی انجام دہی کا حکم دے کر محکوم کے حقوق کی ادائیگی کرائی جا رہی ہے، والدین کو فرائض کی انجام دہی کا حکم دے کر اولاد کے حقوق پورے کرائے جا رہے ہیں، امیر کو اپنے فرائض کی انجام دہی کا حکم دے کر غریب کے حقوق ادا کرائے جا رہے ہیں۔ فطری داعیات پر مشتمل یہ نظام ہی ہمہ جہت افراد سازی کر کے معاشی خوشحالی،اخلاقی بلندی اور سیاسی استحکام والا معاشرہ تعمیر کرسکتا ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں موجودہ معاشرتی بدحالی سے بچنا مقصود ہے تو افراد سازی کی بنیاد یہی حقوق و فرائض کا باہم پیوست نظام بنانے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔
(رابطہ۔7006174615)
[email protected]