بلا شبہ وادیٔ کشمیر میں حصول ِتعلیم کے بعد، زیادہ تر تعلیمیافتہ ،ذہین اور قابل نوجوانوں کے لئے روز گار کے مواقع نایاب ہوچکے ہیں اور عرصۂ دراز سے چلی آرہی یہ صورت حال یہاں کے لوگوں کی معیشتی پستی اوراقتصادی بد حالی کا باعث بن گئی ہے۔جس کے نتیجے میں ان نوجوانوں کو معاشرے میں مختلف قسم کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےاور ان کا مستقبل بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ جہاںبیشتر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اہلیت اورذہانت ضائع ہوگئی ہے وہیں اب وہ عمر کے اُس پڑائو میں داخل ہوگئےہیں ،جو اُن کی نوکریوں کے حصول کے قابل بھی نہیں رہی ہےاور ساتھ ہی بے روزگاری کے سبب اُن کی شادیاں بھی نہیں ہورہی ہیں۔چنانچہ تین چار دہائی قبل ہمارے معاشرے میں یہ بات زبان زَد عام تھی کہ اچھی تعلیمی ڈگری ہی اچھے روزگار کی ضمانت ہوتی تھی، لیکن اب یہ بات بھی قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ مراعات یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم طبقہ ہی اپنی اولاد کو وہ تعلیمی ڈگریاں دلوا سکتے، جس سے وہ معاشی طور پر محفوظ رہتے تھے۔ اسکے برعکس آج اگر طالب علم میں ذہانت، محنت کی لگن اور صلاحیتیں بھی ہوں تو وہ اُس کے بہترروزگار کے حصول کے لئےکسی کام نہیں آتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اپنے وسائل کے مطابق تعلیم دلوانے کے باوجود آج کے زیادہ تروالدین کی اولادیں بے روزگار ہیں۔یہ بات بھی سچ ہے کہ یہاں کی وقت وقت کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور مفاد پرستانہ طرزِ عمل سے جہاں بہت سارے نااہل ، کم تعلیم یافتہ یہاں تک کہ اَنپڑھ لوگ مختلف سرکاری شعبوں میں کام کررہے ہیں اور معقول تنخواہیں وصول کررہے ہیں،وہیںزیادہ تر حقداراور اہل لوگوں کو مقررہ وقت پر نوکریاں حاصل نہ ہوسکیںاور پھر سالانہ فارغ التحصیل ،تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے اب نوکریوں کا حصول ممکن ہی نہیںرہاہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے نوکری حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے متراد ف بن گیا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہےکہ ہمارے یہاں ٹیکنیکل تعلیم کواتنی اہمیت نہیں دی گئی ، جتنی کہ ضرورت تھی۔جبکہ بیشترلوگ ا س وقت بھی اپنے بچوں کے لئے ہنر مندانہ تعلیم کا حصول اچھا نہیں سمجھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ دوران تعلیم معاشرے کے نوجوانوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق کوئی ہُنر یا ٹیکنیکل ایجوکیشن حاصل کرلی ہوتی تو شائد اُنہیں اتنی پریشانیوں کو سامنا نہ کرنا پڑتا۔ٹیکنیکل تعلیم جسے ووکیشنل تعلیم بھی کہا جاتا ہے، کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی میں بڑی حیثیت رکھتی ہےاور کسی بھی ملک میںٹیکنیکل تعلیم یا مہارتوں کے مطابق روزگار کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ٹیکنیکل بنیادوں پر مبنی تعلیم کے متعدد فائدے ہیں ۔ اوّل یہ کہ ایسے ادارے طلبا کو ڈپلوما سرٹیفکیٹ ملنے تک مکمل طور پر تجربہ کار بنا چکے ہوتے ہیں اور انہیں انٹرن شپ کے نام پر کمپنیوں میں ڈگری کے باوجود بلامعاوضہ محنت نہیں کرنا پڑتی اور وہ اپنے کاروبار یا نوکری دونوں کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی تعلیمی میعاد اور فیس بھی عام اداروں سے کم ہوتی ہے۔ اگر کوئی طالب علم بیرون ریاست یادوسرے ملک میں بھی کام کرنا چاہتا ہے تو ایسے ہُنر مند تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بیرون ریاست یا بیرونِ ملک بھی روزگار کے مواقع موجود ہیں۔خصوصاًہیلتھ سائنسز، بائیو میڈیکل ٹیکنیشن، فارمیسی، لیب ٹیکنیشن، نرسنگ (ایل، ایچ، وی)، فارمیسی، مڈوائفری، ٹیکنیکل، فیشن انڈسٹری، کاسمیٹکس، لیدر اینڈ گارمنٹس انڈسٹری، الیکٹریکل ریپئیر، آرٹس اینڈ کرافٹس، مینوفیکچرنگ وغیرہ، وہ ٹیکنیکل ہنر ہیں جو سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کے بعد روزگار کےپُرکشش مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے اشدضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے معاشرے کے والدین اپنے زیر تعلیم بچوں کو ٹیکنیکل تعلیم سے بھی آراستہ کرائیںتاکہ وہ ہُنر مند تعلیم و تربیت کے بلبوتے پر آگے بڑھیںاور روزگار کے حصول کا محتاج نہ رہیں۔حکومت کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں میں مستقل بنیاد پر ہُنر مندانہ تعلیم و تربیت کا سلسلہ رائج کرائیں تاکہ طلاب کوحصول تعلیم کے دوران ہی پیشہ ورانہ تعلیم کی اہلیت حاصل ہوسکےاور حصول تعلیم کے بعد اُنہیں روزگار کی تلاش میں اُس حالت ِزار کا سامنا نہ کرنا پڑے،جس حالت ِ زار کا شکارآج کےتعلیم یافتہ نوجوان ہوچکے ہیں۔