راقف مخدومی
ایک کہاوت ہے کہ ’’تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے، جسے آپ استعمال کرکے دنیا کو بدل سکتے ہیں۔‘‘ تعلیم نے ہمیشہ حالات کو بدلنے اور کسی کے حق میں پلٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا گیا، تو ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیا مانگتے ہیں۔ انہوں نے اپنی نوجوان نسل کی تعلیم مانگی اور آج ہم سب کے سامنے ان کی اس مانگ کا نتیجہ ہے۔ جاپان ٹیکنالوجی میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔ یہ سب صرف تعلیم کی بدولت ممکن ہوا۔اگر ہم دیکھیں کہ مذاہب تعلیم کے بارے میں کیا کہتے ہیں، تو ہر مذہب مردوں اور عورتوں دونوں کی تعلیم پر زور دیتا ہے۔ اسلام نے اس معاملے میں سبقت لے لی ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کی تعلیم کو فرض قرار دیتا ہے۔ اسلام تعلیم کے حصول کے لیے چین تک سفر کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ اس طرح اسلام جنس کی تفریق کے بغیر تعلیم کی ترویج کرتا ہے۔
تعلیم دہندگان نے انسانیت کی تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ افلاطون، ارسطو، سقراط اور دیگر بہت سے لوگوں نے تعلیم کے میدان میں حصہ ڈال کر تاریخ میں اپنا نام بنایا۔ حضرت علیؓ کو علم کا دروازہ کہا جاتا ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں علم و حکمت کا شہر ہوں اور حضرت علی اس کا دروازہ ہیں۔‘‘ عظیم اسلامی اسکالرز جیسے امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی اور دیگر نے اپنی تعلیم کی بدولت تاریخ میں اپنا نام روشن کیا۔
علامہ سر محمد اقبال کا تعلیم کے بارے میں ایک مشہور شعر ہے جو اللہ، خالق سے دور لے جاتی ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’اللہ سے دوری، تعلیم بھی فتنہ ہے،مال و اولاد، جاگیر بھی فتنہ ہے،اگر ناحق کے لیے اٹھے تو تلوار بھی فتنہ ہے،تلوار، تکبیر بھی فتنہ ہے،‘‘
اقبال کو اپنے دور کے سب سے زیادہ علم والے اور باخبر شخص کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کی تحریریں آج بھی نوجوان نسل بڑے شوق سے پڑھتی ہے۔ وہ ہر اس چیز کو فتنہ کہتے ہیں جو انسان کو اللہ سے دور کرے۔ اقبال نہ صرف تعلیم بلکہ اللہ کے لیے اٹھنے والی تلوار کو بھی فتنہ کہتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ تعلیم انسان کو نظم و ضبط سکھاتی ہے نہ کہ فحاشی۔
چلانا اور تالیاں بجانا کبھی توہین کی علامت سمجھا جاتا تھا، لیکن بدقسمتی سے آج کل لوگ اسے تعریف کے طور پر لیتے ہیں۔ اسلام میں بلند آواز کو بدترین چیز قرار دیا گیا ہے۔ اسے گدھے کی آواز سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ لیکن آج کل کسی کی فحاشی کی تعریف کے لیے چلانا معمول بن گیا ہے۔بیشترتعلیمی ادارے بداخلاقی اور فحاشی کے مراکز بن گئے ہیں اور بدقسمتی سے اسے کھلے دل سے قبول اور سراہا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے، جب میں اسکول کا طالب علم تھا تو تقریبات میں اسکالرز، سائنسدانوں، ادیبوں اور دیگر اہم شخصیات کو مہمان کے طور پر مدعو کیا جاتا تھا، لیکن بدقسمتی سے آج کل فحش یوٹیوبروں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ایک حیران کن واقعہ پیش آیا، جس نے پورے کشمیر کو غصے کی لپیٹ میں لے لیا۔وادیٔ کشمیر کے ایک ضلع، گورنمنٹ ڈگری کالج شوپیاں میں ایک تقریب میں ایک یوٹیوبر کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ اس سے ہر کوئی اتنا ناراض ہوا کہ سوشل میڈیا پر اپنا غصہ ظاہر کر رہا ہے اور یہ بالکل جائز ہے۔ ایک فحش یوٹیوبر کیسے مہمان خصوصی ہو سکتا ہے؟ جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں، میرے اندر غصہ ہے کیونکہ تعلیمی اداروں کا مقصد اخلاقی اقدار سکھانا ہے، نہ کہ ایسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینا۔ ہم نے نہ صرف اسلام کی تعلیمات کی توہین کی بلکہ ایک ادارے کے اصولوں کو بھی پامال کیا۔ ہم نے خود کو ہر چیز کے طور پر تسلیم کیا، لیکن بدقسمتی سے مسلمان کے طور پر نہیں۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’سید ہو، مرزا ہو، یا افغان ہو، سب کچھ ہو، بتاؤ، کیا تم بھی مسلمان ہو؟‘‘
ہم نے وہ تمام اقدار کھو دی ہیں جو ہمیں مسلمان کہلوانے کا حق دیتی ہیں۔ وہ تمام اقدار اور اخلاق جو ہمیں دکھانے چاہئیں، انہیں دفن کر دیا گیا، وہ بھی صرف چند لوگوں کی وجہ سے جو غیر اخلاقی سرگرمیوں کے ذریعے پیسہ کمانا چاہتے ہیں اور اسے ہنر کہتے ہیں۔ انسٹاگرام ریلز بداخلاقی کا مرکز بن گئی ہیں اور بدقسمتی سے انہیں لاکھوں ویوز اور لائکس ملتے ہیں۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جب نوعمر لڑکے اور لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کے ساتھ ریلز پوسٹ کرتے ہیں۔ معاشرہ اس حد تک گر چکا ہے کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ واحد امید، تعلیمی ادارے اب وہ مراکز بن رہے ہیں جہاں بداخلاقی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور اسے ’’ثقافتی پروگرام‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی آف کشمیر میں بھی اسی طرح کی ایک تقریب ہوئی، جو ڈیپارٹمنٹ آف مینجمنٹ اینڈ اسٹڈیز نے منعقد کی تھی۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز سے جو معلوم ہوا، وہ تقریب مکمل طور پر بداخلاقی اور فحاشی کا مظاہرہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر یونیورسٹی کی بنیاد 1951 میں ایک معروف صوفی بزرگ حضرت میرک شاہ کشمیری نے رکھی تھی۔ افسوس کہ شاہ اپنی قبر میں اس یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے پر خود کو کوس رہے ہوں گے، جو اب بداخلاقی کی آماجگاہ بن گئی ہے۔نصابی سرگرمیوں کو اب شریک نصابی سرگرمیاں کہا جاتا ہے کیونکہ اب انہیں تعلیم کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب بداخلاقی اور فحاشی نے تعلیم پر سایہ نہیں ڈالا تھا، تو یہ شریک نصابی سرگرمیاں کیا ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سیمینارز، مباحثے، ڈرائنگ مقابلے، تحریری مقابلے اور نعت و سیرت کے مقابلے شامل تھے۔ لیکن بدقسمتی سے اب ایسی سرگرمیاں نایاب ہو گئی ہیں اور ناچ گانے نے ان کی جگہ لے لی ہے۔
ہندوستان نے 150 سال تک انگریزوں سے آزادی کے لیے لڑائی لڑی، لیکن اب ان کی ثقافت کو اپنا کر اسے جدیدیت کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ جدیدیت مجھے متاثر نہیں کرتی۔ میں اسے جارحیت سمجھتا ہوں، جسے آسانی سے قبول کر لیا گیا اور اس پر فخر کیا جا رہا ہے۔ اقبال مغربی ثقافت کو قبول کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یہ تو تم ہو جو یورپ کے غلام بن گئے، میری شکایت تم سے ہے، یورپ سے نہیں۔‘‘جو چیز تمہیں میٹھی لگ رہی ہے، وہ ان کے لئے بھی میٹھی نہیں، لیکن ان کا ایک منصوبہ ہے جو فحاشی کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا: ’’اگر تم کسی قوم کو جنگ کے بغیر تباہ کرنا چاہتے ہو، تو اس کی نوجوان نسل میں زنا اور عریانی کو عام کر دو۔‘‘
(مضمون نگار قانون کے طالب علم اور انسانی حقوق کے رکن ہیں)