سید مصطفی احمد
علم قوموں کی ترقی میں سب سے بنیادی چیز ہے۔ محاسبہ نفس کے ساتھ ساتھ علم پوری کائنات کو سمجھنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ حصول علم کے لئے نجی اداروں کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کا ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔ دنیا کی مسابقت آرائی میں کوئی بھی کوتاہی تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ ترقی کے اس دور میں مسائل کی بھی کوئی کمی نہیں ہیں۔ حکومت کے سامنے اتنے مسائل ہیں کہ انہیںٹھیک کرنے میں صدیوں کا وقت درکار ہے۔ غربت اور بیماریوں کا رجحاناتنا عام ہے کہ حکومت کا ہر فرد اس میں سر کھپا کر بھی حل ڈھونڈے میں ناکام ہے۔ ایسے میں حکومت کا دھیان دوسرے اہم مسائل پر کم جاتا ہے۔ سازش ہی سہی دنیا میں ابھی قرضے کا بحران ہے۔ امریکہ قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔ مہنگائی نے بھی پوری دنیا میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کی ہے۔ جنگوں اور خانہ جنگی نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ عالمی حدت کی جگہ عالمی اُبال نے لی ہے۔ ہر سال ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 400 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے 2023 سے لے کر 2030 تک 6 ٹرلین ڈالروں کی ضرورت ہے۔ یہ اعداد و شمار ہندوستان کے موقر اخبار دی انڈین ایکسپریس میں شایع ہوئے تھے۔ ان حالات میں جب جینے کے مواقع کم ہوتے جارہے ہوں، تو حکومت کا تعلیمی شعبے کی طرف دھیان جانا محال ہے۔ اب ہم اگر صرف حکومت کی طرف نظر لگائے بیٹھیں کہ وہ ہماری مدد کو آئے گے، تو یہ بیوقوفی کی انتہا ہوگی۔ ایسے حالات میں نجی تعلیمی اداروں کی قدرو اہمیت بڑھتی ہے۔
حکومت پورے ملک کا نظام چلاتی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کو جامع پالیسیوں کے تحت فروغ علم کیلئے میدان میں اتارا جاسکتا ہے۔ گورنمنٹ کی نگرانی میں ان کے ضابطے ترتیب دیئے جاسکتے ہیں جن کے تحت وہ رہ کر کام کرسکتے ہیں۔ غرباء اور پسماندہ طلاب کا خیال رکھ کر ایسا نظام ترتیب دیا جاسکتا ہے جہاں صرف پڑھائی پر بنیادی زور ہو۔ نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو دوسرے غیر ضروری کاموں سے دور رکھا جاسکتا ہیں اور فروغ علم میں سرگرم رکھا جاسکتا ہے۔ اس سے حکومت کے کاندھوں پر سے کافی بوجھ ہلکا ہوگا۔ وہ دوسرے اہم معاملات پر اپنی توجہ مبذول کرسکتی ہے۔اگر یہ غلط نہ ہو، حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر کام میں نجی اداروں کی مدد لے۔
یہ سوال تو سب سے اہم ہے مگر اس کو ہی ہم نے پیٹھ پیچھے دھکیل دیا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جس سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ نجی اداروں کا رول زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اوپر ہم نے کچھ وجوہات کا ذکر کیاہے البتہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں نجی کھلاڑیوں نے جیسے میدان مارنا شروع کیا ہے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ آنے والا کل نجی اداروں کا ہی ہے۔ امراء کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔اس کے برعکس حکومتیں غریب سے غریب تر ہورہی ہیںمگر حکومت کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ان کی دولت پر ٹیکس لگا سکتی ہے یا پھر ان کے پیسے سے حکومت کی مدد کی جاسکتی ہے۔ تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچہ، وغیرہ میں نجی ادارے حکومت کے ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔اس قسم کی سوچ سے ملک کی حالت بہت حد تک ٹھیک ہوسکتی ہے۔ حکومت کے سست رفتار سے کام کرنے کے طریقوں سے ملک دنیا کی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس خلا ء کو نجی ادارے بخوبی پاٹ سکتے ہیں، خاص کر تعلیم کے شعبے میں۔
حکومت بھی اپنی سطح پر بہت کچھ کرنے کی اہل ہے۔ غیر ضروری کاموں پر وسائل خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ تعلیمی اداروں پر ہی زیادہ وسائل صرف ہوں۔ آج ہتھیار خریدنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کروڑوں روپے میں خریدے گئے ہتھیار کسی بھی کام کے نہیں ہیں۔ اس سے تو صرف کچھ ممالک کا بھلا ہوتا ہے مگر نصف سے زیادہ دنیا تباہی کا شکار ہوتی ہے۔ اگر ان غیر ضروری کاموں کے بجائے یہ پیسہ تعلیمی اداروں پر خرچ کیا جائے، تو امکان ہے کہ دنیا کے حالات سدھر جائیں، غرباء اور پسماندہ طبقات بھی تعلیم کے نور سے منور ہوسکتے ہیں، سرکاری تعلیمی اداروں کے بنیادی ڈھانچے کو موجودہ زمانے کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے، جدید قسم کی تعلیم سے اذہان کی وسعت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ کسی بھی طریقے سے علم کو علم کا مقام واپس دیا جائے۔ اس میں اگر حکومت کو نجی اداروں کی بھی مدد لینا پڑے،تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ ایک خوشگوار تعلیمی نظام دوراندیشی سے پیدا ہوتا ہے۔ اس میں اگر صرف دولت کمانے کی ہوس کہیں سے بھی در آئے، تو پھر تعلیم بیوپار کی شکل اختیار کرتی ہے۔ نجی تعلیمی اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے مالی فوائد کو مدنظر رکھیں لیکن سماجی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ملک کے مستقبل کی بھی فکر کریں۔ دولت آتی جاتی ہے مگر علم کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ کسی بھی قسم کی لاپرواہی اور کمی قوم کی نیا ڈبو سکتی ہے۔ وقت کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے ہم سب کو چاہئے کہ علم کے نور کو چار سو پھیلائیں ۔
رابطہ۔حاجی باغ، ایچ ایم ٹی، سرینگر کشمیر
فون نمبر۔9103916455
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)