روبینہ حبیبی
ابھی حال ہی میں ایک طالب علم کے متعلق ایک ایسی خبر موصول ہوئی جو یقیناً سکتے میں ڈال دینے والی ہے، دراصل وہ ایک تحریری رقہ ہے جس میں ایک طالب علم نے خود کشی کرنے سے پہلے اپنی ذہنی اذیت اور دِلی کرب کا اظہار کیا ہے ۔طالب علم لکھتا ہے،’’ابو امی مجھے معاف کر دینا، میں نے کوشش بھی کی لیکن میں اچھے نمبروں سے کامیاب نہ ہوسکا۔‘‘ یہ چند الفاظ ایک لاچار طالب علم کا محض درد نہیں بلکہ ہمارے تعلیمی نظام اور تربیتی اسلوب پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہے ۔
کیا ہمارے معاشرے میں تعلیم کا مقصد صرف یہ رہ گیا ہے کہ طلبہ اعلیٰ سے اعلیٰ نمبرات حاصل کریں، چاہے اس کیلئے اُنہیں جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے ؟ کیا کم نمبرات حاصل کرنے والے طلبہ کسی کام کے نہیں ہوتے ؟کیا تعلیمی اداروں کا کام محض ذہین اور اعلیٰ نمبرات حاصل کرنے والے بچوں کو تراشنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ؟ کیا کم نمبر حاصل کرنے والے بچوں کو حکمت سے سنوار کر انہیں قابل و لائق بنانا تعلیمی اداروں کی ذمّہ داری نہیں ہے ؟ کیا والدین کو اپنے بچوں پر تعلیم کے لئے خرچ کئے گئے پیسوں کو کامیابی وناکامی کے آئینہ میں دیکھنا صحیح ہے ؟یہ اور اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو کسی بھی طالب علم کی خودکشی یا انتہائی قدم اُٹھانے کے بعد سماجی مصلحین کی جانب سے اٹھائے جاتے رہے ہیں ۔مذکورہ پس منظر میں جہاں تک اسلامی نقطہ نظر کا سوال ہے تو یہ بات واضح رہے کہ اسلامی تعلیم کے مکمل ذخیرہ میں کوئی ایک بھی ایسی تعلیم یا ہدایت نہیں ملتی ہے جس کی بنیاد پر اعلیٰ نمبرات حاصل کرنا یا بڑی ڈگری ومقام حاصل کرنا ضروری ہو اور یہ سچائی اس ناقابل انکار حقیقت کے بعد ہے کہ اسلام میں کسی دوسرے مذہب کے مقابلہ حصول تعلیم پر سب سے زیادہ تاکید ہے ۔ غور کا مقام ہے کہ پیغمبر اسلام محمد عربیؐ پر وحی کی ابتداء ہی تعلیم والی آیتوں سے ہوئی ۔
اسلام میں جہاں اعلیٰ نمبرات یا ڈگری کو کوئی شرعی درجہ حاصل نہیں ہے وہیں یہ بات بھی واضح رہے کہ تعلیم و تعلم میں بہتر سے بہتر کرنے کی بھی کہیں کوئی ممانعت نہیں ہے، اس بنیاد پر والدین ٬ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ اپنے طور پر معیاری تعلیم و تربیت کا انتظام کریں لیکن خود ساختہ ٹارگیٹ کو پانے کے لئے بچوں پر بے جا دباؤ نہ ڈالیں ۔ ہماری تعلیم کا مقصد دنیا کے لوگوں کو خوش کرنا یا اپنی انا کی تسکین نہیں ہونی چاہئے بلکہ اللہ کی رضا جوئی ہونا چاہئے جس میں خدمت خلق بھی شامل ہے ۔ انسان کے لئے وہی علم نافع ہوتا ہے جس کا رشتہ اللہ سے جڑا ہوا ہو ۔ آج کل ہم لوگ دیکھتے ہیں کہ لوگ اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں لیکن نہ اُن میں خالق کی پہچان ہے ٬ نہ مخلوق کی محبت۔
طلبہ کے اقدام خودکشی یا کوئی اور انتہائی عمل کے پیچھے عموماً دو وجوہات کار فرما ہوتی ہیں (1) مختلف اسکولوں کے اساتذہ و ذمّہ داران اپنے معیار کی شہرت بر قرار رکھنے کے لئے اور والدین کی توجہ حاصل کرنے کے لئے طلبہ پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں (2) والدین اپنے خود ساختہ خاکوں میں رنگ بھرنے کیلئے بچوں پر وافر رقم خرچ کرتے ہیں اور نتیجتاً اپنے بچوں کو اُس مقام پر رکھنا چاہتے ہیں جو ان کا خواب ہوتا ہے، جس میں بہت سارے بچے ناکام ہو جاتے ہیں ۔ اِس ناکامی پر بہت سارے والدین اپنے آپ کو خسارے میں محسوس کرتے ہیں ۔ جب اساتذہ یا والدین کی طرف سے بچوں پر اس طرح کا دباؤ ہوگا تو بچوں کا ذہنی اذیت میں مبتلا ہونا ایک فطری عمل ہے ۔
اساتذہ ٬ طلبہ اور والدین کے درمیان اس کشمکش کا واحد حل یہ ہے کہ سبھی لوگ تعلیم کے بنیادی مقاصد کو سمجھیں اور وہ اللہ کی خوشنودی اور مخلوقِ خدا کی خدمت گزاری ہے ۔ اسکول اور وہاں کے ذمّہ داروں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ان کا تعلیمی نظام محض مالی منفعت کا ذریعہ نہیں بلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل اور بندگانِ خدا کی خدمت بھی ہے۔ لہٰذا وہ طلبہ پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ان کی صلاحیت کو سامنے رکھ کر محنت کریں اور اُنہیں ملک و ملت کے لئے کار آمد بنائیں ۔ والدین کو سمجھنا چاہئے کہ ان کی ذمّہ داری صرف اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت ہے ۔ طلبہ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اُنہیں اپنے آپ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے ملک و ملت کے لئے قیمتی اثاثہ بننا ہے اور اس کے لئے انہیں بغیر کسی دباؤ کے اپنی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانا ہے
���������������