شوکت الحق کھورو
ہمارے معاشرے کا تلخ المیہ یہ ہے کہ جب بھی حالات معمول سے ہٹتے ہیں،چاہے سیاسی ہڑتال ہو، احتجاج ہو یا امن و امان کا مسئلہ،سب سے پہلا فیصلہ یہی ہوتا ہے کہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دی جائیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہر مسئلے کی پہلی قیمت تعلیم ہی کیوں ادا کرتی ہے؟۔بازار کھلے رہتے ہیں، دفاتر اپنے وقت پر چلتے ہیں، حتیٰ کہ احتجاجی ریلیاں اور سیاسی جلسے بھی زور و شور سے جاری رہتے ہیں، مگر سب سے زیادہ غیر محفوظ اور سب سے زیادہ غیر ضروری اگر کسی چیز کو سمجھا جاتا ہے تو وہ تعلیم ہے۔ کیا علم بانٹنے والے ادارے اتنے کمزور ہیں کہ ہر بحران میں سب سے پہلے انہیں قربانی کا بکرا بنا دیا جائے؟
سیلاب کے بیچ بھی علم کا جنازہ؟
حال ہی میں وادی کے کچھ علاقوں میں پانی نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گھروں، سڑکوں اور پلوں کو نقصان پہنچا، لیکن ایک چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی—تعلیم۔ چند اسکول متاثرہ علاقوں میں بند رہنا تو سمجھ آتا، لیکن افسوس، پورے وادی کے اسکول بلا تفریق بند کر دیے گئے۔تصور کریں،بچے اپنی کتابیں اور نوٹ بک لیے اسکول جانے کو تیار ہیں، لیکن پانی کے بہاؤ یا انتظامی فیصلے کی وجہ سے ان کے علم کے دروازے اچانک بند کر دیے جاتے ہیں۔ اگر ایک بھی اسکول کھلا رہتا، تو یہ دکھاتا کہ بچوں کے علم کو ترجیح دی جا رہی ہے، اور انصاف کی عکاسی ہوتی۔ مگر افسوس، ایسا نہ ہوا۔ پورے علاقے کے تعلیمی دروازے بند کرنا بچوں کے مستقبل کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔یہ نہ صرف ایک انتظامی فیصلہ تھا بلکہ ایک پیغام بھی تھا کہ تعلیم کبھی ترجیح نہیں رہی۔ بچے، جو کل کے محقق، سائنسدان اور رہنما بننے والے ہیں، آج بلا وجہ مایوسی اور خلل کے سامنے ہیں۔
سیاست اور تعلیم: الگ الگ میدان
ہمارے ملک کا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کو اکثر سیاست کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ کبھی اسکولوں کے فیصلے سیاسی دباؤ کے تحت لیے جاتے ہیں، کبھی نصاب پر بحث سیاست کے انداز میں ہوتی ہے اور کبھی کسی احتجاج کا سب سے آسان حل تعلیمی ادارے بند کرنا سمجھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر سیاست اپنی جگہ رہے اور تعلیم اپنی جگہ تو حالات کہیں بہتر ہو سکتے ہیں۔ سیاست کو سیاست کے دائرے تک محدود رکھا جائے اور تعلیم کو تعلیم کے دائرے میں، تب ہی بچوں کو ذہنی دباؤ سے آزاد کر کے ان کے خوابوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ جب تک یہ دونوں میدان الگ نہیں کیے جاتے، نہ سیاست شفاف رہ سکتی ہے اور نہ ہی تعلیم مضبوط۔
اسکول رجسٹریشن: بچوں کے ذہنوں پر دباؤ
حال ہی میں حکومت نے کئی اسکول رجسٹریشن کے حوالے سے کچھ نئے فیصلے کیے، جو انتظامیہ کے لیے محض کاغذی کارروائی لگ سکتی تھی، لیکن اثر سب سے زیادہ بچوں پر پڑا۔ سوال یہ ہے: کیایہ معاملہ صرف ہائر منیجمنٹ تک محدود نہیں رہنا چاہیے تھا؟ یا بچوں کو سوشل میڈیا اور عوامی بحث کے سامنے لا کر ذہنی دباؤ میں ڈالنا مقصد تھا؟۔تصور کریں،والدین، اساتذہ اور طلبہ سب دیکھ رہے ہیں کہ ایک انتظامی مسئلہ کیسے ان کے بچوں کی پڑھائی اور ذہنی سکون پر اثر ڈال رہا ہے۔ اسکولوں کا انتظامی فیصلہ بچوں کے ذہن پر سیاسی اور معاشرتی بحث کے بوجھ کی شکل میں نہیں آنا چاہیے۔یہ نہ صرف ایک کارروائی تھی بلکہ ایک پیغام بھی کہ بچوں کے علم کو کبھی ترجیح نہیں دی جاتی۔
تعلیم کی قربانی: نقصان صرف آج کا نہیں
بار بار تعلیمی ادارے بند کرنے سے سب سے زیادہ نقصان ہماری نئی نسل کو ہوتا ہے۔ نصاب پیچھے رہ جاتا ہے، طلبہ کی توجہ بکھر جاتی ہے اور تعلیم کی اہمیت مزید کمزور ہو جاتی ہے۔ ایک دن کا نقصان صرف ایک دن نہیں،یہ آنے والی نسلوں کے مستقبل پر کاری ضرب لگاتا ہے۔تعلیم کو ہر مسئلے میں سب سے پہلے بند کرنا اس ذہنیت کی عکاسی ہے جس میں تعلیم کو کبھی قومی ترجیح سمجھا ہی نہیں گیا۔ اگر معاشرہ واقعی ترقی کرنا چاہتا ہے تو حکومت اور ذمہ دار اداروں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ تعلیم کو سب سے آخر میں متاثر کیا جائے، نہ کہ سب سے پہلے۔
حتمی پیغام: تعلیم کا مستقبل یا جنازہ؟
یہ وقت صرف باتوں کا نہیں، بلکہ عمل کا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگاکہ کیا ہم مل کر تعلیم کو روشنی دیں گے، اسے مضبوط کریں گے، بچوں کے خوابوں کو پروان چڑھائیں گے،یا ہم سب خاموشی سے اس کا جنازہ پڑھ کر دفن کر دیں گے، اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کے دروازے بند کر دیں گے؟۔یاد رکھیں، قومیں صرف بڑی عمارتوں، طاقت یا نوٹوں سے نہیں بنتیں۔قومیں علم کی روشنی، استاد کی محنت اور بچوں کے روشن مستقبل سے بنتی ہیں۔تعلیم کو کبھی قربانی کا بکرا نہ بنائیں، کیونکہ یہی روشنی ہمارے کل کی بنیاد ہے۔اب وقت ہے کہ ہم یہ انتخاب کریں، ورنہ کل بہت دیر ہو جائے ۔
7006528042
[email protected]