لمحۂ فکریہ
ہلال بخاری
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو افراد کو سنوارتی ہے، قوموں کو بناتی ہے اور آنے والے کل کی سمت متعین کرتی ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کا قریب سے جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ ایک بڑی کمزوری کا شکار ہے، اور وہ ہے اس کے ساتھ جڑا ہوا سست روی کا رویّہ۔ میرے نزدیک تعلیم ایک رکشہ یا ٹھیلا گاڑی کی مانند ہے، جس کے تین پہیے ہیں: استاد، شاگرد اور والدین۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح طریقے سے کام نہ کرے تو پورا نظام ڈھیر ہوجاتا ہے۔ افسوس کہ آج کے دور میں یہ تینوں پہیے کمزور دکھائی دیتے ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں اساتذہ کی، جنہیں بجا طور پر معاشرے کا معمار کہا جاتا ہے۔ استاد کا کام صرف سبق پڑھانا نہیں بلکہ شاگردوں میں جستجو پیدا کرنا، نیا سوچنے پر اُبھارنا اور نئی راہیں تلاش کرنے کی ہمت دینا بھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اکثر اساتذہ اپنے فرائض بوجھ سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ایک سادہ سا کام، جیسے ٹیچر ڈائری بھرنا، انہیں بھاری محسوس ہوتا ہے۔ تدریس میں بھی وہ پرانے اور فرسودہ طریقوں پر انحصار کرتے ہیں۔ جدید اور فعال تدریسی طریقے، جو شاگرد کو متحرک کرتے ہیں، اپنانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کلاس روم خشک اور بے مزہ ہوجاتا ہے اور طلبہ کے اندر سیکھنے کا جذبہ ختم ہونے لگتا ہے۔
اب آتے ہیں دوسرے پہیے یعنی طلبہ کی طرف۔ آج تعلیم زیادہ تر امتحانوں تک محدود ہوچکی ہے۔ اکثر طلبہ کی دلچسپی صرف اچھے نمبر لانے یا ڈگری حاصل کرنے تک رہ گئی ہے۔ علم حاصل کرنے کی خوشی، نئی بات جاننے کا شوق اور سوال پوچھنے کی عادت تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ نقل، رٹّا اور خلاصے پڑھ کر امتحان پاس کرنا عام روایت بن گئی ہے۔ لائبریریوں کا کلچر اور نصاب سے ہٹ کر اضافی کتب پڑھنے کا شوق ناپید ہے۔ گو کہ اس میں طلبہ کو مکمل طور پر قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، کیونکہ تعلیمی ڈھانچے میں بھی نمبروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی طلبہ کی اپنی محنت اور لگن کی کمی بھی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔
تیسرا پہیہ ہیں والدین۔ بدقسمتی سے والدین، خصوصاً وہ جن کے بچے سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، اپنے بچوں کی تعلیم کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں ہوتے۔ وہ شاذ و نادر ہی اپنے بچوں کے تعلیمی معیار کے بارے میں پوچھ گچھ کرتے ہیں، اساتذہ سے رابطے میں رہتے ہیں یا گھر پر ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جو مطالعے کے لئے موزوں ہو۔ ان کے نزدیک تعلیم صرف اسکول یا استاد کی ذمہ داری ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بچے کی کامیابی میں والدین کا کردار نہایت اہم ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان کے کام پر نظر رکھتے ہیں اور اساتذہ سے تعاون کرتے ہیں تو نتائج حیرت انگیز ہوتے ہیں۔
یہ تینوں عناصر—استاد، شاگرد اور والدین—اگر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو تعلیمی نظام بہترین کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک پہیہ کمزور ہو تو گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ایک محنتی استاد بھی اس وقت کامیاب نہیں ہوسکتا جب شاگرد سست ہوں اور والدین بے پرواہ۔ اسی طرح ایک ذہین شاگرد بھی اس وقت مکمل ترقی نہیں کر سکتا جب استاد غیر دلچسپ اور والدین غیر سنجیدہ ہوں۔ یہ مثلثی تعاون ہی ہے جو تعلیم کو کامیاب بناتا ہے۔ افسوس کہ موجودہ منظرنامے میں یہ تعاون تقریباً غائب ہے۔جب تک یہ رویہ نہیں بدلے گا، ہمارا تعلیمی نظام وہ ترقی نہیں کر پائے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ ہمیں ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو مخلص اور جدت پسند ہوں، ایسے طلبہ کی جو محنتی اور جستجو والے ہوں، اور ایسے والدین کی جو اپنی ذمہ داری محسوس کریں۔ تبھی تعلیم محض ڈگریاں بانٹنے کا عمل نہیں رہے گی بلکہ باشعور، باصلاحیت اور ذمے دار انسان پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گی۔مختصراً یہ کہ اگر ہم اس سست روی کو ختم نہ کر سکے تو آنے والی نسلیں جدید دنیا کے چیلنجز کے لئے تیار نہیں ہو سکیں گی۔ لیکن اگر ہم سنجیدگی، تعاون اور خلوص کو اپنا لیں تو ہمارا تعلیمی نظام ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے اور قوم کو روشن مستقبل دے سکتا ہے۔
[email protected]