شگفتہ حسن
’’تعلیم نسواں‘‘سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے دراصل یہ لفظ دو الفاظ کا مرکب ہے تعلیم اور نسواں۔ تعلیم سے مراد ’’علم حاصل کرنا‘‘ جبکہ نسواں عربی زبان کے لفظ ’’نساء‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی “عورت کے ہیں” گویا تعلیم نسواں سے مراد عورتوں کی تعلیم ہے۔ اب اگر مذہب اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے تعلیم کو فرض قرار دیا ہے اور جس طرح ہر مرد پر تعلیم حاصل کرنا فرض کیا ہے اسی طرح ہر عورت پر بھی تعلیم حاصل کرنا فرض کیا ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو رکاوٹیں اور بندشیں تھیں سب کو ختم کر دیا کیونکہ دینی احکام کے خطاب میں مرد و عورت برابر ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: بلاشبہ عورتیں عمومی احکام میں مردوں کے مانند ہیں۔ عورتوں کو اسلامی برادری میں وہ مقام حاصل ہے جس کی نظیر دوسری برادری میں نہیں۔ اسلام سے پہلے کسی اور مذہب نے ایسا مقام دیا ہی نہیں۔ اسلام کے ظہور میں آنے کے بعد عورت کو اس کا اصل مقام اور مرتبہ دے کر اسکا درجہ بلند کیا گیا۔ عورت کو ہر چیز میں مرد کے برابر حق، حیثیت اور رتبہ دے کر اسلام نے ثابت کیا کہ عورت بھی جیتا جاگتا انسان ہے۔ نبی کریمؐ دنیا کی وہ پہلی اور آخری عظیم شخصیت ہیں، جنہوں نے عورت کو مرد کی طرح سمجھنے کی تلقین فرمائی اور اسے ہر حیثیت میں وہ بلند مقام و مرتبہ اور وہ عزت و احترام بخشا ،جس کا تصور بھی دیگر مذاہب میں محال ہے۔ اسلام نے عورتوں کو ہر حال میں چاہے وہ بیٹی ہو، بہن ہو، بیوی ہو ،یا ماں ۔اِن کے حقوق کا پورا خیال رکھا ہے۔ یعنی اسلام نے عورتوں کو حقوق ہی حقوق عطا کئے ہیں۔ مذہب اسلام میں مردوں اور عورتوں کے لئے یکساں قانون ہیں جیسے جرم کی سزا، اپنی مرضی سے شادی، حصول تعلیم وغیرہ۔ارشاد نبویؐ ہے: ’’ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے‘‘ (صحیح بخاری)۔ ایک اور جگہ انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس نے دو لڑکیوں کی پرورش وتربیت کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو وہ روز قیامت اس حال میں آئے گا کہ میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) ہوں گے۔‘‘ (یہ کہہ کر) آپؐ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا (رواہ المسلم) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن حکیم میں اس دعا کی ہدایت فرمائی گئی ہے: رَبِّ زِدْنِیْ عِلْما (طه:۱۱۴)۔ ’’اے میرے ربّ! میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔ ان تمام حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنے کا اسلام نے عورتوں کو نہ صرف حق دیا بلکہ ان پر فرض کیا ہے۔
اسلام میں تعلیم حاصل کرنے کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کلام الہٰی میں تقریباً اٹھتر ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر غارِ حراء میں نازل فرمایا وہ ’’اقرا‘‘ہے یعنی’’ پڑھو‘‘ اور کلام الہٰی کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں، وہ علم ہی کے سلسلے میں ہیں جیسا کہ: پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا، اُس نے انسانوں کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو، اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم کرنے والا ہے، جس نے قلم سے تعلیم دی، انسان کو اُس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا۔ گویا کہ وحی الہٰی کے آغاز میں ہی جس چیز کی طرف آپؐ کے ذریعے نوع انسان کو توجہ دلائی گئی وہ لکھنا، پڑھنا اور تعلیم و تربیت کے زیور سے انسانی زندگی کو آراستہ کرنا تھا۔کیونکہ تعلیم انسان کو بہتر زندگی گزارنا سکھاتی ہے اور انسان اور اسکے پیدا کرنے والے ربّ کے بیچ کا راستہ اور رشتہ سمجھنے کے لیے بھی تعلیم ایک سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ سورہ العلق کی آیت ۴ ؍اور ۵ ؍میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے انسان کو قلم سے تعلیم دی، ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہ جانتا تھا یعنی سورۃ العلق کے نازل ہوتے ہی تعلیم کو شرف انسانیت اور شناخت پروردگار کا اساس قرار دیا گیا۔ تعلیم ہی وہ بنیادی چیز ہے جس کی وجہ سے اللہ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بخشا۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے جو تقسیم کرنے سے کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہے۔ یہ وہ نور ہے جو انسان کو تاریکی سے روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ یہ وہ دولت ہے جو انسان کے دل کی بنجر زمین کو زرخیز بناتی ہے۔ یہ وہ درخت ہےجس کے پھلوں کی کوئی گنتی، کوئی شمار نہیں۔ یہ وہ سمندر ہے جس کی گہرائیوں کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان کی بنیاد تعلیم پر ہی رکھی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ کلام الہٰی کی چھ سورتیں ایسی ہیں جن میں حصول تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ان تمام آیتوں میں کہیں مرد اور عورت میں تفریق نہیں کی گئی ہے۔ یعنی اسلام نے عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کا پورا حق دیا ہے جیسا کہ مردوں کو حاصل ہے۔ سورۃ الزمر کی آیت نمبر ۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: بھلا( کیا ایسا شخص اُس کے برابر ہو سکتا ہے) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پرورگار کی رحمت کا اُمیدوار ہے؟ کہو کہ: ’’کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘ (مگر) نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔‘‘ اس آیت میں لفظ شخص استعمال ہوا ہے اور علم والے کو جاہل پر فضیلت دی گئی ہے۔ اسی طرح سورۃ الحج کی آیت نمبر ۵۴ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے، وہ جان لیں کہ یہی کلام برحق ہے جو تمہارے پرودگار کی طرف سے آیا ہے اور پھر وہ اس پر ایمان لائے۔ یعنی علم کی ہی بدولت انسان چاہے مرد ہو یا عورت دونوں شامل ہیں، وہ حق کو پہچانتے ہیں۔ دونوں ہی آیات میں علم کی اہمیت و افادیت بتائی گئی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے جنس کی کوئی قید نہیں ہے یعنی وہ مرد بھی ہوسکتا ہے اور عورت بھی۔ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہئے ہوتے ہیں۔ گاڑی ایک پہئے پر نہیں چل سکتی ۔یہی حال ہمارے معاشرے کا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں کی اہمیت یکساں ہے ۔جب تک دونوں علم حاصل نہیں کریں گے ہم کسی صورت ترقی نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تعلیم کے بغیر انسان چاہے مرد ہو یا عورت ادھورا ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان نہ خود شناس ہے نہ خدا شناس کیونکہ تعلیم ہی وہ چیز ہے جس کی بدولت اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت میں بلند درجات سے نوازیں گے۔ یہ قرآن کو سمجھنے اور اس میں دی ہوئی ہدایات پر عمل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان کی زندگی میں خدا پرستی، عبادت، بے لوث محبت و شفقت، خلوص، ایثار و قربانی، ہمدردی، خدمت خلق اور وفاداری کے جذبات بیدار ہوتے ہیں، اسی کی وجہ سے انسان کا ایمان پختہ ہو جاتا ہے، درحقیقت تعلیم ہی وہ زیور ہے جو انسان میں شعور پیدا کرتی ہے، یہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، یہ انسان کے دل، دماغ، آنکھ اور کان کو صحیح استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ انسان کا کردار سنوارتی ہے۔ یہ وہ قیمتی زیور ہے جس سے عورت اپنے مقام سے آگاہ ہوکر اپنا اور معاشرے کا مقدر سنوار سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کے اندر حلال اور حرام، جائز و ناجائز کی پہچان اور صحیح و غلط کی معلومات ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تعلیم کو ابتدا ہی سے بنیادی اہمیت دی اور حصولِ علم کو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ولازمی قرار دیا۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ قرآن و سنت کی اتنی تاکید کے باوجود بھی عورت کو تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں عورت کو تعلیم سے محروم رکھنا غیرت اور قوانین کی پاسداری و تہذیبی حیاداری کا ثبوت مانا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں عورت کو نسلیں پیدا کرنے والی فیکٹری سمجھا جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تعلیم عورتوں پر بھی فرض ہے، اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے اور انہیں تھوڑا بہت ہی پڑھانا صحیح سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں صرف نام لکھنا اور نام پڑھنا جانتی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ تعلیم نسواں کے متعلق غلط فہمی رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف روزگار کے لیے چاہیے ،اس لیے اس میدان میں صرف مردوں کو آنا چاہیے۔ اس وجہ سے عورتوں کے لیے تعلیم کی ضرورت کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ عورتیں بھی برابر کی حصہ دار ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں عموماً لڑکیوں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی، جو لڑکوں کو دی جاتی ہے کیونکہ لوگ لڑکیوں کو عموماً غیر کا دھن سمجھ کر اس کی تعلیم و تربیت اور اس کے بہتر مستقبل کے لئے اپنی دولت صرف کرنے میں کنجوسی کرتے ہیں جبکہ لڑکے کو اپنی نسل کا چراغ اور بڑھاپے کا سہارا تصور کر کے اس پر مال خرچ کر کے بیرونی ملکوں کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں آئے دن سسرال میں ظلم، تشدد اور جبر کا شکار ہوتی ہیں۔ جہیز کم لانے اور بیٹی کو جنم دینے جیسے غیر اختیاری گناہوں پر انہیں ذہنی وبدنی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ ۔۔( مضمون کا باقی حصہ اگلی سنیچر کو شائع ہوگا)
[email protected]