وادیٔ کشمیر کے بڈی گام امام صاحب شوپیان میں محض 36؍گھنٹے قبلمسلح جدوجہد شامل ہونے کے بعد جان بحق ہونے والے کشمیر یونیورسٹی سرینگر کے شعبہ سوشالوجی ( سماجیات) میں32؍ سالہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ ولد عبدالرحیم ساکن ژھندن گاندربل کشمیر کاز میں ایک منفرد مثال ہے۔ پروفیسر محمد رفیع بٹ کی حز ب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر نے سے وہ حلقے ہل کر رہ گئے جو کشمیر کی تحریک کو کسی معاشی یا اقتصادی محرومی کا نتیجہ سمجھتے ہیں یا جو کسی اکنامک پیکج کو ہی مسئلے کا حل قرار دیتے ہیں۔پروفیسر رفیع صاحب یونیورسٹی میں لیکچر دینے کے بعد کیمپس سے لاپتہ ہوگئے اور کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ چند گھنٹوں کے مہمان ہیں۔سوشالوجی میں پی ایچ پی ڈی کرنے کے بعد محمد رفیع کشمیر یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات ہوئے اور شادی شدہ تھے۔ان کے سنجیدہ مزاج اور اونچے خیالات سے دوست و احباب واقف تھے مگر کوئی نہ جانتا تھا کہ وہ اپنے مشن کو فوقیت دینے میں کوئی پس وپیش نہ کریں گے ۔پروفیسر صاحب کی خون سے لت پت لاش جب شوپیاں سے گاندربل ان کے گھر لائی گئی، تو ہزاروں افراد نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ ان کی نماز جنازہ کئی بار ادا کی گئی۔ بتایا جاتاہے کہپروفیسر صاحب کے دو قریبی رشتہ دار بہت پہلے فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے دوران حیات ابدی پاچکے ہیں۔ڈاکٹر محمد رفیع بٹ نے شوپیان جھڑپ کے دوران اپنے والد کو آخری مرتبہ فون کرکے معافی مانگی اور کچھ ہی دیر بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے کے بعدپروفیسر رفیعنے اپنے والد گرامی کوپہلی کال کی۔ان کے والد نے کہا کہ اتوار علی الصبح فون کی گھنٹی بجی اور رفیع بات کرنے لگا، کہا ’’مجھے بے حد افسوس ہے کہ میں نے آپ کادل دکھایا،یہ میری آخری کال ہے، میں اللہ سے ملنے جارہا ہوں‘‘۔ ڈاکٹر محمد رفیع اپنے پیچھے والد، والدہ، بڑا بھائی امتیاز احمداور اہلیہ چھوڑگئے ہیں۔وہ بچپن سے ہی اسلامی طرز زندگی کے حاملتھے۔پانچ سال قبل ان کی لال بازار سرینگر میں شادی ہوئی لیکنان کے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی۔ بڈی گام میں جب وہ دیگر ساتھیوں سمیت فورسز کے نرغے میں آئے توپولیس نے پروفیسر موصوف کے اہل خانہ کو اپنے فرزند کو سرینڈر کر نے پر آمادہ کر نے کے لئے کہا ۔ ان کے والد فیاض احمد اور بہن بھی گاندربل سے70؍کلو میٹر دور شوپیان کے لئے نکلیںمگر جوں ہی یہ لوگ اپنے گھر سے 14کلومیٹر کی مسافت طے کر چکے تھے ، انہیں اطلاع ملی کہ ان کا بیٹا شوپیان معرکے آرائی میں کام آگئے ہیں۔پروفیسر صاحب کی فیس بک پروفائل میں سب سے پہلے انسان ، پھر مسلمان کا فقرہ درج ہے۔انہوں نے18 اپریل 2018کو لکھا کہ جب اختلاف کے اظہار کے تمام پرامن راستے بند کربندکئے جائیں تو اس کے بعد مدمقابل کے خلاف اپنا دفاعہی باقی بچتا ہے۔ بڈی گام میں مظاہرین کو فورسز نے حسب ِ معمول گولیوں کا نشانہ بنایا ۔ جھڑپ میں مظاہرین اور فورسز میں جم کر تصادم آرائی ہوئی اور 5مظاہرین کی زندگی کا چراغ گل ہونے پر جھڑپ اختتام پذیر ہوئی۔ اس موقع پر فورسز کی اندھا دھند فائرنگ سے 130؍شہری زخمی ہوئے ،جن میں سے 5اللہ کو پیارے ہو گئے۔ان میں 16؍سالہ دسویں جماعت کا طالب علم زبیر احمد ننگر ساکن آئین گنڈ راجپورہ پلوامہ شامل تھے۔ان کی لاش جب آبائی گھر لائی گئی تو لوگوں کا سمندر امڈ آیا۔ پلوامہ کے ہی ایک اور گائوں رہمو کا 18؍سالہ طالب علم آصف احمد میر ہائر سکنڈری سکول رہمو میں زیر تعلیم تھا۔ تیسرا شہری آری ہل پلوامہ کا تھا۔نثار احمد کماراس وقت فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنا جب مظاہرین نے چلی پورہ اچھن میں قائم فورسز کیمپ پر پتھرائو کیا ، جواب میں فورسز نے اندھا دھند گولیاںچلائیں۔نثار احمد نے دسویں تک تعلیم حاصل کی تھی۔چوتھا شہری 20سالہ نوجوان سجاد احمد راتھر ساکن سہہ پورہ ڈورو تھے۔انہوںنے بڈی گام جھڑپ کے دوران مظاہروں میں شامل ہوکر احتجاج کیا۔ان کے والدین گذشتہ کئی سال سیعلیل ہیں اور اُن پر کافی گھریلو ذمہ داریاں عائد تھیں۔سجاد کے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ جان بحق ہوئے 5شہریوں میں سب سے بڑے کی عمر 28سال تھی۔عادل احمد گنائی ساکن مہا گنڈ اشموجی کولگام کا ایک بھائی پولیس میں ملازمت کرتا ہے۔عادل تین سال قبل سی آر پی ایف میں بھرتی ہوا لیکن دوران تربیت ہی نوکری چھوڑ دی۔ گھرواپس آکر ایک پرائیویٹ سکول میںتدریسی خدمات انجام دینا شروع کیں۔ اس کے علاوہ عادل اشموجی اور بھان میں صبح و شام درس گاہوں میں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے تھے اوراپنے گائوں میں وقتاً فوقتاً امامت کے فرائض بھی انجام دیتے۔انہوں نے گریجویشن کی تھی۔ کشمیر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور اچھا روزگار رکھنے والے بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کا باشعور نوجوان دیکھ رہاہے کہ تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے مطالبے کو تسلیم کرنے کے بجائے بندوق کی نوک پر اور بشری حقوق کی پامالیوں کے ذریعے عوام کی دلی آواز کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس پوزیشن کو کشمیری قوم خاص طور پر آج کا تعلیم یافتہ اور بر سرروزگار نوجوان تسلیم کرنے کو ہر گز تیار نہیں۔ وہ عملی طوریہ تاثر مٹا رہے ہیں کہ کشمیری ناخواندگی ، بے روزگاری ، کسی دنیوی فائدے کی خاطر ،کسی مراعات کے لئے بندوق اٹھا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کشمیریوں کی جدوجہد کو اس تناظر میں دیکھے جو زمینی حقیقتوں سے میل کھاتاہے۔ خاص کر بھارت کے انصاف پسند اور امن پرور عوام کو کشمیر کے تعلق سے اپنے حکمرانوں کے گمراہ کن اور بے بیناد موقف کو نکارتے ہوئے کشمیر کے دکھ درد کی اصل وجہ جاننی چاہیے تاکہ برصغیر کا یہ اہم ترین حل طلب مسئلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تینوں فریقوں کے باہمی صلح سمجھوتے سے حل ہو ۔