لڑکی کی شادی کیلئے سامان و غیرہ خریدنے کے لئے کو ئی روپیہ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ سخت پریشان تھااورکو ئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ اِس لئے بھی پریشان تھا کہ بڑی مشکل سے غریب لڑکی کے لئے کوئی لڑکا اور اُس کے والدین شادی کے لئے راضی ہو گئے تھے۔
وہ اکثر دیکھتا تھا کہ درس گاہوں کے سفیر حضرات چندہ اکھٹا کرنے کے لئے جگہ جگہ پھر کرتے ہیں۔تعمیر ِ مسجد ۔درس گاہ اور مسجدکے لئے اضافی کمرے تعمیر کرنے کے لئے لوگوں سے چند مانگتے ہیں اور لوگ بڑھ بڑھ کر دیتے ہیں۔ کافی سوچ بچار کے بعد اُس نے فیصلہ کیا کیوں نہ وہ بھی مسجد شریف کے نام لوگوں کے سامنے دامن پھیلانے اور چندہ جمع کرے۔ چنانچہ وہ ’تعمیر ِ مسجد تعمیر ِ مسجد‘۔۔۔ کی صدا دیتا گیا۔کسی نے پانچ تو کسی نے دس اور کسی نے پچاس روپے دیئے۔دِن میں جتنے روپے جمع ہوئے اُس نے اُن سے دُلہن کے لئے ایک سوٹ سِلوایا۔دوسرے روز اسی طرح کچھ روپے جمع کئے تو دوسرا سوٹ خریدا۔اِسی دوران چندہ دینے والوں میں سے کسی نے پوچھا یہ مسجد کہاں بن رہی ہے۔’بس پاس میں ہی بن رہی ہے‘ اِس نے جواب دِیا۔کسی نے چندہ کی رسید مانگی تو یہ بولا ’مقامی پرنٹنگ پریس والے کے پاس بہت رش ہے وہ رسید بُک 15تاریخ کو دے گا‘۔اب لوگوں کو اِس کی ایمانداری اور کارکردگی پر شک ہونے لگا اور وہ چہ میگوئیاں کرنے لگے ’’یہ کوئی فراڈ لگ رہا ہے، ایسے ہی بناوٹی نمازیں پڑھتا ہے۔‘‘ایک نے کہا’’اِس کو کوئی چندہ نہ دو، نہ مسجد کا پتہ ،نہ رسید نہ کُچھ ، گڑبڑ لگتی ہے۔ایسے ہی لوگوں نے اسلام اور دین کو بدنام کیا ہے۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔
15تا ریخ کو دُلہن کی رُخصتی تھی۔وہ چندہ جمع کرتا گیا ۔تیسرے روز کی جمع پونجی سے دُولہے کے لئے شلوار قمیض،چوتھے دِن اس کے لئے بوٹ اورپانچویں دِن دُلہن کے لئے دو چپل خریدے۔ شادی سے ایک روز قبل جو پیسے جمع ہوگئے اُن سے اُس نے بارات کے لئے کھانے پینے کی اشیاء خرید لیں۔ بارات کے ساتھ چند لوگ آئے ۔ 15تاریخ کو جمعتہ الوداع بھی تھا۔ مسجد کے پچھواڑے چھوٹے سے گھر کے باہر دلہا چند باراتیوں کے ساتھ واپسی کی تیاری کررہاتھا کہ امام صاحب اور نمازی جن میں غلام رسول بھی تھا مسجد سے باہر نِکل رہے تھے۔ اتنے میں رام داس نے اپنی دُلہن بنی بیٹی کو کہاکہ ’ بیٹی! جائو اپنے چچا غلام رسول سے آشرواد لو۔‘ یہ دیکھ کر سبھی لوگ اُس کی طرف کنکھیوں سے دیکھنے لگے۔ نہ جانے وہ کیا سوچ رہے تھے۔ اِدھر اُدھر پُوچھنے پر جب اُن کو پتہ چلا کہ یہ رام داس کی بیٹی کی شادی تھی اور آج 15تاریخ ہے اور یہ چندہ اسی کے لئے جمع کیا جا رہا تھا۔اِن کو اپنی نادانی اور بے وقو فی پر ندامت ہو رہی تھی۔اُن کے منھ سے کو ئی بات نہیں نکل رہی تھی ۔
امام صاحب کو جب یہ معلوم ہوا تو آگے بڑھ کر غلام رسول کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ آپ واقعہ غلام رسول ہو۔ کسی کا گھر بسانا بھی خدا کا گھر بنانے کے برابر ہے۔ آپ نے غیر مسلم نادار ہریجن لڑکی کے لئے وہ کچھ کر دیکھا، جس کی کوئی مثا ل نہیں اور وہ بھی بغیر کسی دکھاوے کے۔ اللہ تجھے اس کا اجرد یگا اب ہر ایک غلام رسول کی تعریف پہ تعریف کر رہا تھا مگر وہ بالکل خاموش کھڑا تھا اُس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک رہے تھے۔
���
جموں
موبائل نمبر؛8825051001