ماضی قریب تک ہندستان کے اہل حدیث مدارس ومکاتب اورجامعات میںتجوید و تحفیظ قرآن کریم کا اہتمام کم کم ہوا کرتا تھا۔ان عربی مدارس ومکاتب میں نہ تو تحفیظ کے شعبے ہوتے تھے نہ ہی تجوید وقرات کااہتمام ہوتا تھا۔عربی کے ابتدائی درجات میں ترجمۂ قرآن کریم تو پڑھایا جاتا تھا مگر زیادہ تر عربی مدارس میں تحفیظ قرآن کا کوئی حصہ یا تجوید کی کوئی کتاب شامل نصاب نہیں ہوتی تھی۔یہ بات سخت مگر سچ ہے کہ ہمارے یہاں بڑے بڑے علماء،خطباء،دعاۃ ومبغلین، شیوخ الجامعات وشیوخ الحدیث تک علم تجوید سے ناآشنا ہوتے تھے اور بغیر تجوید کے اصولوں کی رعایت کے قرآن کریم پڑھتے بھی تھے۔مجھے خود فضیلت سال اخیر میں پہلی مرتبہ تجوید پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ابھی تک اخفا ، ادغام، غنہ،مد لازم، مدغیر لازم، مد متصل، مد منفصل ،قلقلہ یہاں تک کہ تفخیم لفظ جلالہ (اللہ) وغیرہ کی کوئی جانکاری نہیں تھی۔فضیلت سال اخیر میں ایک گھنٹی تجوید کے نام پر ملی لیکن وہ بھی تجوید کے استاد کی چرب زبانی کی نذر ہوگئی۔ ہمیں ان کے درس میں تجوید سے روشناس ہونے کا موقع کم ملا، ان کی تقریروں سے فیض یاب ہونے کا موقع زیادہ ملا۔ چنانچہ فراغت تک قرآن کریم کی صحیح قرأت کا طریقہ نہیں آیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں مدینہ یونیورسٹی پہنچا توتحفیظ قرآن کریم کی پہلی ہی گھنٹی میں جب راقم السطور نے سورۂ فاتحہ پڑھا تو دیکھا کہ استاد پیچھے والے طلبہ کو دیکھ رہے ہیں، تو میں نے بھی مڑ کر دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ میری قرأت پر وہ ہنس رہے تھے یا مسکرا رہے تھے۔یہ دیکھ کر مجھے کسی قدر خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ کلیۃ اللغۃ میں مجھے مصری قاری شیخ عبد السلام خاطر سے تجوید سیکھنے کا موقع ملا جو مصحف مدینہ کو مرتب کرنے والی کمیٹی کے ممبر اور کلیۃ القرآن کے استاذتھے۔جامعہ اسلامیہ میں داخل ہونے والے بیشتر طلبہ کا یہی حال ہوتا تھا۔ یوں تو قرآن مجید کی صحیح تلاوت کے لیے تجوید اور قرأت کے اصولوں سے مستغنی ہونا ممکن نہیں مگر مدینہ یونیورسٹی کے شش ماہی اور سالانہ امتحانات میںحفظ قرآن کے ساتھ تجوید پر بھی نمبر دیے جاتے تھے ،اس لیے جلد از جلد اس کمی کا دور کیا جانا ازحد ضروری تھا۔کلیۃ القرآن کے ایک استاذجو شنقیطی تھے مغرب و عشاء کے درمیان مسجد نبویؐ میںباب الرحمہ کے پاس تجوید سکھایا کرتے تھے ۔ہمارے batchکے چند ہندستانی طلبہ موصوف کے درس میں حاضر ہوکر تجوید سیکھنے لگے۔ مجھے بھی معلوم ہوا تو میں نے بھی حاضری دی اور تجوید کی مشق کرنے لگا۔ ایک دن انہی کے درس میںمدینہ یونیورسٹی کے ایک افریقی طالب علم نے مجھے بتایا کہ مجمع ملک فہد سے شائع ہونے والے مصحف مدینہ میں تجوید کے اصول و ضوابط کی پابندی کرکے حرکات وسکنات کو مرتب کیاگیا ہے۔ مصحف مدینہ کی فلاں فلاں علامتوں کو اگر غور سے دیکھا جائے اور اسی اعتبار سے تلاوت کی مشق کی جائے توساری خامیاں بڑی آسانی سے اورخود بخود دور ہوسکتی ہیں۔
جس طرح علم نحو کا طالب علم اگر مرفوعات ومنصوبات اور مجرورات پر دسترس حاصل کرلے، تو اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ عربی کی کوئی بھی عبارت تقریبا ًصحیح طریقے سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔اسی طرح غنہ، ادغام،اخفا، اظہار، مد لازم اور غیر لازم وغیرہ علم تجوید وقرأت کے ایسے اصول ہیں کہ ان کی معرفت کے حصول کے بعد قاری کافی حد تک کلام اللہ کی صحیح تلاوت کرسکتا ہے۔ مصحف مدینہ منورہ میں ایسے رموز، علامتیں اور ضبط کے ایسے اشارے بنائے گئے ہیں کہ ان کا لحاظ کرتے ہوئے اگر تلاوت کی جائے تو بغیر کسی کتاب یا معلم کی مدد کے اخفا اظہار ادغام اورمد لازم وغیرہ تمام صفات کی احسن طریقے سے مشق کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ میں نے مصحف مدینہ میں دی گئی ان علامتوں کے سہارے قرات کی مشق کی اور پھر تجوید کی جو پریشانی تھی وہ ختم ہوگئی اور پھر میں ان کے درس میں حاضر نہیں ہوا۔
اللہ تعالی کا فضل وکرم اور اس کااحسان ہے کہ سعودی جامعات میں کثرت سے ہندوستانی جامعات کے طلبہ کے داخلے کی وجہ سے اب تجوید وقرأت کے عدم اہتمام کی شکایت ختم ہوچکی ہے۔ اب ہمارے بیشتر فضلاء علم تجوید سے بھی واقف ہوتے ہیں اوراس کے اصولوں کی رعایت کے ساتھ قرآن کریم کو خوب صورت آواز میں پڑھنے پر قدرت بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے عربی مدارس میں اب تحفیظ کے بھی شعبے قائم ہیں اور تجوید کا بھی اہتمام کیاجاتا ہے۔پہلے ہندوستان میں مصر کے قاری باسط ایک بہت بڑے قاری کی حیثیت سے شہرت رکھتے تھے مگر آج کے گلوبل گاؤں میں قاری باسط کے ساتھ ساتھ شیخ سدیس، شیخ شریم، شیخ حذیفی، ماہر معیقلی،عبد اللہ بصفراور احمد العجمی جیسے قراء کی قرات سب کے کمپیوٹر میں، موبایل میں اور جیب میں موجود ہے۔ اب تو ان کی آوازوں کی نقل کرنے والے کئی قراء بھی مل جاتے ہیں۔اسی لیے مکاتب ومدارس میں اب تجوید وقرأت کے اہتمام میں پہلے کی بہ نسبت کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ مختلف انداز میں مختلف کتابیں بھی اس حوالے سے لکھی جاچکی ہیں۔
کچھ سال قبل میں نے ایک عربی مدرسے کا دورہ کیا تو میں نے دیکھا کہ ناظرہ قرآن والے بچوں کو نورانی قاعدہ بڑے اہتمام کے ساتھ پڑھایا جارہا ہے۔ میں نے پوچھاتو پتہ چلا کہ نورانی قاعدہ اگر کسی بچے کو اہتمام کے ساتھ پڑھادیا جائے تو بچپن میں ہی اسے تجوید وقرات کی مشق ہوجاتی ہے اور وہ خوب صورتی اور صحت کے ساتھ قرآن پڑھ سکتا ہے۔گذشتہ ہفتے مجھے شیخ شمیم احمد ریاضی اور شیخ محفوظ الرحمن ریاضی کی سلسلہ تعلم کی ایک اورتازہ کتاب ’’تعلم القرآن‘‘ کے نام سے موصول ہوئی۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہی مجھے نورانی قاعدہ کی یاد آگئی۔ بعد میں مرتبین کے مقدمے پر نظر ڈالی تو انہوں نے اس میں ذکر کیا ہے کہ اس کتاب کو مرتب کرنے میں انہوں نے نورانی قاعدے کو بھی مد نظر رکھاہے۔اس کتاب کو دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نورانی قاعدہ کا عربی version ہے البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کو نورانی قاعدے کے pattern پر عربی میں ترتیب دیا گیا ہے۔پیٹرن تقریبا وہی ہے البتہ تمام کی تمام مثالیںنورانی قاعدہ سے مختلف اور الگ ہیں۔
’’تعلم القرآن‘‘ کل ۷۸ صفحات اور ۳۹ سبق پر مشتمل ہے۔پہلے سبق میں حروف تہجی کی پہچان اور ان کے مخارج کو سکھانے کا اہتمام کیاگیا ہے۔دوسرے سبق میں مختلف متصل وغیر متصل حروف کی مختلف شکلوںکی شناخت کے ساتھ ان کی ریڈنگ اورانہیں رنگوں سے بھرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔تیسرے ، چوتھے، پانچویں، چھٹے، ساتویں،آٹھویں اورنویں سبق میںمختلف حرکات یعنی زبر، زیر ، پیش، تنوین (تنوین مفتوح، مضموم اور مکسور) کی شناخت اور مشق کرائی گئی ہے۔دسویں، گیارہویں اور بارہویں سبق میں حروف مد کی تعریف کے ساتھ ان کی مشق کرائی گئی ہے۔ اس کے بعد تیرہویں اور چودہویںسبق میں حرف لین کی تعریف اور مشق دی گئی ہے تو پندرہویں سبق میں تشدید کی تعریف اور مشق۔ا س کے بعد سولہویں سبق سے کتاب کے اخیر تک باقاعدہ تجوید کے اصولوں کی مشق کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔مد متصل، مدمنفصل، مدلازم مدغیر لازم،غنہ ،ادغام، اظہار، اخفاء،قلب، تفخیم راء یعنی راء کو پُر پڑھنے یا نہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ لفظ جلالہ یعنی لفظ اللہ کو پُر پڑھنے یا نہ پڑھنے کی مشق کے ساتھ ساتھ حروف مستعلیہ، حروف مقطعہ، علامات وقف، سکتہ اور امالہ وغیرہ کی شناخت اور مشق کے ساتھ کتاب ختم ہوجاتی ہے۔کتاب میں جتنی مثالیں دی گئی ہیں سب کی سب قرآنی آیات سے لی گئی ہیں۔میں سوچ رہا تھا کہ بظاہریہ کتاب تجوید کی مشق کراتی ہے۔ اور اگر یہ کتاب تجوید کی مشق کراتی ہے تو اسے تعلم القرآن کے بجائے تعلم التجوید والقراء ۃ کیوں نہ نام دیا جائے لیکن تعلم القرآن اس کتاب کا مناسب نام ہے کیونکہ تجوید کے اصولوں کی مشق کے بعد انسان قرآن کی درست تلاوت پر قادر ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس کا نام تعلم القرآن مناسب اور درست ہے۔ ایک سوال یہ بھی ذہن میں آیا کہ یہ کتاب عربی میڈیم میں ہے جب کہ پڑھنے والے بچے غیر عرب ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنوب کے مدارس اور اسکولوں میں جہاں اردو نہیں بولی جاتی یا جہاں نورانی قاعدہ جیسی تجوید کی آسان کتابیں میسر نہیں یا اردو میں موجود ان کتابوں کا پڑھانا ممکن نہیں ایسے میں یہ کتاب بہت زیادہ مفید ثابت ہوگی۔میں اکثر سوچتا ہوں اور اس کتاب کو پڑھنے کے بعد بھی مجھے یہ خیال آیا کہ مصحف مدینہ میں جن حرکات وسکنات کی رعایت کی گئی ہے ہندوستانی رسم الخط والے قرآن کریم میں اگر انہیں حرکات وسکنات کی رعایت کے ساتھ نیا مصحف تیار کرایا جائے اور تعلم القرآن جیسی کتابوں میں ان اصولوں کی رعایت کرکے تجوید سکھائی جائے تو تجوید کی تعلیم اور قرات قرآن کریم کو اور زیادہ آسان بنایا جاسکتا ہے۔
حاصل بحث یہ کہ شیخ شمیم ریاضی اور شیخ محفوظ کی یہ کتاب ’’تعلم القرآن‘‘ سلسلۂ تعلم اللغۃ العربیۃ کا تکملہ شمار کی جائے گی کیونکہ عربی سکھائی جائے اور قرآن کریم کی صحیح قرات نہ آئے تو بات نہیں بنتی۔نہ ہی عربی بولنے والا صحیح طرح سے عربی بول سکتا ہے۔ مخارج وصفات حروف نہ جاننے والے جب عربی بولتے ہیں تو وہ عالم عرب کی نہیں ہندستانی عربی ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ تعلم اللغۃ العربیۃ کے پیکج کو مکمل کرنے کے لیے اس طرح کی کتاب ترتیب دی جائے۔چنانچہ فاضل مولفین نے یہ کتاب ترتیب دی۔بلاشبہ یہ کتاب بہت سادے، سہل اور آسان انداز میں تمام قواعد وضوابط کی اس طرح مشق کراتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے علاوہ بڑوں کے لیے بھی یہ کتاب یقیناتجوید وقرات سیکھنے میں بہت ممد ومعاو ن ثابت ہوگی۔یہ کتاب بھی ’’تعلم اللغۃ العربیۃ‘‘ کے مختلف اجزاء کی طرح خوب صورت، جاذب نظر اور رنگین ہے۔امید کرتے ہیں اس کی قیمت بھی کم رکھی گئی ہوگی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔ اللہ کرے یہ کتاب سند قبولیت حاصل کرے اور اس کے مرتبین اور ناشر کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہو۔ آمین۔
رابطہ :صدر شعبۂ عربی، اردو، اسلامک اسٹڈیز، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموںوکشمیر
9086180380