ایڈوکیٹ کشن سنمکھ داس
عالمی سطح پر تعلیم نہ صرف انسان کی کامیابی کی کنجی ہے بلکہ اس سے قوم کو ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی سمت میں اہم کردار ادا ہوتاہے۔جب ملک کا ہر باشندہ تعلیم حاصل کرے گا تو ملک کی ترقی میں اہم حصہ ڈالا جائے گا، اسی لیے مرکزی اور ریاستی حکومتیں تعلیم پر زور دے رہی ہیں، اس سمت میں مرکزی وزارت تعلیم نے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ جس کا تذکرہ سالِ گذشتہ کے آخری ماہ یعنی 16دسمبر ۱ور21 دسمبر 2024 کو ایک نوٹیفکیشن گزٹ آف انڈیا میں شائع ہوچکا ہے، جس میں اب 5ویں اور 8 ویں جماعت کے سالانہ امتحان میں فیل ہونے والے طلباء کو پاس نہیں کیا جائے گا، تاہم دو ماہ کے اندر ایک اور ٹیسٹ لیا جائے گا، اگرطالب اس میں بھی فیل ہوتا ہے تو اسے اسی کلاس میں رکھا جائے گا۔2019 میں رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد 16 ریاستوں نے فیل نہ ہونے کی پالیسی کو پہلے ہی ختم کر دیا تھا کیونکہ تعلیم ریاست کا سبجیکٹ ہے ،لیکن اب مرکزی حکومت نے بھی فیل ہونے والوں کو فیل رہنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ جوکہ بچوں کی معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے ایک بڑا اقدام ہے، اساتذہ اور والدین بچوںکی پڑھائی میں اہم رہنمائی فراہم کریں گے۔گویا تعلیم کی سطح اصلاحات کی جانب اس قدم سے اب پانچویں سے آٹھویں کے سالانہ امتحان میں فیل ہونے والے طلبہ و طالبات دوسرے کلاس میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔21 دسمبر 2024 کو جاری ہونے والے سنٹرل گزٹ میں نوٹیفکیشن کے مطابق پانچویں اور آٹھویں جماعت کے امتحان میں فیل ہونے والے طلباء کو اگلی جماعت میں پروموٹ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت نے بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم کے قانون میں ترمیم کی ہے اور حکومت کے اس فیصلے سے نو حراستی پالیسی کو ختم کر دیا گیا ہے۔ پہلے فیل ہونے والے طلبہ کو پاس کرکے اگلی کلاس میں ترقی دی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ فیل ہونے والے طلباء کو دو ماہ کے اندر دوبارہ امتحان دینے کا موقع تو ملے گا،لیکن دوبارہ فیل ہونے پر اُسے ترقی نہیں دی جائے گی۔ مرکزی وزارت تعلیم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ابتدائی تعلیم کی تکمیل تک کسی بھی بچے کو اسکول سے نہیں نکالا جائے گا، وزارت تعلیم کے سینئر حکام کے مطابق یہ اصول مرکزی کے زیر انتظام تمام اسکولوں پر لاگو ہوتا ہے۔ کیندریہ ودیالیوں، نوودیا ودیالیوں اور سینک اسکولوں سمیت حکومت 3000 سے زیادہ اسکولوں پر یہ فیصلہ لاگو ہوگا۔ وزارت کے مطابق، اسکول کی تعلیم ایک ریاستی مضمون ہے، اس لئےریاستیں اس سلسلے میں اپنا فیصلہ لے سکتی ہیں، جن میں دہلی سمیت 2 مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے ان دونوں کلاسوں کے لیے عدم حراست کی پالیسی کو ختم کر دیا ہے۔
ایک گزٹ نوٹیفکیشن کے مطابق باقاعدہ امتحان کے انعقاد کے بعد اگر کوئی بچہ وقتاً فوقتاً مطلع کردہ پروموشن کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے، تو دو ماہ کے اندر اندر اضافی کا موقع مل سکتا ہے، اگر دوبارہ امتحان میں آنے والا بچہ پروموشن کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے، تو نوٹیفکیشن کے مطابق اُسے کلاس V یا کلاس VIII میں ہی رکھا جائے گا۔
ہریانہ اور پڈوچیری نے ابتدائی تعلیم کی تکمیل تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، جبکہ باقی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے اس پالیسی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر کوئی بچہ باقاعدہ امتحان کے انعقاد کے بعد وقتاً فوقتاً مطلع کردہ پروموشن کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے تو اسے نتائج کے اعلان کی تاریخ سے دو ماہ کے اندر اضافی ہدایات اور دوبارہ امتحان کا موقع دیا جائے گا۔ حکومت نے یہ شرط بھی شامل کی ہے کہ آٹھویں جماعت تک کے ایسے بچوں کو اسکول سے نہیں نکالا جائے گا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ 2016 میں سینٹرل ایڈوائزری بورڈ آف تعلیم نے انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کو نو ڈٹینشن پالیسی کو ہٹانے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کی وجہ سے طلباء کا تعلیمی سطح گر رہا ہے، نو ڈٹینشن پالیسی کے تحت اساتذہ کے پاس طلباء کی تشخیص کے لیے مناسب وسائل نہیں ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں طلباء کا بالکل بھی جائزہ نہیں لیا گیا۔ پالیسی کے مطابق ملک بھر کے 10 فیصد سے بھی کم سکولوں میں اساتذہ اور انفراسٹرکچر موجود ہیں۔ پالیسی بنیادی طور پر ابتدائی تعلیم میں طلباء کے اندراج کو بڑھانے پر مرکوز تھی جبکہ بنیادی تعلیم کی سطح مسلسل گرتی رہی، جس کی وجہ سے طلباء پڑھائی سے لاپرواہ ہو گئے کیونکہ انہیں اب فیل ہونے کا خوف نہیں رہا۔ 2016 کی سالانہ تعلیمی رپورٹ کے مطابق کلاس 5 کے 48 فیصد سے بھی کم طلباء کلاس 2 کا نصاب پڑھنے کے قابل ہیں۔ دیہی اسکولوں میں آٹھویں جماعت کے صرف 43 فیصد طلباء ہی سادہ تقسیم کر سکتے ہیں۔ پانچویں جماعت کے چار میں سے صرف ایک طالب علم انگریزی جملے پڑھ سکتا ہے۔ کئی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے ابتدائی تعلیم پر آرٹیکل 16 کے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ٹی ایس آر سبرامنیم کمیٹی برائے تعلیم اور CABC کے تحت تشکیل دی گئی واسودیو دیونانی کمیٹی نے بھی نظربندی کی پالیسی کو منسوخ کرنے کی سفارش کی تھی جو کہ تعلیم کے حق 2009 کا حصہ تھی۔ یہ ہندوستان میں تعلیم کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ایک حکومتی اقدام تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو تعلیم کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنا تھا تاکہ وہ اسکول آتے رہیں۔ ناکامی سے طلبہ کی عزت نفس مجروح ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بچے بھی ناکامی کی وجہ سے شرم محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ پڑھائی میں پیچھے رہ سکتے ہیں۔ اس لئے کوئی حراستی پالیسی نہیں لائی گئی جس میں 8ویں تک کے بچے فیل نہ ہوں، یہ بل 2018 میں لوک سبھا میں پاس ہوا تھا،جولائی 2018 میں حق تعلیم میں ترمیم کے لیے لوک سبھا میں بل پیش کیا گیا تھا۔ اس میں اسکولوں میں لاگو نو ڈیٹینشن پالیسی کو ختم کرنے کی بات کی گئی۔ اس کے مطابق پانچویں اور آٹھویں جماعت کے طلبہ کے لیے باقاعدہ امتحانات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی 2019 میں فیل ہونے والے طلبہ کے لیے دوبارہ امتحان کرانے کی بات بھی ہوئی تھی، یہ بل راجیہ سبھا میں پاس ہوا تھا۔ اس کے بعد ریاستی حکومتوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ حراست میں نہ لینے کی پالیسی کو ہٹا دیں یا اسے نافذ رکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی حکومت یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ طلباء کو ترقی دی جائے یا ان کی کلاسوں کو دہرایا جائے اگر وہ پانچویں اور آٹھویں میں فیل ہوتے ہیں۔لہٰذا اگر ہم مندرجہ بالا مکمل تفصیلات کا مطالعہ کریں اور اس کا تجزیہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مرکزی وزارت تعلیم نے تعلیمی سطح کو بہتر بنانے کی جانب ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ اب پانچویں سے آٹھویں کے سالانہ امتحان میں فیل ہونے والے طلبہ بدستور فیل ہوتے رہیں گے، انہیں 2 ماہ کے اندر دوسرا موقع ملے گا، اگر پھر بھی ناکام ہوئے تو انہیں روک دیا جائے گا لیکن نکالا نہیں جائے گا۔
(مضمون نگار مصنف ،مفکر ،شاعرو موسیقی میڈیم ہیں)
رابطہ۔9284141425
[email protected]