Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
تعلیم و ثقافتکالم

تعلیم برائے روزگار یا تعلیم برائے انسانیت؟ فہم و فراست

Towseef
Last updated: June 10, 2025 12:26 am
Towseef
Share
10 Min Read
SHARE

مختار احمد قریشی

انسانی زندگی میں تعلیم کی اہمیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ لیکن یہ سوال ہمیشہ سے اہلِ دانش کو متوجہ کرتا رہا ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد کیا ہونا چاہیے؟ کیا تعلیم صرف اس لیے حاصل کی جائے کہ انسان ایک اچھی نوکری حاصل کر سکے، یا اس لیے کہ وہ ایک بہتر انسان، باشعور شہری اور اخلاقی کردار کا حامل فرد بن سکے؟ آج کا تعلیمی نظام زیادہ تر ’’تعلیم برائے روزگار‘‘ کے اصول پر استوار ہوتا جا رہا ہے، جس میں تعلیم محض ایک ہنر یا تکنیکی قابلیت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ والدین بچوں کو صرف اس لیے تعلیم دلواتے ہیں کہ وہ اچھی ملازمت حاصل کریں، اعلیٰ تنخواہ پائیں اور دنیاوی آسائشات میں زندگی بسر کریں۔ اس سوچ نے تعلیم کو ایک معاشی آلہ بنا دیا ہے، جس کا بنیادی مقصد ملازمت کی دوڑ میں کامیابی حاصل کرنا بن چکا ہے۔ تعلیم برائے روزگار میں انسان کی شخصیت کا جامع ارتقاء اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے۔

دوسری جانب ’’تعلیم برائے انسانیت‘‘ ایک ایسا تصور ہے جو تعلیم کو محض معاشی ضرورت سے بالاتر، ایک اخلاقی، روحانی اور سماجی ذمہ داری کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق تعلیم کا مقصد صرف معاش کمانا نہیں بلکہ انسان میں وہ اعلیٰ اقدار پیدا کرنا ہے جو اسے ایک باکردار، ہمدرد، دیانت دار اور خدمت گزار فرد بنائیں۔ ایسے افراد معاشرے کو امن، انصاف، رواداری اور باہمی احترام کا گہوارہ بناتے ہیں۔ اگر تعلیم صرف ملازمت کی تیاری بن جائے اور انسانیت، ہمدردی، سچائی، دیانت داری، سماجی خدمت اور کردار سازی کو نظر انداز کر دے تو پھر معاشرہ صرف ’’ڈگری یافتہ جاہلوں‘‘ سے بھرا ہوا ہوگا۔ دنیا کے عظیم مصلحین، فلسفی، سائنس دان اور مفکرین نے تعلیم کو انسانیت کی خدمت کا ذریعہ سمجھا۔ تعلیم برائے انسانیت کا مطلب ہے،دلوں کو جوڑنا، ذہنوں کو بیدار کرنا اور سماج کو اخلاقی بنیادوں پر مضبوط کرنا۔

دورِ حاضر میں جہاں روزگار کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، وہیں تعلیم کے وسیع تر مقاصد کو نظر انداز کرنا بھی المیہ بن سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ’’تعلیم برائے روزگار‘‘ اور ’’تعلیم برائے انسانیت‘‘ کے درمیان توازن قائم کریں۔ ہمیں ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو بچوں کو نہ صرف تکنیکی مہارتیں فراہم کرے بلکہ ان کے اندر اخلاقی اقدار، انسان دوستی، انصاف، دیانت، خدمت، برداشت اور قیادت کے جوہر بھی پیدا کرے۔ تعلیمی ادارے صرف پروفیشنل پیدا نہ کریں بلکہ ایسے انسان پیدا کریں جو معاشرے کی بہتری کے لیے سوچ سکیں، بول سکیں اور عمل کر سکیں۔ نصاب، اساتذہ، والدین اور پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ تعلیم کا حقیقی مقصد صرف روزگار کا ذریعہ بننا نہیں، بلکہ ایک صالح معاشرے کی تعمیر بھی ہے۔ اگر ہم آج یہ شعور نہ پیدا کر سکے تو کل کا انسان مشین تو ہوگا، لیکن دل اور احساسات سے خالی۔

یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ تعلیم برائے روزگار نے کروڑوں لوگوں کی زندگی بدل دی ہے۔ پیشہ ورانہ تعلیم، ٹیکنیکل ادارے، انجینئرنگ، میڈیکل، مینجمنٹ اور آئی ٹی جیسے شعبے لاکھوں نوجوانوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنا چکے ہیں۔ لیکن اس تعلیم کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جب انسان کی تعلیم کا ہدف صرف اور صرف معاش کمانا بن جاتا ہے، تو وہ زندگی کے اعلیٰ اخلاقی، روحانی اور سماجی پہلوؤں سے دور ہو جاتا ہے۔ وہ انسان جو صرف اپنی تنخواہ، ترقی اور آسائشات کے بارے میں سوچتا ہے، وہ کبھی کسی یتیم، مظلوم، یا بے سہارا انسان کے درد کو محسوس نہیں کر سکتا۔ ایسے انسان کی کامیابی سطحی اور وقتی ہوتی ہے، جبکہ معاشرے کی اصل ترقی کردار، خیر خواہی اور انسانی ہمدردی سے ممکن ہوتی ہے۔

تعلیم برائے انسانیت ہمیں سکھاتی ہے کہ علم صرف ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے ہونا چاہیے۔ ایک ڈاکٹر اگر محض دولت کے حصول کے لیے کام کرے تو وہ مریض کو ایک ’’گاہک‘‘ سمجھے گا، لیکن اگر وہ انسانیت کے جذبے سے لبریز ہو، تو وہ ہر مریض کو اپنا بھائی یا بیٹی سمجھ کر علاج کرے گا۔ اسی طرح ایک استاد اگر تنخواہ کی خاطر پڑھا رہا ہے، تو وہ رسمی انداز میں فرائض انجام دے گا، لیکن اگر اس میں انسانیت، مشن اور جذبہ ہو، تو وہ نسلوں کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ تعلیم برائے انسانیت وہ روشنی ہے جو دلوں کو جلاتی ہے، کردار بناتی ہے اور معاشروں کو امن کا گہوارہ بناتی ہے۔ ایسی تعلیم فرد کو ’’مشین ‘‘کے بجائے ایک ’’محبت کرنے والا انسان‘‘ بناتی ہے۔

آج کا تعلیمی نظام خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، عملی زندگی سے دور اور صرف امتحان و رٹا بازی تک محدود ہو گیا ہے۔ طلبہ کا سارا زور نمبر لینے، مقابلے میں آگے نکلنے اور ملازمت حاصل کرنے پر ہوتا ہے، جبکہ اخلاقیات، سماجی خدمات اور روحانی ترقی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں نصاب اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ طلبہ معلومات کے انبار تو جمع کر لیتے ہیں، لیکن ان کے اندر احساس، شعور، فہم اور خدمت کا جذبہ پروان نہیں چڑھتا۔ نصاب میں انسانیت، حقوق العباد، سماجی انصاف، باہمی رواداری اور معاشرتی خدمت جیسے موضوعات کو سیر حاصل جگہ نہیں دی جاتی۔ نتیجتاً ہم ایسے افراد تیار کر رہے ہیں جو ڈگری یافتہ تو ہیں، مگر سماج کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔

شخصیت سازی تعلیم کا ایک ایسا پہلو ہے جس پر اگر توجہ نہ دی جائے، تو تعلیم کا مقصد ادھورا رہ جاتا ہے۔ ایک طالب علم صرف نصاب کی کتابیں یاد کر کے امتحانات میں کامیاب ہو جائے، یہ کافی نہیں۔ اس کے اندر سچ بولنے کی جرأت، برائی سے نفرت، کمزور کا ساتھ دینے کی ہمت اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہونی چاہیے۔ جب تعلیم برائے انسانیت کو فوقیت دی جاتی ہے، تو طلبہ کے رویّے، گفتار، افکار اور کردار میں وہ نرمی، فہم اور محبت پیدا ہوتی ہے جو ایک مہذب سماج کی ضرورت ہے۔ اساتذہ، والدین اور نظام تعلیم کو ایسے ماحول کی تشکیل کرنی چاہیے جہاں طلبہ صرف علم نہیں بلکہ زندگی جینے کا سلیقہ بھی سیکھیں۔

اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف روزگار کے لیے ضروری ہے تو ہم انسانی ترقی کے بڑے مقصد کو کھو بیٹھتے ہیں۔ اصل کامیابی تب ہے جب تعلیم ہمیں روزگار بھی دے اور انسانیت بھی سکھائے۔ آج کی دنیا کو ایسے انجینئر، ڈاکٹر، وکیل اور سرکاری افسران درکار ہیں جو صرف پروفیشنل نہ ہوں بلکہ انسان دوست بھی ہوں۔ وہ اپنے فرائض کو عبادت سمجھ کر انجام دیں۔ ایک استاد اگر تعلیم کو عبادت سمجھ کر دے، تو وہ بچوں میں صرف علم نہیں، بلکہ احساس بھی منتقل کرے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم تعلیم کے دونوں پہلوؤں کو جوڑیں معاشی خود کفالت اور اخلاقی تربیت۔ یہ امتزاج ہی ایک متوازن اور پرامن سماج کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

آج کا انسان ترقی کی دوڑ میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ وہ اکثر بھول جاتا ہے کہ ترقی صرف بلند عمارتوں، مہنگی گاڑیوں یا بھاری تنخواہوں کا نام نہیں، بلکہ اصل ترقی وہ ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے۔ تعلیم اگر صرف روزگار کا ذریعہ بن جائے اور انسانیت کی بنیادیں کھو دے تو ایسی تعلیم معاشرے کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر تعلیم صرف اخلاقیات سکھائے مگر زندگی کے عملی میدانوں میں انسان کو بےسہارا چھوڑ دے تو وہ بھی ناکافی ہے۔ ہمیں ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو روزگار بھی دے اور انسانیت بھی سکھائے، عقل کو بیدار بھی کرے اور دل کو نرم بھی بنائے، فکر کو وسعت بھی دے اور کردار کو استقامت بھی۔ یہی تعلیم انسانیت کی اصل خدمت ہے اور یہی تعلیم فرد، معاشرہ اور قوم کی فلاح کا واحد راستہ ہے۔تعلیم کا اصل جوہر یہ ہے کہ انسان اپنے علم سے دوسروں کو نفع دے، اپنے رویے سے محبت بانٹےاور اپنے کردار سے سچائی کا علم بلند رکھے۔ یہی تعلیم برائے انسانیت ہے اور یہی تعلیم برائے روزگار کا اعلیٰ ترین درجہ بھی۔
(کالم نگار پیشہ سےایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
عید کے دن تھنہ منڈی میں صفِ ماتم | المناک سڑک حادثے میں دو نوجوان جاں بحق،1زخمی
پیر پنچال
گورنمنٹ پرائمری سکول اپر سیداں پھاگلہ کی عمارت کھنڈر میں تبدیل بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ،والدین پریشانی میںمبتلا
پیر پنچال
ڈوڈہ کے منو گندوہ میں آتشزدگی کی پراسرار واردات چار منزلہ رہائشی مکان خاکستر ،بھاری مالیت کا سامان جل کر راکھ
خطہ چناب
سانبہ میں زنگ آلود ماٹر شل بر آمد | بم ڈسپوزل سکارڈ نے ناکارہ بنایا
جموں

Related

تعلیم و ثقافتکالم

کتابی تعلیم اور عملی علم۔کون پڑھا لکھا اور کون نا خواندہ؟ تلخ و شریں

June 10, 2025
تعلیم و ثقافتمضامین

طلباء میں عدم توجّہ کا چلن فکرو ادراک

June 10, 2025
کالممضامین

کیا ہے امریکی گولڈن ڈوم پروجیکٹ ؟

June 10, 2025
کالممضامین

سادگی سے ریاکاری تک غور طلب

June 10, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?