قیصر محمود عراقی
بے شک جدید دور کے انسان نے تعلیم تو حاصل کی ، علم وہنر میںجہد مسلسل کوشش کی اور درجنوںڈگریاں بھی حاصل کیں، مگر معاشرہ ترقی نہیں کر پایا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی شناخت کھودی ہے، اگر غور سے دیکھا جائے تو ہمارے پاس اخلاق وکردار کی کوئی اچھی مثال نہیں ملتی ۔ سب اپنے ہی نفسا نفسی میں مگن ہیں، ہمارے کردار میںتضاد پایا جاتا ہے، ہم ایک دوسرے کیلئے اچھی سوچ نہیں رکھتے، ہم اخلاقی طور پر مریض بن چکے ہیں، جس کی وجہ سے ہم نے تعلیم کو محض کاغذتک محدود رکھا ہے، ہماری اخلاقیات کا مرکز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جس کی بدولت دنیا ہم پر ہنس رہی ہے، ہماری زندگیوں میں اتنی آسائشیںدر آئیںہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، مگر یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ترقی کیوں نہیں کررہے ہیں؟ شائد اس لئے کہ ہم اخلاقیات کے معاملے میں اتنے پیچھے چلے گئے ہیں کہ ہم زوال کی گہری گھاٹیوں میںگرتے چلے جارہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میںہر چیز میںبد عنوانی ، رشوت اور منافقت پائی جاتی ہے جو معاشرے کی بنیادی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہاہے۔ ہمارے تمام تر اداروںمیںوہ چاہے اسکولزوکالجز ہو یا پھر دوسرے کوئی بھی ادارے ہوں، سب میںاور خود ہمارے اندر بھی اخلاق برائے نام ہی باقی رہ گیا ہے۔ نہ ہمارے اندر بزرگوں کا احترام رہا نہ چھوٹوں سے بے لوث شفقت رہی۔ ایمانداری کا تو جیسے ہم مفہوم ہی بھول گئے، ہم اللہ اور رسولؐکو ماننے والے تو زبانی بن چکے ہیںلیکن حلال اور حرام میںفرق کرنا بھی ہمیں اب یاد نہیں ، جس طرح بھی کمایا جائے کمائواور جس طرح بھی بچوں کو کھلایا جائے،کھلائو۔گویا ہمارے دلوں میںحرام کا زنگ لگ چکا ہے، ضمیر مردہ ہوچکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اخلاق کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ نہ جانے ہماری تہذیب وروایات جن کے ہم امین کہلایا کرتے تھے، وہ کہا دفن ہوگئیں، شاید ان بزرگوں کے ساتھ ہی دفن ہوچکی ہے جو ہر وقت درس امین دیتے تھے، وہ اخلاق وکردار اب لوگوں میں خال خال دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم خود اپنی تہذیب سے اتنے دور ہوچکے ہیںکہ ہمیں یقین نہیں آتا کہ ہم اخلاقی طور پر بھی اتنے کنگال ہوسکتے ہیں۔ اب دیکھا جائے تو ہمارا تہذیب وتمدن اور ثقافت کے کچھ آثار گائوں دیہات میں تو دکھائی دے رہے ہیں مگر شہر میںتوبہ توبہ۔ یوں ہمارے ارد گرد بدتہذیبی کے اندھیروں میں روشنی کی کوئی کرن پھوٹتی دکھائی نہیں دیتی جبکہ انسان کو تعلیم تو ادب اور آداب ، اخلاق اور اخلاقیات ، تربیت وانسانیت سکھاتی ہے۔ لیکن ہمیں دیکھ کر یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاتھ میں بھی کبھی اقدار کا دامن تھا۔ آج بد تہذیبی ہمارے معاشرے میں وبا کی طرح پھیل رہی ہے، بد کرداری ہمارے دامنوں سے جھلک رہی ہے اور اس صورت حال کا تدارک ممکن نظر نہیں آتا۔ ہمارا معاشرہ خوبصورت مرد وزن کے پیچھے لگا ہوا ہے، ہمارا معاشرہ عورت کی عزت نہیں کرتا، ہر فرد اپنے دماغ میں فتور لئے پھرتا ہے، ہم اخلاق میں اتنے گر چکے ہیں کہ ہم اپنی تندرست جان وجسم کا شکر تک ادا نہیں کرتے ہیں، ہمارا پورا معاشرہ بے حسی اور لاپرواہی کی دلدل میں دُھنستا جارہا ہے اور اس سے نکلنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کے ہر شہری کو احساس ذمہ داری کے ساتھ یہ پتہ ہونا چاہئے کہ کتنے لوگ خطہ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، یہاں مہنگائی اتنی ہے کہ غریب دو روٹی کیلئے ترستا ہے۔ آج دنیا نے ستاروں کے راز جان لئے ہیں مگر افسوس صد افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہو کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی کتنے لوگ بغیر چھت کے مکانات میں رہتے ہیں، کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں ، کتنے غریب مریض میڈیکل چیک اَپ کروانے کے چکر میں عمریں گنواں دیتے ہیں، لیکن ہمارے صاحبان صرف دولت سمیٹنے میں مگن ہیں، ان کو مکمل ادراک نہیں کہ ان کے عوام کی کیا حالت ہے۔ ایک غریب روٹی روزی کے بحران سے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں خرید سکتا، ان کی تعلیمی اخراجات پوری نہیں کرسکتا، بیمار ہونے پر ان کی ادویات کی ضرورت پوری نہیں کرسکتا، آج ہمارا معاشرہ بے حسی اور لاپرواہی کا شکار ہے وہ اس لئے کہ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کو ذمہ داریاں سونپ دی جاتی ہیں جو کسی طرح سے اہل دکھائی نہیں دیتے، نہ اہل دانش کے اعتبار سے اور نہ سمجھداری کے لحاظ سے۔ ہر شخص یہاں خودغرضی کے خول میں بند صرف اپنے بارے میں سوچتاہے، معاشرے کے انمول اوصاف جس میںصبر ، شکر، قناعت، رضاکاری سے بہت کم دکھائی دے رہی ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیںکہ ہم کس موڑ ، کس منزل اور کس رُخ چل رہے ہیں، دنیا کس سمت چل رہی ہے، ہمیں بحیثیت ایک قوم اپنی ترجیحات کو از سرِ نو مرتب کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم نے دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تو ایسا کرنا لازم ہے وگرنہ دنیا ہم سے بہت آگے کی طرف نکل جائیگی اور ہم ماضی کے قصے کہانیوںمیںپھنسے رہ جائینگے۔ ہمیں بحیثیت قوم مستقبلکے بارے میں سوچنا ہوگا، دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور ہم اسی آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وقت اپنا تیور بدلے اور حالات ہم سے روٹھ جائیں،ہمیں اپنی روش اور اخلاق وکردار کو بدلنا ہوگا۔ ہماری تعلیم کا مقصد درس اخلاق ہونا چاہئے کیونکہ ہم مسلمان ہیں، اس لئے ہمارا کردار سب سے اعلیٰ ہونا چاہئے اور ہمیں ہر حال میں ہر ادارے میں مساوات قائم کرنا چاہئے۔
رابطہ۔:6291697668
�����������������