بلا شبہ اس دورِجدید میںبغیر ِ تعلیم کے انسانی زندگی کوئی وقعت نہیں رہی ہے اورنا خواندگی کو سب سے بڑی حماقت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اسی لئے اب تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو نظر انداز کرنا ذلت کے مترادف قرار دیا جارہا ہے۔جس کے نتیجے میںتعلیم کا معیار تیزی سے بدل رہا ہے۔ جہاں کبھی کتابیں، استاد اور کلاس روم علم کا مرکز سمجھے جاتے تھے، وہاں اب موبائل فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے بھی اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
بظاہر یہ سب سہولتیں علم کے حصول کو آسان بناتی ہیں، مگر ساتھ ہی ان سہولیات نے ایک ایسےجال کی شکل اختیار کرلی ہے،جس کی گرفت میںہماری نئی نسل کی قید ہو گئی ہے،جس کے نتیجے میںحصولِ تعلیم اصل مقصد فوت ہورہا ہے۔اس حوالے سے جب ہم وادی ٔ کشمیرکے تعلیمی نظام پرنگاہ ڈالتے ہیں تو یہاں کے نظامِ تعلیم میں پھیلی ہوئی بے راہ روی ،بد نظمی اور کورپشن کو دیکھ کر افسوس ہورہا ہے کہ نظام تعلیم کو سُدھارنےاور معیار ِ تعلیم کو بڑھانے کے جتنے بھی ڈھنڈورے پیٹے جاتے ہیں،وہ بار آور ثابت نہیں ہورہے ہیںاور مجموعی طور پرتعلیمی حکام کی پالیسیاں اور تدریسی عملے کی کارکردگیاں مایوس کُن ہی دکھائی دے رہی ہیں۔نصاب میں تبدیلی اور مروجہ قواعد و ضوابط میں یکسوئی نظر نہیں آرہی ہے۔اگرچہ نقل کی وباء کو کافی حد تک کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں،پھر بھی سکولوں کی سطح پر قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کا منصوبہ بند طریقہ نابود دکھائی دے رہا ہے۔دیہی علاقوں میں انفراسٹرکچر ،نصابی کتب اور اساتذہ کی کمی تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اردو زبان کی تدریس کی بہتری میں معاون اور موثر سرگرمی نہیں لائی جارہی ہےجبکہ اسکولی بچوں میں اپنی فطری زبان میں بات سمجھانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس پر نہ تو یہاں کی سرکار اور نہ ہی تعلیمی حکام توجہ دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں کےسرکاری سکولوں اور کالجوں کی کارکردگی نہ اطمینان بخش رہتی ہے اور نہ تعلیم کا معیار بُلند ہورہا ہے۔اب اگر یہاں کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات کریںتو اُن کی ہر بات محض تجارتی بنیادوں پر ہی چل رہی ہے۔
اسی لئے ہر ضلع اور ہر جگہ ان کی بھرمار ہے،جن انتظامی عملےکی خود غرضی اور بد دیانتی سے زیر تعلیم اُن طلاب میں اخلاقی گراوٹ نمایاں ہورہی ہے ،جن کا یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہر طرح سے استحصال کررہے ہیں۔مَن چاہے ڈھنگ سے اُن سے موٹی موٹی رقمیں اینٹھ رہے ہیں،مختلف چارزز کے تحت روپیہ پیسہ بٹور رہے ہیں۔سالانہ فیسوں میں اضافے کررہے ہیں، کتابوں ،اسٹیشنری اور یونیفارم کے نام پر لوٹ رہے ہیں،یہاں تک کہ ایڈمیشن دینے اور ڈسچارچ لینے پر بھی نام نہاد فنڈس اور فرضی لوازمات کے تحت اچھی خاصی رقمیںحاصل کررہے ہیں۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دس بارہ سال قبل سےجن سرکاری پرائمری سکولوں کوہائی سکول اورجن ہائی سکولوں کو ہائر سیکنڈری سکول کا درجہ دیا گیا تھا ،اُن میں ابھی تک اکثر سکولوں میں تدریسی عملہ نایاب ہے ۔دیہات اور دور دراز علاقوں میں قائم بیشتر سرکاری سکولوں کی خستہ حالی اور عملے کی نایابی بھی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ جس کے نتیجے میں وادیٔ کشمیر میں حصول تعلیم کا اصل مقصد ہی ملیا میت ہورہا ہے۔
اب جبکہ تعلیم کے موجودہ نظام میں آن لائن کلاسز کا نیا دور شروع ہو گیا ہے، جس میں اُستاد اور ادارے دونوں کی ذمہ داری شامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ آن لائن کلاسز ہمارے لئے ضروری ہیں؟ کیا بچوں کی تعلیم صرف اس ڈیجیٹل اسکرین پر منحصر ہے؟بہت سے والدین اور اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بچے گھر بیٹھے اسکرین کے ذریعے کلاس لیں تو یہ بہترین طریقہ ہے، لیکن حقیقت میں بچے اکثر محض ویڈیوز دیکھنے یا میسجنگ میں مصروف رہتے ہیں ،جس سے جہاں فحاشی و بے راہ روی پھیلتی ہے ،وہیںتعلیم کا اصل مقصد — علم، سوچ اور تحقیق — پیچھے رہ جاتا ہے اور ڈیجیٹل دنیا کا شور اصل تعلیم پر غالب آ جاتا ہے۔الغرض نظام ِ تعلیم میںبد نظمی ،بد دیانتی اور کورپشن ختم نہیں ہورہا ہے اور سرکار ی انتظامیہ کے بار بار اعلانات کے باوجود تعلیمی نظام کو صاف و پاک کرنے ،فعال بنانے اور تعلیم کا معیار کو بُلند کرنےکی تمام کوششیں بے کار ثابت ہورہی ہیں۔ضرورت اس بات کی ان تما م طریقۂ تعلیم کے معاملات میں سنجیدگی کے ساتھ مانیٹرننگ ہو، یہاں کی سرکار اور اعلیٰ تعلیمی حکام متوجہ ہو،تاکہ یہاں کے تعلیمی نظام میں شفافیت پیدا ہوجائے۔