دلّی کے دیال سنگھ کالج کا نام بدل کر ’’ وندے ماترے ماترم مہاودھیالیہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس اقدام کے خلاف عوام میں غم و غصے کا اظہار درج ہوا ۔ سوال صرف ایک کالج کے نام بدلنے کا نہیں، یہ ایک ایسے منفی اور ناپسندیدہ رجحان کی طرف اشارہ ہے جس کی علامتیں بھی اور نتائج بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ مذکورہ کالج کا یہ نام 70؍ سال سے چل رہا ہے اور یہی نام لوگوں کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ پہلے یہ کالج صرف شام کے وقت کے لئے مخصوص کالج تھا ، اب سارے دن یا ڈے کالج کر دیا گیا ہے لیکن اس تبدیلی کے لئے نام بدلنے کی جب کوئی ضرورت نہیں تھی تو اس کو سیاست کے متوالوں نے کس منطق کے تحت بیک جنبش قلم بدل دیا۔ واضح رہے کہ اس نازیبا حرکت سردار دیال سنگھ مجے ٹھیا کی نامور شخصیت سے بے اعتنائی بر تنے کا گناہ بھی مول لیا گیا اور ساتھ میں کالج کے سابقہ طلباء کی یادیوں کے ساتھ بھی یہ ایک طرح کا ظلم کیا گیا، ان کی کھٹی میٹھی یادیںتو اس کالج کے اسی نام سے جڑی ہیں، ان کے سرٹیفیکٹ پر اسی کالج کا نام لکھا ہے اور ان کی کتابوں کے اوراق پر یہی نام درج ہے۔ کیا ان طلباء کے دل وجگر میں پھانس سی پیوست نہیں ہوگی کہ جس کالج سے انہوں نے درسی تعلیم حاصل اور ذہنی تربیت حاصل کی ہے وہ اب موجود ہی نہیں ہے اور وہ ماضی کا ایک دھندلکا ہے۔ اس لئے یہ نام بدلی اصل میں کالج اور اس سے وابستہ یادوں کی تیشہ زنی کے مترادف ہے ۔
کسی خاص ضرورت کے لئے کالج کا نام بدلنا مانا جا سکتا تھا لیکن سب سمجھتے ہیں کہ اس تبدیلی ٔ نام کی وجوہات کچھ اور ہی ہیں جو ایک مخصوص وچارا دھارا کا پتہ دیتی ہیں۔ بادی النظر میں یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ نئے نام کرن کے پیچھے یہ ذہنیت کا م کر رہی ہے کہ سب سے پہلے تو ’’وندے ماترم ‘‘ کا تنازعہ کھڑا کر کے لوگوں کو آپس میں تقسیم کیاجائے تاکہ فرقہ واریت کوبھڑکاؤ ملے جو ووٹ بنک سیاست کای ناگزیر ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بات سب جانتے اور مانتے ہیں کہ جن لوگوں کو ’’وندے ماترم‘‘ کے نعرہ سے بوجوہ رغبت نہیں، ان کے جذبات کو درکنار کر نے کا یہ ایک حسین بہانہ ہے۔ مانا کہ یہ ملک کی پارلیمینٹ کا پاس کیا ہوا قانون ہے اور سبھی شہریوں کو اس کا احترام کرنا چاہیے، پھر بھی اب تک اس نعرے کا کم ہی استعمال ہوتا تھا اور ہر سرکاری تقریب میں ’’جن گن من‘‘ کے قومی ترانے کو گنگنایا جاتا رہا ہے۔ بھاجپا کے اقتدار سنبھالتے ہی یہ معاملہ جان بوجھ کر جھگڑے کا مدعا تب بنا جب یہ نعرہ لگنے لگا کہ ’’بھارت میں رہنا تو وندے ماترم کہنا‘‘۔حالانکہ قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونا تو لازمی بنایا گیا ہے لیکن قانون میں ہر شہری کے لئے اسے گنگنانے کی کوئی شرط یا وجوب نہیں۔ لوگوں کی سمجھ میں یہ چیستان بھی نہیں آتا کہ اس ملک کاایک ہی ’’راشٹریہ گیت‘‘ اور ایک ہی ’’راشٹریہ گان‘‘ کیوں؟ پتہ نہیں کسی اور ملک میں بھی ایسا ہے یا نہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے شہر لاہو ر میں بھی ’’دیال سنگھ کالج‘‘ قائم ہے۔ دلّی کی یہ انوکھی خبریں جب پارگئیں کہ دلی میں اس کالج کانام بدل دیا گیا ہے تو وہاں کے پروفیسر مصطفیٰ نے اس پر اپنے تبصرے میں بتایا کہ ایک بار لاہور کالج میں بھی کچھ فرقہ پرست عناصر نے اس تعلیم گاہ کا نام بدل کر’ ’داتا صاحب کالج‘‘ رکھنے کی مہم چلائی تھی لیکن روشن دماغ اور ترقی پسند خیالات لوگوں کی طرف سے ا س تجویز کی کافی مخالفت کے بعد اس کو روک دیاگیا بلکہ رد کیا گیا۔ آج لاہور میں دیال سنگھ کالج، دیال سنگھ لائبریری اور دیال سنگھ کالج روڈ فخر کے ساتھ ماضی کی اپنی خصوصیات کے ساتھ من وعن موجود ہیں۔ مبصرین اس بات کا خوف اور خدشہ محسوس کرر ہے ہیں کہ کہ اگر دلّی میں دیال سنگھ کالج کی نام بدلی کو نہیں روکا گیا تو پاکستان کی اپنی شدت پسند جماعتیں جن کا وہاں بھی سماج کے بعض حصوں میں خاصا اثرورسوخ ہے، طاقت پکڑ سکتی ہیں اور وہ بھی تاریخ کو مسخ کر نے کی ٹھان سکتی ہیں ۔
اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کسی کو کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے کہ سردار دیال سنگھ مجے ٹھیا کا تعلیم کے شعبے میں بہت بڑا کردار رہا ہے۔ انہوں نے اس وقت ا سکولوں اور کالجوں کے لئے زمینیں دیںجب تعلیم وتدریس کی اہمیت کا ابھی دور دور بھی چرچا نہیں چلا تھا۔ یہ کہنا سچائی کے ساتھ زیادتی ہوگی کہ سردار دیال سنگھ نے یہ زمینیں اپنا نام کو شہرت دینے کے لئے دان کر دیں ،اس لئے بھی ہمارا یہ انسانی فرض بنتا ہے کہ ہم اس شخصیت کے نام اور تعلیمی کردار کو قائم ودائم رکھیں۔ اس سے بعض دوسرے لوگو ںکو بھی تعلیم وتعلم کے لئے اپناکچھ قربانیاں کرنے یا یوگ دان کی ترغیب مل سکتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ان لوگوں کی شخصیات کو اُبھار نے اور زندہ رکھنے سے تعلیم کے شعبے میںعوامی تعاون واشتراک کا راستہ کھل جاتا ہے۔ البتہ زندہ قومیں اپنی شخصیات کو صرف سائن بورڈوں تک زندہ نہیں رکھتیں بلکہ ان کے بلیدان اور قربانیوں کی قدر کر تے ہیں ۔
دیال سنگھ مجے ٹھیا نے لاہور سے انگریزی کا روزانہ اخبار’ ’ٹربیون‘‘ بھی نکالا تھا۔ آج کل بہت سارے اخبارات نکل رہے ہیںجو ’’ ٹربیون ‘‘سے آگے بھی نکل گئے ہیں لیکن اس زمانے میں روزانہ اخبار شروع کرنا اور اس کا اپنا پریس لگانا کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔ ملک کی تقسیم کے بعد’’ ٹریبون‘‘ کا کاروبار انبالہ چلا گیا اور اس کے بعد اب چنڈی گڑھ ہے لیکن آج بھی ہر سال سردار دیال سنگھ مجے ٹھیا کے جنم دن پر انگریزی، ہندی اور پنجابی ’’ ٹربیون‘‘ کے پہلے صفحے پر دیال سنگھ مجے ٹھیا کی شاندارتصویر ہوتی ہے،اس کو یاد کیا جاتا ہے اور خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ مذکورہ کالج انتظامیہ کمیٹی کو نام بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں، وہ الگ بات ہے، لیکن اس کی کوئی ٹھوس وجوہات نہیں بتائی گئی ہیں۔ جب اس پر اعتراض ہوئے تو کالج کی کمیٹی کی ایک رُکن نے کہا کہ جن کو ’ ’وندے ماترم‘‘ پسند نہیں وہ دیش چھوڑ کر چلے جائیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ راشٹر سوئم سنگھ کی زبان ہے اور اس سے نام بدلنے کا مقصد وفلسفہ بھی بے پردہ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ یہاں سوال وندے ماترم کو پسند کرنے یا نہ کرنے کا نہیں، کالج کا نام بدلنے کا ہے، یہاں سوال اُس نیک و ہو ش مند بندے کا نام چھپانے کا ہے جس نے کالج کے نام زمین دی تھی۔سردار دیال سنگھ کی کوئی اولاد نہیں تھی، وہ ا سکول کالج جیسے تعلیمی ادارں کو ہی اپنے بیٹا کہتا تھا اور اپنی جائیداد اُن کے نام کر دی تھی۔ اس طرح کے نیک اور مفید جذبات کا دنیا میں احترام ہونا چاہیے۔ بھارت کے سابقہ مرکزی وزیر بلونت سنگھ رامو والیا کا کہنا ہے کہ ہندو مذہب میں تو ’پُنہّ کا مہاتو‘ (ثواب کی اہمیت) بہت بڑی مانی گئی ہے۔ ان سے سوال ہے کہ اس طرح ثواب کو نکارنا کہاں کا ہندوازم ہے؟
آج کل اخباروں اور ٹی وی پر کالج کے نام بدلنے کا مدعا ’’ پدماوتی ‘‘ فلم کے مسئلے کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی فلم بنانے والے یا کتاب لکھنے والے کو ایسا کوئی حق نہیں کہ لوگوںکی بھاؤناوں کو ٹھیس پہنچائے لیکن اس بات کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا وہ لوگ یہ فتویٰ ادین گے جو فلم دیکھے بغیر ہی اعلان کر رہے ہیں کہ فلم کے کرداروں کا سر کاٹ کر لانے والے کو دس کروڑ رپیہ انعام دیا جائے گا؟ ا فسوس کہ ان میں ہمارے ذمہ وار سیاستدان بھی شامل ہیں۔ کسی فلم سے کسی کی بھاؤنا یا جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے یا نہیں ،یہ دیکھنا سینسر بورڈ کا کام ہے۔ ہاں اگر کسی کو سینسر بورڈ کے فیصلے پر اعترا ض ہو تو وہ عدالت میں جا سکتا ہے لیکن کسی کا سر کاٹ لانے کا کسی کو حق ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ کیاہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو ہے؟بہرحال سردار دیال سنگھ مجے ٹھیا کو صرف سکھ یا پنجابی کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے، وہ تمام انسانیت کا نمائندہ تھا لیکن یہ شیشے کی طرح صاف ہے کہ اس کالج کا نام بدلنے والوں نے یہ کام فرقہ پرست ذہنیت سے کیا ہے۔ اس سے کسی ایک فرقے یا جماعت کے عقیدے کو ہی دھکہ نہیں لگا بلکہ سبھی مذہبی غیر جانب داروں اور جمہوریت پسند لوگوں کی عقیدتوں کو ضرب ماری گئی ہے۔ اس اقدام سے راقم جیسے لوگوں کی بھاوناؤں کو بہت ٹھیس پہنچی ہے۔ جیسا کہ شروع میں کہا گیا کہ بات ایک کالج کے نام کی نہیں بلکہ سوچنا یہ چاہیے کہ اگر یہ رجحان روکا نہیں گیا تو’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ‘‘ کے لئے یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہوگا۔
رابطہ 09878375903