حافظ افتخاراحمدقادری
مدارس اسلامیہ کا نیا تعلیمی سال امنگوں اور حوصلوں کو جلا بخشنے والا ہوتا ہے۔ طلبہ اپنے پچھلے تعلیمی ریکارڈ سے کچھ بہتر کرنے کے جذبے سے سر شار ہوتے ہیں۔ بہتر مستقبل کی طرف پیش قدمی ان میں ایک نئی جان ڈال دیتی ہے ،اس لئے ان قیمتی لمحات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان ایام کے لئے خصوصی منصوبہ بندی اور تیاری کرنی چاہئے۔ دینی مدارس کا تعلیمی سال عموماً شوال المکرم میں ہی شروع ہوتا ہے۔ اس حوالے سے چند باتیں پیش خدمت ہیں۔ بچپن سے ہی حدیثِ مبارکہ سنتے آرہے ہیں کہ’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ اعمال سے مراد صرف نماز روزہ اور صدقہ و خیرات نہیں بلکہ ہر عمل ہے۔ نیت یہ ہونی چاہئے کہ الله کی رضا کے لئے علم دین حاصل کریں اور دین اسلام اور مسلمانوں کی علمی و دینی خدمت کریں البتہ دنیوی ثمرات الگ ہیں۔خود کو علامہ یا مفتی کہلوانے کی نیت ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔رسول کریمؐ کا فرمان ہے،قیامت کے دن سب سے پہلے ایک شہید کا فیصلہ ہوگا جب اسے لایا جائے گا تو ربّ کریم اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ ان نعمتوں کا اقرار کرے گا پھر الله پاک ارشاد فرمائے گا :’’تونے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کیا؟‘‘وہ عرض کرے گا :’’میں نے تیری راہ میں جہاد کیا ،یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔‘‘تو الله رب العزت ارشاد فرمائے گا:’’تو جھوٹا ہے تو نے جہاد اس لئے کیا تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔‘‘پھر اس کے بارے میں جہنم میں جانے کا حکم دے گا تو اُسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔پھر اس شخص کو لایا جائے گا جس نے علم سیکھا،سکھایا اور قرآن کریم پڑھا۔وہ آئے گا تو الله پاک اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا تو وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا۔پھر الله پاک اس سے دریافت فرمائے گا:’’تو نے ان نعمتوں کے بدلے میں کیا کیا؟،وہ عرض کرے گا کہ’’میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیرے لئے قرآن کریم پڑھا۔‘‘الله پاک ارشاد فرمائے گا:’’تو جھوٹا ہے تو نے علم اس لئے سیکھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن کریم اس لئے پڑھا تا کہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ تجھے کہہ لیا گیا۔‘‘پھر اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم ہوگا تو اُسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا جسے الله کریم نے کثرت سے مال عطا فرمایا تھا۔اسے لاکر نعمتیں یاد دلائی جائیں گی وہ بھی ان نعمتوں کا اقرار کرے گا تو الله پاک ارشاد فرمائے گا:’’تو نے ان نعمتوں کے بدلے کیا کیا؟۔وہ عرض کرے گا:’’میں نے تیری راہ میں جہاں ضرورت پڑی وہاں خرچ کیا۔‘‘تو الله پاک ارشاد فرمائے گا:’’تو جھوٹا ہے تو نے ایسا اس لئے کیا تھا تاکہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ لیا گیا۔‘‘ پھر اس کے بارے میں جہنم کا حکم ہو گا اور اُسے بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔(مسلم:4923)
یقیناً ہماری منزل الله کریم کی رضا ہے لیکن یہ مت بھولئے کہ علم دین سیکھنے کے بعد عملی زندگی میں بھی جانا ہے۔عملی زندگی میں ہماری منزل کیا ہے؟اس کی پلاننگ نہایت ضروری ہے۔ایک بڑی تعداد ایسے طلبہ کی ہوتی ہے جو آخری سال پڑھ کر فارغ التحصیل ہو جاتے ہیں لیکن انہیں اپنی اور اپنی منزل کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔لہٰذاہر طالب علم اپنے مقصد حیات اور اپنی منزل کا تعین کرے، تحریر و تقریر،تدریس یا جس بھی شعبہ زندگی میں جاکر دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے اس کا تعین کرے۔اس فن و شعبہ کے ماہرین سے مشورہ کرے۔ان کے تجربات سے سیکھے اور پہلے دن سے ہی اپنی مصروفیات،انداز تعلم،غیر نصابی مطالعہ غرض کہ ہر پہلو سے اپنی منزل کو فوکس کرے۔اس وقت اسلام و امت مسلمہ میں قابل،راسخ العلم،راسخ العقیدہ،کثیر المطالعہ اور درد امت رکھنے والے علماء کی اشد ضرورت ہے۔اس لئے آج ہی سے اپنے لئے خدمتِ دین کا ایک شعبہ منتخب کیجئے اور اسی پہلو سے محنت کیجئے۔
سال کا پہلا دن طلاب کے لئے اہم ہوتا ہے۔بعض طلاب اس دن کو اہمیت نہیں دیتے جوکہ بہت نامناسب ہے۔اس دن اساتذہ کرام کی اہم ہدایات اور نصیحتیں شامل ہوتی ہیں۔اساتذہ اپنے زندگی کے تجربات سے آگاہ کرتے اور مستقبل کو روشن کرنے کی راہیں دکھاتے ہیں۔تاخیر اور چھٹی اکثر طلبہ اس بات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہی طلبہ تاخیر و چھٹی کے نقصانات کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔درجے میں ہر پیریڈ کا ایک مقررہ دورانیہ ہوتا ہے۔اُستاد کی کوشش ہوتی ہے اچھے طریقے سے سبق مکمل کرلیں، اس لئے پیریڈ کے آغاز ہی سے سبق شروع ہو جاتا ہے۔لیٹ ہونے والے ابتدائی اہم باتوں سے لاعلم رہ جاتے جبکہ بعض اوقات سبق کے دوران یا بعد میں ایسی ہی بات جو پیریڈ کے شروع میں بیان ہوچکی ہوتی ہے، لیٹ ہونے کی وجہ سے محروم رہتے ہیں۔یوں استاد صاحب اور سارا درجہ تشویش کا شکار ہوتا ہے۔جب تاخیر سے آنا اتنا نقصان کا باعث ہے تو چھٹی کرنا کس قدر محرومی کا سبب ہوگا۔ یہ مت سوچئے کہ درجے میں جاکر اُستاد جو پڑھائیں گے، اُسے سن کر سبق اور کتاب سے کما حقہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ روزانہ کے سبق سے کما حقہ مستفیض ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ جو سبق درجے میں پڑھنا ہے، اسے ایک دن پہلے ہی تین سے زائد بار پڑھا جائے۔ الفاظ کے معانی، عبارت کا مفہوم اور نفسِ مسئلہ کو سمجھا جائے، جو باتیں سمجھ نہ آئیں ان کو لکھ لیا جائے، یوں جب اگلے دن درجے میں استاد سبق پڑھائیں گے تو ہر بات جلد سمجھ آئے گی۔ وقت کی قدر ہم بچپن سے ہی سنتے اور دیکھتے آرہے ہیں کہ وقت رُکتا نہیں گزر جاتا ہے۔ اس لئے اس کی قدر کرنا اور موجودہ وقت کو صحیح کام میں لے آنا ہی کامیابی ہے۔طلاب کی ایک تعداد ہے جو موبائل، انٹرنیٹ، ہوٹلنگ، گھومنے پھرنے اور پڑھائی کے علاوہ دیگر کئی مصروفیات میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیتی ہے۔ وقتی طور پر یہ سب چیزیں بہت اچھی لگتی ہیں لیکن جب وقت گزر جاتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کاش وقت لوٹ آئے۔
رابطہ۔8954728623
[email protected]