ڈاکٹرامتیازعبدالقادر
نطشےؔ(1844-1900)نے لکھا ہے کہ ’بہشت ہمیشہ وہاںہوتی ہے،جہاںعلم ودانش کے درخت ہوں‘۔اسلام نے انسان کی امتیازی خصوصیات میںعلم کوشمارکیاہے۔ علم کوویسے خیر نہیںٹھہرایا جاسکتا بلکہ اس کانافع ہونا، اس کے باعث ِ خیرہونے کے لئے لازم ہے۔ نافع ہونے کی صفت کااطلاق انسانی زندگی کے ہرپہلو پرکیاجاسکتاہے۔ انسان کی مادی منفعت بھی مطلوب ہے اوراس کے اخلاقی وروحانی ارتقاء میں ممدمعلومات درکارہیں۔تعلیم کاایک اہم مقصدشخصیت کی تعمیرہے۔ موجودہ غالب نظام تعلیم پرجورجحان چھایاہواہے ،وہ یہ ہے کہ طلباء کوکارگر ’انسان‘ بنایاجائے۔جوکسی کمپنی یاادارے کااچھا پُرزہ ثابت ہوسکیں۔ بسااوقات انسان کی ہمہ گیرشخصیت کابھی تذکرہ ہوتاہے لیکن اس تذکرے کامقصد صرف اتناہے کہ متعلق شخص ایک اچھا استاد،انجینئر، منیجر،ڈاکٹر اورکاروباری ثابت ہوتا کہ وہ ایک اچھے پرزے (Tool)کی حیثیت سے کمپنی یاادارے کے لئے زیادہ عرصے تک کارآمد ثابت ہو۔ جامع شخصیت کے اس تصورمیں اخلاقی قدریں بطورمقصود داخل نہیں ہیںاور نہ حقیقی روحانی ارتقاء کے امکان کوتسلیم کیاگیاہے۔ طلباء اپنے گردوپیش کے ماحول میں جن’’ انسانی نمونوں‘‘کودیکھتے ہیں اورجن سے متاثرہوتے ہیں،اکثریت مادہ پرستی میںغرق نظرآتے ہیں۔
برصغیر میںعموماً تعلیمی نظام دوبڑے حصوں میںتقسیم کیاگیاہے،دینی مدارس اورمروجہ تعلیم کی درسگاہیں(سکول تایونیورسٹی)۔دینی مدارس تقلیدی اصول پرقائم ہیں جوکہ ایک بڑی خرابی ہے۔ ان میںایک بات پتھرکی لکیر کے طورطے کی گئی ہے کہ حنفی ہمیشہ حنفی رہے اوراہل حدیث کوہرحال میںاہل حدیث ہی رہناہے۔ اپنے دائرے سے باہرکے اہل علم کی کسی تحقیق اور رائے کے بارے میںیہ تصوربھی ان کے ہاں ممنوعات میںسے ہے کہ وہ صحیح ہوسکتی ہے۔ مذہب ابوحنیفہ ؒ کاکوئی پیروائمہ محدثین کے کسی مسلک کواورائمہ محدثین کے طریقے پرعمل پیرا کوئی شخص مذہب ابوحنیفہؒ کے کسی نقطۂ نظر کوکبھی ترجیح دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا،گویا کہ ایک دوسرے کی فکروتحقیق شجر ممنوعہ ہے،جس سے استفادہ کرکے ہی مستفاد’راندۂ درگاہ‘ ہوجاتاہے۔ ہرمکتب فکر مُصرہے کہ اُس کا مسلک یامذہب ہراعتبارسے’ اوفق بالقرآن والسّنہ ‘ہے اوراُس پر اب کسی نظرثانی یااجتہاد کی ضرورت نہیں ہے۔کوئی یہ ماننے کے لئے تیارہی نہیں کہ اُن کے اکابر کی کوئی رائے یاتحقیق خطابھی ہوسکتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہم صبح وشام دیکھتے ہیں کہ فرقہ بندی کاناسوراس ملت کے جسم میںرواںہے اوراختلاف ہمیشہ اتفاق پربھاری رہتاہے۔ تنقیص نے تنقید کی جگہ لے لی، منبر ہمہ وقت غضب سے کانپتا اورمحراب ہمیشہ ترش ابروہوتی ہے۔ بدقسمتی سے مسجدوں کے حدودملکوں کی سرحدیںبن گئی ہیں اوراُن میں رہنے والے ’’عابد،زاہد،متقین، مصلین،بندۂ خدا، اُمتی رسول ؐ‘‘ایک خداپرایمان رکھنے والے، قرآن کوآخری ہدایت نامہ تسلیم کرنے والے، محمدؐ کواپنا رہبرورہنما تسلیم کرنے والے، آپس میںکوئی تعلق قائم کرنے کے لئے تیارنہیںہیں۔ فقہی تعصّبات ،دین کی عصبیت پرغالب آگئے ہیں اوریہ لوگ بغیرکسی ترددکے ہرباطل کاساتھ دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔
دین میںجوحیثیت قرآن مجید کوحاصل ہے، وہ ان مدارس میںاسے کبھی حاصل نہیںہوسکی۔ قرآن اس زمین میںاللہ کی اتاری ہوئی میزان اورحق وباطل کے لئے فرقان ہے۔اُس کی اس حیثیت کاناگزیرتقاضا تھا کہ ان مدارس کے نصاب میںمحورومرکز کامقام اُسے ہی حاصل ہوتا۔ تدریس کی ابتدااُس کی تفہیم ومطالب سے کی جاتی اور اس کی انتہا بھی وہی قرارپاتا۔علم وفن کی ہروادی میںطلبہ اُسے ہاتھ میںلے کرنکلتے اور ہرمنزل اُس کی رہنمائی میںطے کی جاتی اورہرچیزکے ردوقبول میںآیاتِ بینات کوحکم تسلیم کیاجاتا۔ ایمان وعقیدہ کی ہربحث اُس سے شروع ہوکراُسی پرختم کردی جاتی۔ طلباء اس کے ہرلفظ پرمراقبہ کرتے اور ہرآیت پرڈیرہ ڈالتے۔ بقول کَسے’’طلباء کوبتایاجاتا کہ ابوحنیفہؒ ،شافعیؒ، بخاریؒ،مسلمؒ، اشعریؒ وماتریدی اورجنیدؒ وشبلیؒ ،سب پراس (قرآن) کی حکومت قائم ہے اوراس کے خلاف ان میںسے کسی کی کوئی چیزبھی قبول نہیںکی جاسکتی‘‘۔ اسلام میںقرآن مجیدکی یہی حیثیت ہے۔ یہی حیثیت اسے ان مدارس کے نظام میںحاصل ہونی چاہیے تھی لیکن ایںبساآرزوکہ خاک شُد! اول توطلبہ محض حفظ وقرأت کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں، بعدازاں جلالین وبیضاوی کے صفحات میںاُس کی کچھ زیار ت کرلیتے ہیں۔ حقیقی مقام مدارس میںقرآن کوکبھی نہیںدیاگیا۔قرآن مجید کے معاملے میںاس رویے کانتیجہ یہ ہے کہ فکروعمل کے لئے کوئی چیزاب حکم نہیںرہی ، علم اختلافات کی بھول بھلیاں میں سرگرداں ہیںاوروہ مناؤؤبع جہاںسے ہمیں روشنی مل سکتی تھی، خود تیرہ وتارہیں ۔بقول علامہ اقبال ؎
مکتب وملا واسرارکتاب کورمادرزادونورآفتاب
اصول کافن مسلمانوں کے لئے مایۂ افتخار ہے لیکن اس کے لئے بھی کوئی ایسی کتاب مدارس کے نظام میںشامل نہیںکی گئی جواجتہادی بصیرت پیداکرنے والی ہو۔ فلسفہ، نفسیات، علم الاقتصاد، علم الافلاک ،طبیعیات، علم السیاسہ اور اس طرح کے دوسرے فنون میںجوتحقیقات ہوئیں،وہ ابھی تک اس میںبارنہیںپاسکیں۔نئے علوم دنیا پرحکومت کررہی ہیں، دنیا نے گزشتہ دوصدیوں میںبہت کچھ مانااورماننے کے بعد اجتہاد کرکے اس کاانکاربھی کیالیکن یہ نہ اُس ماننے سے واقف ہوئے اورنہ اس انکارکی کوئی خبرانہیںابھی تک پہنچی ہے۔ا مام شافعیؒ کوان کے استاد امام وکیعؒ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’علم اللہ کانورہے‘۔یہ نورقرآن اورسائنس سے اخذکرنے کے ہم مسلمان سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ مدارس ومکاتب کے حاملین جامد نہ رہ کر متحرک وسیال نظام مرتب کریںتاکہ عظمت رفتہ پھرسے بحال ہو۔
اب مروجہ تعلیم کی درس گاہوں (سکول،کالج،یونیورسٹی )کی طرف آئیں۔ یہ جس نظام پرقائم ہیں، اس کی تعمیر بقول غالبؔ ’میری تعمیر میںمضمر ہے،اک صورت خرابی کی‘ پرمنحصرہے۔ اس کی بنیاد برصغیر کے برطانوی حکمرانوں نے رکھی۔اس نظام کابنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبارسے یہ ایک لادینی نظام ہے۔ اس کی بنا اس اصول پررکھی گئی ہے کہ عالم کاعقدہ کسی مابعدالطبیعیاتی اساس کے بغیربھی کھل سکتاہے۔ یہی اصول ہے جس پر مغرب میںفلسفہ، سائنس ،عمرانیات اوردوسرے علوم وفنون کاارتقاء پچھلی دوصدیوں میںہواہے اورجسے ابھی بھی مغربی فکرمیںاصل اصول کی حیثیت حاصل ہے۔چنانچہ اس کی تعلیم پانے والے بغیرکسی ترغیب ودعوت کے آپ اس نقطۂ نظر کے حامل بن جاتے ہیں کہ زندگی خداسے بے تعلق ہوکربھی بسرکی جاسکتی ہے اوردنیاکانظام اُس کی رہنمائی سے بے نیاز ہوکربھی چلایاجاسکتاہے۔ اس نظریے کے حامل تعلیم یافتہ توبنتے ہیں پرضروری نہیں وہ ’علم یافتہ‘بھی ہوں۔ ’تعلیم ‘ کے ذریعے وہ شکم کی تسکین کے قابل ہوتے ہیں لیکن روح کی غذایعنی ’علم ‘ سے اُن کادورکاواسطہ بھی نہیںہوتا۔ دماغ کی پرورش توہوتی ہے لیکن دل کی صحت کاان کواحساس نہیںرہتا۔ بدخلقی،کبرونخوت،کرپشن اورجعلسازی اس’تعلیم‘ کے ’ثمرات خبیثہ ‘ ہیں۔ اس چیز کی موجودگی میںان مدرسوں میںاخلاقیات کے اسباق، بقول ایک ناقدکے، ببول کے درختوں پرانگورکی بیل چڑھانے اورحکایت بادہ وجام سنانے کے بعد زم زم کے فضائل بیان کرنے سے جوکچھ حاصل ہوسکتاہے، وہی اس نصاب میں اخلاقیات یامذہب کاپیوند لگانے سے حاصل ہواہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال وہ لوگ ہیں، جنھیںعام اصطلاح میں’دانش ور‘کہاجاتاہے۔ان کی زبان اورقلم گواہی دیتاہے کہ حق وہی ہے جسے ائمہ مغرب حق قراردیں، اورقرآن کی تعبیر بھی اگراس’حق‘کے مطابق کردی جائے تواُسے ایک مقدس مذہبی کتاب کی حیثیت سے قابل احترام قراردیاجاسکتاہے۔ اُن کاوجودمجموعہ تضادات ہیں۔ایسی متضاد شخصیات ہمارے’ عجائب خانہ‘(کشمیر)میںبھی بکثرت ملیںگی۔ عجائب خانہ کے ہرنکڑ،ہرگلی ،دفتردفترایسے لوگوں نے ڈیراجمارکھاہے۔سکول،کالج ، یونیورسٹی کی راہ داری سے ہوتے ہوئے ،ہسپتال،تحصیل وضلع ترقیاتی کمشنردفاترسے گزرتے ہوئے سکریٹریٹ تک یہ وسیع وعریض شاہراہ پھیلی ہوئی ہے، جس پہ اکثرشکم پرستوںاورسگ پرستوں کی اجارہ داری ہے۔ آخرت کے وہ منکرنہیںہیں لیکن دنیا کی کچھ ناجائز لذتوں کوترک کرنے کے لئے بھی ان کادل آمادہ نہیںہوتا۔ رسول ؐ کووہ مانتے ہیں لیکن ان کے احکام انھیںاس دورمیں قابل عمل نظرنہیںآتے۔ قرآن کی تلاوت سے وہ اپنی مجلسوں کاآغازتوکرتے ہیںلیکن پادشاہ ارض وسما کے فرمان کواپنے دستور وقانون پر بالاتر قراردینا بھی انھیں گراںنہیںگزرتا ہے۔ان کی ہستی ایک آئینہ ہے، جس میںہم اس پیوند کاری کے نتائج بچشم سردیکھ سکتے اوران سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ا س نظام تعلیم نے اُن کا گلاگھونٹ دیاہے اورروح ِدین ان کے بدن سے نکال دی ہے۔ اس کے ساتھ انھیں اس سیرت وکردار سے بھی محروم کردیاہے جس کے بغیر کوئی قوم دنیا میںزندہ نہیںرہ سکتی۔پرانے زمانے میںگرچہ تعلیم کم تھی،پرشعورپختہ تھااوراب تعلیم عام ہے البتہ علم کی جویاخشک ہے۔شخصیت میںعاجزی نہ ہوتومعلومات میںاضافہ علم کونہیںبلکہ تکبرکوجنم دیتاہے۔
’ارباب حل وعقد‘ نصاب کی ترتیب کے و قت یہ بات کبھی پیش نظرنہیں رکھتے کہ تعلیمی ادارے صرف کتابیں پڑھادینے کے لئے قائم نہیں کئے جاتے ، ان کاایک بڑامقصد کسی قوم کے بنیادی نظریے کے مطابق اس کی آئندہ نسلوں کی تربیت اخلاق اورتہذیب نفس بھی ہے۔ یہ مقصد اسی صورت میںحاصل ہوسکتا تھا کہ تدبیروں کے ساتھ بالخصوص اساتذہ کے انتخاب میں یہ بات ہرحال میںملحوظ رکھی جاتی کہ وہ صرف اپنے مضمون کے ماہر نہ ہوں بلکہ ہراعتبار سے بہترین نمونہ ہوں۔ وہ ’بازار‘ سجاکر ’علم‘کی خریدوفروخت کرنے والے نہ ہوں بلکہ لہو کاچراغ جلاکر نئی نسل کی بہترین تربیت کرنے والے ہوں۔ماں کی آغوش کے کے بعداس معاملے میںبہترین عامل استاد کی شخصیت ہی ہوتی ہے۔ وہ اگرکسی نظریے کوپوری سچائی کے ساتھ مانتااورپوری دیانت داری کے ساتھ اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی بسرکرنے کی کوشش کرتاہوتواس کے طلبہ یقینا اس سے متاثرہوتے ہیں۔لیکن مروجہ نظام تعلیم میںاس چیز کوکوئی اہمیت نہیںدی گئی۔ چنانچہ یہ اسی کانتیجہ ہے کہ عزیمت واستقامت ،حوصلہ ومروت،نظم وضبط اورصبروثبات جیسی اعلیٰ صفات اس قوم کے اکثرنوجوانوں میںاب عنقاء ہیں۔ امانت،دیانت، فرض شناسی،وفاشعاری اورایثاروقربانی قصٔہ ماضی ہیں۔ بددیانت ،بدکار ،رشوت خور، خویش پرور اورادنیٰ خواہشوں کے غلام نوجوان اورافسرشاہی اب ہماری پہچان ہے۔ ظاہرہے ایسے لوگ انپڑھ اورجاہل نہیں بلکہ کالج اوریونیورسٹیز کے ’تعلیم یافتہ‘ اور ’تربیت یافتہ‘ ہی ہیں۔ اعلیٰ ڈگریاں لے کرقوم کوبڑے ’ادب‘ سے لوٹ رہے ہیں اورتاریکی کی طرف گھسیٹ رہے ہیں۔ ہماری نئی نسل اپنی قوم کے ماضی سے بے گانہ ، حال سے بے پروا اورمستقبل سے بے تعلق ہے۔ اخلاقی اقدارآہستہ آہستہ دم توڑرہی ہیں اورمادی مفادات ہی حیات وکائنات کی اصل حقیقت قرارپارہے ہیں۔یہی ’فیض‘ ہے جوہمارے نوجوانوں نے اس نظام تعلیم سے حاصل کیا ہے۔ہماری تہذیبی روایت سے یہ نظام ہمارارشتہ بتدریج منقطع کررہاہے۔دل افسردہ اورقلم ماتم کناںہے!
ہمارے تعلیم یافتہ ہونے کی کیاحیثیت رہ جاتی ہے،جب ہم چلتی گاڑی سے کچراپھینک دیںجسے آخرایک انپڑھ نے ہی اٹھاناہو۔آئن سٹائن ؔکے بقول ’تعلیم کامقصدیہ نہیں کہ بہت ساری حقیقتیںجان لی جائیں۔تعلیم کامقصدیہ ہے کہ دماغ کی اس طرح تربیت ہوجائے کہ جوکچھ کتابوں میںنہیںہے وہ بھی سمجھ سکے۔‘ہم یورپ کی نقالی بھی صحیح ڈھنگ سے نہ کرسکے۔ذہنی مفلسی ایسی کہ نقل کرنابھی نہیں آتا۔ان کی خوبیاں ترک کرکے ان سے بدکاری مستعار لی۔دل کوروئوںکہ پیٹوںجگرکو،کچھ سوجتاہی نہیں۔مقدورہوتونوحہ گرکوساتھ رکھتا۔ شکم پرور،عاقبت نااندیش،بداخلاق،عہدشکن’’ڈگری یافتہ‘‘بیکارفوج ہی اگرہمارے مروجہ تعلیمی اداروں کی پیداوارہے،توایسے اداروںکوسربمہرکرنا ہی نئی نسل پرعظیم احسان ہوگا۔
رابطہ۔بارہمولہ کشمیر
ای میل۔[email protected]