مختار احمد قریشی
جب ہم کسی ترقی یافتہ اور روشن معاشرے کا تصور کرتے ہیں، تو اُس کے پسِ منظر میں ایک تعلیم یافتہ، باشعور اور باوقار عورت کی تصویر ضرور ابھرتی ہے۔ عورت معاشرے کی آدھی نہیں بلکہ پوری طاقت ہے، کیونکہ وہ صرف گھر نہیں سنبھالتی، بلکہ نسلوں کی پرورش اور معاشرتی اقدار کی آبیاری بھی کرتی ہے۔ ماضی میں عورت کو تعلیم سے محروم رکھنا ایک عام روش تھی۔ لیکن جیسے جیسے شعور بڑھا اور دنیا نے ترقی کی راہ اپنائی، عورت کی تعلیم کو بھی اہمیت دی جانے لگی۔ آج کا دور اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر عورت تعلیم یافتہ ہو، خودمختار ہو اور معاشرے میں مؤثر کردار ادا کرے۔
تعلیم عورت کو صرف علم ہی نہیں دیتی بلکہ اسے سوچنے، فیصلہ کرنے اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے حقوق سے واقف ہوتی ہے،دوسروں کے حقوق کا احترام کرتی ہےاوربہتر والدہ، بہتر بیوی، بہتر بہن اور بہتر بیٹی ثابت ہوتی ہے۔تعلیم یافتہ ماںایک نسل کی معمارہوتی ہے۔ماں ہی بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو وہ بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کرتی ہے۔ تعلیم یافتہ عورت خود اعتمادہوتی ہے، اپنی بات اعتماد سے کہہ سکتی ہے، اچھافیصلہ لے سکتی ہے اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
دینی نقطۂ نظر:اسلام نے تعلیم کو ہر مرد و عورت پر فرض قرار دیا ہے۔ حضرت عائشہؓ، حضرت فاطمہ الزہراؓ اور دیگر عظیم خواتینِ اسلام، علم و حکمت کا بہترین نمونہ تھیں۔ اسلام نے عورت کو عزت، وقار اور تعلیم کا حق دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس تعلیم کو عام کریں۔جبکہ آج کے دور میں عورت کا تعلیم یافتہ ہونا صرف ایک خواہش نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، بدلتے معاشرتی رویے اور معاشی چیلنجز تقاضا کرتے ہیں کہ عورت علم سے آراستہ ہو، تاکہ وہ اپنے، اپنے خاندان اور اپنے ملک کے لیے بہتر فیصلے کر سکے۔مگربدقسمتی سے کچھ علاقوں میں آج بھی لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے۔ معاشرتی دباؤ، غربت، جہالت اور دقیانوسی سوچیں اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان رکاوٹوں کو دور کریں اور ہر بچی کو تعلیم تک رسائی دیں۔
ظاہر ہے کہ ایک تعلیم یافتہ عورت صرف خود کی ترقی کا ذریعہ نہیں بنتی بلکہ پورے خاندان کے لیے نعمت بن جاتی ہے۔ وہ گھریلو معاملات کو بہتر طریقے سے چلاتی ہے، بچوں کی بہتر پرورش کرتی ہے، شوہر کی بہتر ساتھی بن جاتی ہے اور ہر فیصلے میں دانائی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ تعلیم اُسے نہ صرف الفاظ بلکہ برداشت، ہم آہنگی اور معاملہ فہمی بھی سکھاتی ہے۔
جب بیوی تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو وہ شوہر کی پریشانیوں کو بہتر سمجھ سکتی ہے۔ جب ماں تعلیم یافتہ ہو تو وہ بچوں کو صرف روایتی انداز میں نہیں بلکہ جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرتی ہے۔تعلیم یافتہ عورت معاشرے کی آنکھ ہوتی ہے۔ وہ معاشرتی مسائل کو پہچانتی ہے، ان کے حل تلاش کرتی ہے اور اصلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ تعلیم اسے بہادری اور خوداعتمادی عطا کرتی ہے، جس کے ذریعے وہ ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ کشمیر جیسے ثقافتی لحاظ سے زرخیز علاقے میں عورت ہمیشہ سے عزت اور مقام کی علامت رہی ہے، مگر جب اس کو تعلیم ملی تو اس کے کردار میں مزید نکھار آیا۔ اب وہ صرف خاموش مشاہدہ نہیں کرتی بلکہ معاشرتی تبدیلی کی علمبردار بن چکی ہے۔
ایک تعلیم یافتہ عورت اپنی اور اپنے خاندان کی صحت کا خیال رکھتی ہے۔ وہ صفائی ستھرائی، متوازن غذا، بچوں کی ویکسینیشن اور طبّی معائنے کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ ایسی عورت غیر سائنسی اور غیر ضروری رسومات سے بچتی ہے اور دوسروں کو بھی شعور دیتی ہے۔دیہی علاقوں میں جہاں خواتین تعلیم سے محروم ہیں، وہاں بچوں کی شرح اموات زیادہ اور خواتین کی صحت کمزور پائی جاتی ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو صحت مند معاشرہ تعمیر کرتی ہے۔ہمیں نوجوان لڑکیوں کو یہی پیغام دینا چاہئے کہ تعلیم تمہارا زیور ہے، طاقت ہے اور تحفظ بھی۔تعلیم کی طاقت تمہیں وہاں لے جا سکتی ہے جہاں تمہارے خواب بھی نہ پہنچے ہوں۔ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کو اولین ترجیح دیں۔دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بچیوں کے لیے تعلیمی سہولیات مہیا کریں۔لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف فرسودہ روایات کا خاتمہ کریں۔تعلیم یافتہ خواتین کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ دوسرے لوگوں کے لیے نمونہ بن سکیں۔
بے شک جب عورت علم کے زیور سے آراستہ ہوتی ہے تو وہ نہ صرف اپنی ذات کو نکھارتی ہے بلکہ قیادت کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اسکولوں کی پرنسپل، یونیورسٹیوں کی پروفیسر، اسپتالوں کی ماہر ڈاکٹر اور دفاتر کی بااختیار منتظم بن جاتی ہے۔ہندوستان کی بہت سی ریاستوں میں، یہاں تک کہ وادی کشمیر میں بھی آج تعلیم یافتہ خواتین پنچایتوں، بلدیاتی اداروں اور سرکاری دفاتر میں قائدانہ مقام پر فائز ہیں۔یہ صرف تعلیم کا ہی نتیجہ ہے کہ عورت آج فیصلہ ساز اداروں کا حصہ ہے اور ملک و ملت کی تقدیر بدلنے میں شریک ہے۔ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے ثقافتی ورثے کی امین ہوتی ہے۔ وہ روایات کو نہ صرف محفوظ کرتی ہے بلکہ انہیں نئے دور کے تقاضوں کے مطابق پیش بھی کرتی ہے۔
کشمیری عورت کا ہنر — کڑھائی، دستکاری، گیت اور ادب — جب تعلیم سے جُڑ جاتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر پہنچتا ہے۔ تعلیم اسے اظہار کا سلیقہ دیتی ہے، اپنی زبان، لباس اور تہذیب کونئی نسل تک منتقل کرنے کی قابلیت عطا کرتی ہے۔
تعلیم عورت کو اپنے حقوق کا شعور دیتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ عورت جانتی ہے کہ اُسے وراثت، تعلیم، ملازمت، رائے دہی اور عزت نفس کا پورا حق حاصل ہے۔وہ قانون کو جانتی ہے اور اگر کسی ناانصافی کا سامنا ہو تو خاموش نہیں رہتی بلکہ قانونی طریقے سے اس کا حل تلاش کرتی ہے۔ یہی تعلیم کی طاقت ہے — کہ عورت خود اپنے لیے آواز بن سکے۔
ایک تعلیم یافتہ عورت صرف بچوں کی ماں ہی نہیں بلکہ سماج کی معلمہ بھی ہوتی ہے۔ وہ ہم عمر لڑکیوں کو مشورہ دیتی ہے، نوجوان لڑکوں کو تمیز اور تربیت سکھاتی ہے اور پورے معاشرے کے مزاج کو سنوارنے میں مدد دیتی ہے۔اس کی زبان میں نرمی ہوتی ہے، لیکن باتوں میں وزن۔ وہ بزرگوں کے احترام سے لے کر بچوں کی تربیت اور ہر نسل کو جوڑنے کا ذریعہ ہوتی ہے۔تعلیم یافتہ عورت کے بغیر ترقی ادھوری ہے۔ہم جتنی مرضی سڑکیں بنائیں، کارخانے کھولیں یا ٹیکنالوجی لائیں ۔اگر عورت تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو یہ سب ترقی نامکمل رہے گی۔ کیونکہ تعلیم عورت کو باوقار بناتی ہے،باوقار عورت خاندان کو سنوارتی ہےاور بااخلاق معاشرہ ہی اصل ترقی ہے۔ یاد رہے کہ وادی کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کی خواتین ہمیشہ باشعور، ہنر مند اور باعزت رہی ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہم آج کی ہر لڑکی کو تعلیم دیں تاکہ کل وہ بھی ایسی ہی روشن شمع بن کے رہ سکے۔
( مضمون نگار پیشہ سےایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
[email protected]