ڈاکٹر ریاض احمد
مصنوعی ذہانت کے دور میں، تعلیم کا کردار ایک بنیادی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ روایتی طور پر، طلباء کو حقائق یاد کرنے اور جوابات تلاش کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ تاہم، AI سے چلنے والے سرچ انجنوں اور ورچوئل اسسٹنٹس کی موجودگی میں جو فوری جوابات فراہم کر سکتے ہیں، اگلی نسل کے لیے اصل چیلنج صرف جوابات تلاش کرنا نہیں بلکہ صحیح سوالات پوچھنا سیکھنا ہے۔ یہ تبدیلی ہمارے تعلیمی نظام کو از سر نو سوچنے کی ضرورت کو جنم دیتی ہے، جس میں استفسار پر مبنی سیکھنے اور تنقیدی سوچ پر زیادہ زور دیا جائے۔
مصنوعی ذہانت کے دور میں علم کے کردار میں تبدیلی
وہ دن چلے گئے جب تعلیم کا زیادہ تر انحصار رٹے پر تھا۔ چیٹ جی پی ٹی، گوگل بارڈ اور دیگر AI پر مبنی پلیٹ فارمز کی مدد سے معلومات پہلے سے کہیں زیادہ قابل رسائی ہو گئی ہیں۔ اب اصل قدر محض حقائق یاد رکھنے میں نہیں بلکہ تنقیدی سوچنے، ذرائع کا جائزہ لینے، اور بامعنی سوالات پوچھنے میں مضمر ہے جو گہری سمجھ بوجھ کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کے بجائے کہ بچوں کو کیا سوچنا ہے، اس پر توجہ دینے کے بجائے انہیں کیسے سوچنا ہے یہ سکھانا ضروری ہے۔
صحیح سوالات پوچھنا کیوں ضروری ہے؟
صحیح سوالات پوچھنے کی صلاحیت مسئلہ حل کرنے، تخلیقی صلاحیتوں اور جدت طرازی کو فروغ دیتی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی، اور فلسفے میں بڑی پیش رفتیں سب صحیح سوالات سے ہی ممکن ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر، البرٹ آئن سٹائن کے اضافیت کے نظریے کا آغاز اس سوال سے ہوا: ’’اگر میں روشنی کی رفتار سے سفر کر سکوں تو کیا ہوگا؟‘‘اسی طرح، انٹرنیٹ کی ترقی اس تحقیق سے شروع ہوئی کہ کمپیوٹرز کو کس طرح جوڑا جا سکتا ہے تاکہ معلومات کو مؤثر طریقے سے شیئر کیا جا سکے۔
مزید برآں، AI سسٹمز صرف اتنے ہی کارآمد ہوتے ہیں جتنے مؤثر سوالات انہیں دیے جاتے ہیں۔ اگر بچوں کو درست، جامع اور گہرے سوالات بنانے کی تربیت دی جائے تو وہ AI کی مکمل صلاحیت کو سیکھنے کے ایک آلے کے طور پر کھول سکتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ صرف معلومات کے غیر فعال صارف بن جائیں۔
کلاس روم میں استفسار کی مہارت سکھانے کے طریقے
بچوں میں سوالات پوچھنے کی مضبوط صلاحیت پیدا کرنے کے لیے، اساتذہ کو استفسار پر مبنی سیکھنے کی حکمت عملیوں کو اپنانا ہوگا۔ کچھ مؤثر طریقے درج ذیل ہیں:
تجسس کی حوصلہ افزائی – اساتذہ کو ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں طلباء کسی بھی چیز پر سوال اٹھانے میں آزاد محسوس کریں، چاہے وہ روزمرہ کی مشاہدات ہوں یا پیچیدہ سماجی مسائل۔ مثال کے طور پر، ایک تاریخ کا استاد پوچھ سکتا ہے، ’’اگر نپولین نے واٹر لو کی جنگ جیت لی ہوتی تو تاریخ کیسے مختلف ہوتی؟‘‘
کھلے سوالات کا استعمال – ہاں یا نہ والے سوالات کے بجائے، اساتذہ کو طلباء کو کھلے سوالات دینے چاہئیں جو تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں۔ مثلاً ’’موسمیاتی تبدیلی کیا ہے؟‘‘کے بجائے، ’’انسانی سرگرمیاں کس طرح موسمیاتی نمونوں کو متاثر کرتی ہیں، اور ہم اس کے بارے میں کیا کر سکتے ہیں؟‘‘پوچھا جا سکتا ہے۔
سقراطی طریقہ – سقراط کے انداز تعلیم سے متاثر، یہ طریقہ سوالات کے تسلسل کو فروغ دیتا ہے تاکہ طلباء کی تنقیدی سوچ اور تجزیے کی مہارتوں کو بڑھایا جا سکے۔ مثال کے طور پر، ایک ادب کی کلاس میں، استاد یہ سوال کر سکتا ہے، ’’آپ کے خیال میں مصنف نے اس پیراگراف میں کیا تاثر دینے کی کوشش کی؟ اس کا متبادل مطلب کیا ہو سکتا ہے؟‘‘
مسئلہ پر مبنی سیکھنا (PBL) – حقیقی دنیا کے مسائل دینا جن پر طلباء کو تحقیق کرنی ہو، تجزیہ کرنا ہو، اور خود اپنے سوالات مرتب کرنے ہوں، ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔ مثلاً، طلباء یہ دریافت کر سکتے ہیں کہ ’’ہم اپنی کمیونٹی میں پلاسٹک کے فضلے کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟‘‘اور ممکنہ حل تلاش کریں۔
سوال بنانے کی تکنیک سکھانا – اساتذہ طلباء کو بلومز ٹیکسانومی جیسے فریم ورک سکھا سکتے ہیں تاکہ وہ بنیادی یادداشت کے سوالات اور اعلیٰ سطحی تفکری سوالات میں فرق کر سکیں۔ مثلاً، ’’ضیائی تالیف کیا ہے؟‘‘کے بجائے، ’’ضیائی تالیف عالمی کاربن چکر کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟‘‘ پوچھا جا سکتا ہے۔
تعلیم کا مستقبل: سوالات پر مبنی سوچنے والوں کی تیاری
AI سے چلنے والے مستقبل میں، وہی لوگ ترقی کریں گے جو بہتر سوالات پوچھنے کی مہارت رکھتے ہوں گے۔ AI معلومات فراہم کر سکتا ہے، لیکن انسانی بصیرت ضروری ہے تاکہ اس کا درست اور مؤثر استعمال کیا جا سکے۔ اسکولوں کو معلومات کی ترسیل سے علم کے کھوج پر مبنی سیکھنے کی طرف منتقل ہونا ہوگا، تاکہ طلباء کو متجسس مفکر بنایا جا سکے نہ کہ محض معلومات حاصل کرنے والے۔
جوابات تلاش کرنے کے بجائے صحیح سوالات پوچھنے پر توجہ مرکوز کر کے، ہم بچوں کو ان ذہنی اوزاروں سے لیس کرتے ہیں جو انہیں زندگی بھر سیکھنے اور ایک متحرک دنیا میں ڈھلنے کے قابل بنائیں گے۔ جیسے جیسے ہم مصنوعی ذہانت کے دور میں تعلیم کی نئی تعریف کر رہے ہیں، ہمارا ہدف آنے والی نسل کو مفکر، موجد، اور مسائل حل کرنے والے بنانے کا ہونا چاہیے،نہ صرف حقائق سے لیس بلکہ استفسار پر مبنی ذہانت سے آراستہ۔